ترتیب: عبدالعزیز
غالبؔ نے سچ کہاتھاکہ ”آدمی کوبھی میسرنہیں انساں ہونا“۔آدمی اپنی بڑائی اورخوشحالی کے لئے سوجتن کرتاہے مگروہ اچھاانسان بننے کیلئے جوانسان کا سب سے بڑامنصب اورعہدہ ہے بہت کم کوشش کرتاہے۔ بہتوں کوتویہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیسے اچھے آدمی یااچھے انسان بن سکتے ہیں کوئی فردیاشخص بغیرکوشش اور جدوجہدکے نیک یااچھاانسان نہیں بن سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہرگھرمیں ہرخاندان میں جوبچے پیداہوتے ہیں وہ سچے، اچھے اورمعصوم ہوتے ہیں کیونکہ خالق انہیں اچھی اورصالح فطرت پرپیداکرتاہے مگر ان کے ماں باپ ٗبُر ی صحبتیں یابُراماحول اسے اصلی فطرت پررہنے نہیں دیتی۔
صحبت صالح تراصالح کند …… صحبت طالع تراطالع کند
(اچھی صحبت اچھابناتی ہے، بُری صحبت تمہیں بُرابنادیتی ہے)
انگریزی کایہ مقولہ مشہورہے کہ آدمی دوستوں کی سنگت سے جاناپہچاناجاتاہے۔
"Man is known by his Company he keeps."
یہی وجہ ہے کہ معمولی عقل سے بھی کام کرنے والاکسی بُرے انسان کواپنادوست یاساتھی نہیں بناتابلکہ بُروں کی صحبت سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہے:
”مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو“۔ (مسنداحمد، روایت ابی ہریرہؓ)
احادیث میں اچھے اوربُرے لوگوں کی صفتیں بتائی گئی ہیں تاکہ لوگ اچھے بننے کی کوشش کریں اوربرے بننے سے پرہیزکریں،ایسے لوگ جس میں کوئی خیرنہ ہو اور اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوں وہ بدترین انسان ہے حدیث رسول ؐہے :
”تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے خیرکی امیدنہ ہواورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں“(ترمذی عن ابوہریرہ ؓ کتاب التفف)
ایک شخص نے آنحضرتؐ سے ملاقات کیلئے اجازت چاہی آپ ؐنے اسے آنے کی اجازت دے دی مگراسی وقت حضرت عائشہ ؓسے آپؐ نے فرمایاکہ یہ شخص معاشرہ کا بدترین آدمی ہے۔ جب وہ شخص آیاتوآپ نے نرم لب ولہجہ میں گفتگوکی۔ حضرت عائشہؓ نے اس کی وجہ جانناچاہاتوآپؐ نے کہا اس لئے تمہیں بتایاتاکہ وہ میری غیرموجودگی میں آئے توتمہیں دھوکہ نہ دے سکے پھرآپؐ نے ارشادفرمایا :
”اے عائشہ!اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے بُراانسان وہ ہے جس کے شراورفحش گوئی کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑدیں یااس سے دوری بنالیں“۔ (مسلم باب مدارۃ۔یتقی فحشہ)
اس طرح اگرکوئی کسی کے غائبانہ میں لوگوں کواس کے شرسے آگاہ کرے تاکہ وہ اس کے دام فریب میں نہ پھنسے تواسے غیبت میں شمارنہیں کیاجائے گا۔
آنحضرت ﷺنے سب سے بدتر انسان کی پہچان بتاتے ہوئے فرمایا!
”تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بدترین انسان انہیں پاؤگے جودورخی اختیارکرتے ہیں“ (بخاری عن ابوہریرہؓ)
ایسے لوگ جودورُرخی پالیسی اپناتے ہیں وہ جھوٹے اورمکارہوتے ہیں ان کے اندرکوٹ کوٹ کرمنافقت بھری ہوتی ہے انہیں منافق کہاجاتاہے دوزخ میں ان کی جگہ سب سے نیچی سطح میں ہوگی۔ ایک حدیث میں ارشادہے:
”چارصفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اورجس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ اسے چھوڑنہ دے۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپردکی جائے توخیانت کرے اورجب بولے توجھوٹ بولے اورجب عہدکرے تواس کی خلاف ورزی کرے اورجب لڑے تواخلاق ودیانت کی حدیں توڑدے (گالی گلوج پراترآئے)“
ایسے شخص کاقیامت میں جوحشرہوگااللہ کے رسولؐ نے آگاہی دی ہے :
”جوشخص دنیامیں دوچہرے (Double face)رکھتاہوگاقیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دوزبانیں ہوں گی“۔(ابوداؤدعن عماربن یاسرؓ)
بدترین انسان کی پہچان بتائی گئی:
”اللہ کے بندوں میں سب سے بُرے لوگ وہ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں، محبت کرنے والوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں اوربھلے لوگوں میں عیب تلاش کرتے ہیں“ (مسلم عن حذیفہؓ)
دنیاجیسے جیسے قرب قیامت کوپہنچے گی بُرے لوگوں کی تعدادویسے ویسے بڑھتی جائے گی اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
”قیامت کاوقوع برے لوگوں پرہوگا“۔ (بخاری -عن ابن مسعودؓ)
سب سے بدترین انسان کی پہچان قرآن واحادیث میں واضح اندازسے بتادی گئی ہے۔ تاکہ لوگ بُروں کی بُرائی سے بچیں۔ انسان اچھے بُرے انسان کی تمیزرکھتاہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ بُرے کوبُراکہے یانہ کہے۔ قیامت کے قرب میں بُرائی اس قدرپھیل جائے گی کہ خوب ناخوب ہوجائے گااورناخوب خوب سمجھاجائے گا۔ بُرائی یاظلم سے مزاحمت کرنے والے بھی کم ہوجائیں گے بلکہ دنیااچھے لوگوں سے خالی ہوجائے گی۔ اللہ سے پناہ مانگناچاہئے کہ اس کاحشرایسے لوگوں میں نہ ہوجوبرائی کونیکی سمجھتے ہیں اورنیکی کوبرائی کہتے ہوں۔ دنیامیں منافقوں سے بھی بچنے کی دعاکرنی چاہئے کیونکہ منافق کسی کے دوست نہیں ہوسکتے خواہ جس قدربھی اپنی شکلیں بدلیں مگران کے دومنہ، دوچہرے اوردورُخاپن کولوگ بالاآخرپہچان ہی لیتے ہیں۔ منافق،معاشرہ، محلہ اورملک کیلئے سب سے بڑاناسورہوتاہے۔بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی تعدادروزبروز بڑھتی جارہی ہے،بہادری اوردلیری رُخصت ہورہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ کاسکون غائب ہوتاجارہاہے،انتشاراورتفرقہ میں اضافہ ہوتاجارہاہے، انسانیت دم توڑرہی ہے، انسان حیوانوں اورجانوروں سے بھی بدترہوتاجارہاہے۔ ضرورت ہے کہ لوگوں میں انسانی صفات کوپروان چڑھانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔بھلائی پھیلانے اوربُرائی کومٹانے کیلئے تلقین اورطاقت سے کام لیاجائے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
03مارچ2020
جواب دیں