دو شرمناک گھٹنائیں، ملک کا مستقبل آپ طے کیجئے

 

ایم انعام الحق

کل صبح سے شام تک برادرم سمیع اللہ خان کے توسط سے دو خبریں موصول ہوئی، سمیع اللہ خان کا تعلق ممبئی مہاراشٹر سے ہے، کاروان امن و انصاف کے جنرل سکریٹری ہیں، اور ملک و ملت اسلامیہ کے تئیں فکر مند رہنے والے نوجوان ہیں، اور ملت اسلامیہ ہندیہ کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتے رہتے ہیں، انہیں تازہ اور اہم واقعات کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں، ایک خبر یہ موصول ہوئی ہندوستان کے ایک علاقہ میں ایک مسلم بچہ آصف ابن حبیب کسی مندر میں گرمی کی شدت سے پیاسا پانی پینے گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہیکل اسے دیکھ لیا اور جہالت اور نفرت انگیزی کی حد پار کرتے ہوئے اسے پکڑا اور پوچھا مندر کس لئے گیا؟ بچہ کی معصومیت نے یہ کہا پانی پینے، پھر نام  پوچھا اور ہاتھ کو گھماتے ہوئے نیچے گرا دیا، بس نام سننا تھا کہ اس شخص کی دجالیت اور ابو جہل کے نمائندہ کے سینہ سے تعصب اور نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، کمینگی کی حد اس وقت دیکھی جا سکتی ہے جب اس نے مارتے ہوئے ویڈیو بھی بنائی اور بذات خود علانیہ یہ اعلان کردیا کہ اس ہندوستان میں کسی مندر میں کسی مسلمان کا پانی پینا ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
دوسرا واقعہ دہلی کا ہے، ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی نفرت انگیزی میں ملوث ہونے کی خبر ہے، ایک کتاب ہے جو میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھتی ہے، جس کا نام "Medical Microbiology" ہے جو دہلی کے کسی پبلشر نے چھاپی اور اس کا تیسرا ایڈیشن آچکا ہے، اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ " مارچ 2020 کووڈ کے موقع پر تبلیغی جماعت کی بے توجہی سے کورونا زیادہ پھیل گیا" اس کتاب کا عکس سمیع اللہ خان نے لگایا تھا جس کو ہم نے محفوظ کیا ہے، کتنی افسوسناک اور شرمناک حرکت ہے جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں اس قدر سرایت کرگیا ہے، جس کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں، ایک ایسی کتاب اور ایسا شعبہ جس کا تعلق انسانیت سے ہے، جن کے پڑھنے والے طلباء کا مقصد کسی جماعت، کسی مذہب، کسی کمیونٹی کی خدمت کرنا نہیں ہے بلکہ اسے پڑھ کر "انسانیت" کی خدمت کرنا ہے، اب آپ سوچئے کہ اس کے پڑھنے والے اس پر یقین کریں گے اور جب کسی ہسپتال میں تبلیغی جماعت کا کوئی فرد (خدا نہ کرے) علاج کیلئے بھرتی کرے گا، تب وہ میڈیکل طالب علم یا ڈاکٹر اسے کس نگاہ سے دیکھے گا؟ وہ اپنے کام کرنے والوں سے کہے گا دیکھو یہی وہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں جنہوں نے بھارت میں کورونا پھیلائے تھے۔
آپ میری ان باتوں سے اتفاق نہ کریں بلکہ آپ خود سوچیں اور مستقبل طے کریں، پانی مندر کا ہی پیا جائے یا صرف مسجد کا ہی پی لیں؟ نام آصف ہونے پر مارا جائے گا یا سنتوش یا سوراج ہونے پر بھی مارا جائے گا؟ 
خدا نہ کرے حالات خراب ہوجائیں، بلکہ ہمیشہ یہی دعا ہے کہ حالات عافیت کے ہوں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

تہمت وبہتان-بڑی سماجی برائی

بنگال کی سیاست اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے