تحریر: جاوید اختر بھارتی
رمضان المبارک کا مہینہ آیا لوگوں کو پہلے سے کافی خوشی تھی دکاندار کے چہرے پر کچھ مسکراہٹ آئی تھی، مالوں کی خریداری کچھ شروع ہوئی تھی، خونچہ و خوانچہ ٹھیلا والے اپنی اپنی جگہ متعین کررہے تھے، پھل فروٹ کا آرڈر بک کرا رہے تھے، اپنی اپنی دکانوں کو سجارہے تھے غرضیکہ حوصلے بلند تھے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا ساگ سبزی، پھل سے لے کر سحری و افطار کے انتظامات کے لئے لوگ خریداری کریں گے تو چھوٹے بڑے اور امیر و غریب سب کا بھلا ہوگا یہی تو ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں برکتیں اور رحمتیں بالکل صاف نظر آتی ہیں اور لوگوں کو بلا تفریق مذہب و ملت بھرپور فائدہ حاصل ہوتاہے لیکن اچانک سناٹا چھا گیا، ساری امیدوں پر پانی پھر گیا، سارے ارمان خاک میں مل گئے ، غریبوں اور مزدوروں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ایک سال پہلے کا سارا منظر نظروں میں گھومنے لگا یعنی ایک بار پھر کورونا وائرس نے رفتار پکڑا اور لوگوں کی ساری خوشیاں کافور ہوتی نظر آرہی ہیں ایک سال پہلے لاک ڈاؤن کی مار پڑی اور اب کہ بار تو موت کا سلسلہ تھم ہی نہیں رہا ہے آخر اس کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کا ذمہ دار کون ہے، بد احتیاطی اور لاپرواہی کا ذمہ دار کون ہے اور موجودہ حالات میں مسلسل ہورہی اموات کا ذمہ دار کون ہے اس سوال کا جواب کون دے گا اب تو لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی آرہی ہے کہ پتہ نہیں بیماری ہے یا عذاب الٰہی ہے یا انٹر نیشنل لیبل پر کوئی گیم کھیلا جارہاہے کہیں سپر پاور طاقتوں کے ذریعے دنیا کو بے دست و پا بنانے کی سازشیں تو نہیں کی جارہی ہیں؟ اس لئے کہ ماضی کے واقعات اور مشاہدات بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی وبا پھیلی ہے تو پہلے جانوروں پر اثرات دیکھے گئے ہیں اور موجودہ حالات میں جانوروں پر اس وبا کا کوئی اثر نہیں دکھتا دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کورونا کی پیدائش چین میں ہوئی اور آج وہاں سے کوئی خبر موصول نہیں ہوتی کگتا ہے وہاں سے کورونا کا خاتمہ ہو گیا امریکہ ایسے تیور دیکھا رہا تھا کہ معلوم ہو رہا تھا چین پر حملہ کرکے اینٹ سے اینٹ بجادےگا جبکہ چین کا رویہ تو بالکل ایسا ہی ثابت ہوا کہ اس کے وہاں ایک نطفہ نا تحقیق بچے کی ولادت ہوئی اور وہ اپنے ملک کی سرحدوں سے پھینک دیا اور وہ بچہ ایک سال کی عمر پاگیا اور ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں گھٹنوں گھٹنوں۔ چل کر آفت مچائے ہوئے ہے ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ آج اسرائیل بھی اپنے ملک میں ماسک فری ہونے کا اعلان کررہاہے اور وائرس کے متعلق اس کا کہناہے کہ یہ ہمارے قابو میں ہے تو پھر اسرائیل کو عالمی کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کیا جاتا ان تمام سوالوں کا جواب کہاں ملے گا جہاں تک بات ہمارے وطن کی ہے تو سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو الیکشن لڑنے سے فرصت نہیں، الیکشن کمیشن کو الیکشن لڑانے سے فرصت نہیں، نام نہاد سادھو اور سنتوں کو کمبھ کا میلہ لگانے و لگوانے اور نہان کرانے و کروانے سے فرصت نہیں، اسپتال میں بیڈ نہیں، شمسان میں آخری رسومات کے لئے لکڑیاں نہیں، قبرستان میں قبر کھودنے کے لئے آدمی نہیں، اسپتال میں سہولیات نہیں، ایمبولینس کی بھی کمی ہو گئی، ہندوستان کے بعض شہروں میں ایسا افسوسناک نظارہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ایک جنازے کی آخری رسومات ادا کرتے ہوئے دوسرے جنازے کی خبریں موصول ہوئی ہیں لیکن ان سب کے بعد عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بار بار ابھر رہا ہے کہ چناوی ریلیوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ لوگ قدم اٹھا کر نہیں چل پاتے بلکہ دھکوں کے سہارے آگے بڑھ تے ہوئے دیکھے جاتے ہیں لوگ ماسک بھی نہیں لگائے رہتے ہیں۔ تو کیا وہاں کورونا وائرس اپنا دامن نہیں پسارے گا، کیا کورونا الیکشن سے ڈرتا ہے اسی کو نشانہ بنا تے ہوئے طنزومزاح پر مبنی ایسی ایسی ویڈیو کلپ بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے کہ شرم آتی ہے مگر نہیں شرم آتی ہے تو ہمارے ملک کے نیتاؤوں کو ،، حالانکہ صورت حال اب تو اتنی خراب و تشویشناک ہو چکی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ارتھی و جنازے کو کاندھا دینے والا بھی کوئی نہ ملے تو پھر کیا ہوگا،، اب تو حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں منٹ منٹ پر موت کی خبریں موصول ہوتی ہیں لیکن وقت کے حکمرانوں کے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی پورا دن ریلیوں میں گذارتے ہیں اور شام کو کہتے ہیں کہ دو گز دوری اور ماسک ضروری پتہ نہیں یہ جملہ استعمال کرکے طنز کسا جارہا ہے یا عوام کا مزاق اڑایا جا رہا ہے ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کسی بھی تقریب میں پانچ آدمی سے زیادہ نہیں ہونگے اور دوسری طرف کمبھ میلے میں ہزاروں کی بھیڑ ایک ساتھ اسنان کرتی ہے اور خود سیاسی پارٹیوں کی ریلیوں میں ہزاروں کی بھیڑ اکٹھا کی جاتی ہے،، گذشتہ سال تبلیغی مرکز نظام الدین کو کورونا کی فیکٹری کہا گیا مسلمانوں کی دلآزاری بھی کی گئی نمازیوں پر لاٹھیاں بھی برسائی گئیں ملک میں کورونا کی مہاماری کے لئے تبلیغی جماعت کو ہی اصل ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا بیشمار جماعتیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ، تھالی پیٹنے، تالی بجانے اور موم بتی و ٹارچ جلانے کا اعلان کیا گیا میڈیا نے اس بات کا پتہ لگایا کہ مسلمانوں نے اس پر عمل کیا کہ نہیں بالآخر اس کام کو لے کر بھی ملک کی میڈیا نے مسلمانوں کا خوب مذاق اڑایا
اور ایک سال بعد کمبھ میلے کا انعقاد کرکے موت کے منہ میں جھونکا جارہاہے تو گودی میڈیا نے خاموشی اختیار کر رکھا ہے آج بھی کہیں دکانیں ایسے بند کرائی جاتی ہیں کہ جیسے لگتا ہے کہ دکاندار کورونا بیچ رہا ہے اور سیاسی پارٹیوں کی ریلیوں میں بھیڑ ایسے اکٹھا کرائی جاتی ہے جیسے لگتا ہے کہ ویکسین بانٹی جارہی ہے اس کے باوجود بھی میڈیا کا کردار ایسا ہے کہ جس سے اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا،، آج ہر طرف لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کیونکہ کورونا وائرس کا حملہ تیز تر تیز ہوتا جارہا ہے لیکن حکومت کو صرف الیکشن سوجھ رہا ہے عوام بے چاری مایوسیوں کا شکار ہو رہی ہے اتنا برا حال ہم نے کبھی نہیں دیکھا ضرورت اس بات کی تھی کہ الیکشن منسوخ کردیا جاتا جب تک ملک مہاماری چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتا تب تک صدر راج کے ذریعے کام چلایا جاتا لیکن اقتدار کی ہوس نے سیاسی لیڈروں اور وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اسی لیے ایک پل کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ الیکشن بعد میں،، پہلے عوام کی جان بچانے کی فکر و کوشش کی جائے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی،، ملک کی میڈیا نے ضمیر بیچ دیا، قلم گروی رکھ دیا، زبان کا سودا کرلیا ، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کا ٹھیکہ لے لیا اور قدرت کو یہ ناگوار گزرا آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے اور اب تو حالات اتنے خراب ہیں کہ سوائے دعاؤں کے کوئی چارہ نہیں صنعت اور معیشت لڑکھڑا رہی ہے زندہ رہ کر لائن تو لگاتے تھے مرنے کے بعد مردے بھی لائن میں لگے ہوئے ہیں اللہ ہی خیر کرے-
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں