امریکی تاریخ حیاباختہ جنگوں،آزاد خود مختار ممالک کے امور میں ننگی مداخلت اور معصوم انسانوں کے قتل سے بھری پڑی ہے۔اگر کسی کے پاس مستند اورمصدقہ اعدادوشمار جمع کرنے کا ہنر ہوتا تو پتہ چلتا کہ امن ،انسانی حقوق،جمہوریت اور آزادی کا درس دینے والی سپر پاور کے دامن پر جھوٹ کے کتنے داغ اور مکاری کے کتنے چھینٹے ہیں۔
بھول جایئے کہ چھ اگست ۱۹۴۵ء کوہیروشیما پر پہلا ایٹم بم’’امن و آشتی‘‘کے اسی علمبردارنے گرایا تھا جس سے تین لاکھ سے زائد انسان ہلاک اور لاکھوں اپاہج ہو گئے ۔بھول جایئے کہ ۹اگست ۱۹۴۵ء کو اسی مبلغِ انسانیت نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھاجس سے شہر کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہو گئی تھی۔اڑھائی سو سال پہلے ۱۷۶۳ء میں پہلے جراثیمی ہتھیار بھی امریکا میں موجودہ امریکیوں کے آباؤاجداد نے استعمال کئے تھے۔پہلی جنگِ عظیم کے دوران جنگی قیدیوں پر زہریلی گیس استعمال کرنے کا اعزا زبھی امریکا کے پاس ہے۔ ۱۹۲۵ء میں جب جنیوا کنونشن کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار وں کے استعمال پر پابندی لگا رہا تھا تو سب سے زیادہ مخالفت نہ صرف امریکا نے کی تھی بلکہ اس پابندی کو قبول کرنے سے انکار بھی کر دیا تھا ۔یہ باتیں بھول جایئے کہ قصۂ ماضی ہو چکی ہیں لیکن آج بھی امریکا این پی ٹی پر دستخطوں سے انکاری ہے ۔وہ روس سے کئے گئے اینٹی بلاسٹک میزائلوں کے معاہدے سے بھی یکطرفہ طور پر منحرف ہو چکا ہے۔آج بھی اس کے ایٹمی گودام میں بارہ ہزار سے زائد ایٹم بم ، کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے ۔ آج بھی اس کی غارت گری اور انسانیت کشی جوں کی توں ہے بلکہ کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
تقریباً بارہ سال قبل جولائی ۲۰۰۲ء میں افغانستان کے ایک گاؤں میں شادی کی ایک تقریب جاری تھی۔بچیاں ڈھولک کی تھاپ پر گیت گارہی تھیں،پٹاخے چھوٹ رہے تھے۔ آسمانوں کی بلندیوں سے امریکی طیاروں نے دیکھااور اسے طالبان کی جنگی تیاریوں کا کوئی کیمپ خیال کرتے ہوئے درجنوں بم گرادیئے۔عورتوں اور بچوں سمیت ۴۸بے گناہ انسانوں کے پر خچے اڑگئے۔عالمِ اسلام نے جھرجھری تک نہ لی،مری مری،منمنی سرگوشیوں کے سوا احتجاج کی کوئی لے بلند نہ ہوئی۔قبریں کھدیں اور جلنے سے بچ جانے والے اعضاء دفن کر دیئے گئے۔امریکی سنٹرل کمانڈ نے سینہ تان کر کہا ……..’’ہم اس حملے میں پوری طرح حق بجانب تھے،ہمارے جہازوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔اس سفاکی کے دوسال بعد ایسا ہی المیہ عراق کے ایک سرحدی گاؤں میں بھی پیش آیاجہاں شادی کی ایک تقریب پربم برسا کر ۵۵/افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔زمین پر رینگتے کیڑوں مکوڑوں کو دیکھ لینے والی ٹیکنالوجی کو شادی کی تقریب ’’المہدی آرمی‘‘کی چھاؤنی نظر آئی۔خبررساں ایجنسی رائٹرنے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا کہ شہید ہونے والوں میں ۱۵بچے اور ۲۵خواتین بھی شامل تھیں۔ایک اور عینی شاہد نے العربیہ ٹی وی چینل کو بتایاکہ امریکی طیاروں نے کم و بیش ایک سو بم گرائے۔ٹی وی چینل نے یہ بھی دکھایا کہ کس طرح لہو بہہ رہا ہے اور کس طرح ایک گرد سے اٹی ہوئی سڑک پر کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیرپڑے ہیں۔
ابو غریب جیل اور بگرام ایئر بیس کی متعفن کہانیاں سامنے آنے کے بعدتحقیقات،گواہیاں،بیانات،کورٹ مارشلزاورباز پرس کا ڈرامہ بھی اس تہذیب یافتہ دنیا نے دیکھا لیکن اب تک کوئی نہیں جو اس کھلی بربریت پر امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔آج بھی جب وائٹ ہاؤس ،پینٹاگون یا سٹیٹ آفس کا کوئی کارندہ کسی مسلمان ملک کا رخ کرتا ہے تو حکمرانوں پر شادئ مرگ کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔اس کیلئے سرخ قالین بچھتے،خیر مقدمی بینر لگتے اور پر تکلف ضیافتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔اس کے خون آلود ہاتھوں کو تھامنا،مصافحہ کرنااور چومنا اعزاز وافتخارخیال کیا جاتا ہے۔اس کی تشریف آوری کو اپنی عزت افزائی سمجھا جا تا ہے۔
بیسویں صدی میں اٹھارہ کروڑ کے لگ بھگ انسان جنگوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔اقوام متحدہ وجود میں آئی بھی تو خونریزی نہ روک سکی۔اب تو امریکا نے کسی آزاد ملک پر حملہ آور ہونے کیلئے جھوٹے سچے پرمٹ کی روایت بھی ختم کردی ہے اور ’’حفظِ ماتقدم‘‘کا نیا فلسفہ تخلیق کیا ہے ،گزشتہ صدی کے اختتام پر جولائی ۱۹۹۸ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲۰رکن ممالک ہیگ میں جمع ہوئے ۔انہوں نے جینواکنونشن کے ضابطوں کو زیادہ مؤثر بنانے اور جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کو سزا دینے کیلئے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ(ICC)کے چارٹر کی منظوری دی۔اس عدالت کو عملاً وجود میں آئے ہوئے ۱۶ سال ہونے کو ہیں لیکن امریکا کی بد مستیاں جاری ہیں۔اس نے اس عدالت کے خلاف سب سے زیادہ واویلا کیا اور کہا ’’ہماری فوج تو دنیا کے ایک سوممالک میں موجود ہے ،ہمیں سیاسی وجوہ کی بناء پر اس عدالت میں گھسیٹا جا تا رہے گا۔‘‘
عالمی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کیلئے صدر کلنٹن نے جاتے جاتے اس چارٹر پر دستخط تو کر دیئے لیکن قصرسفید میں قدم رکھتے ہی بش نے اپنے فرعونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کی توثیق سے انکار کر دیا اور اوبامہ بھی انہی کی پالیسی پر کاربند ہیں۔اس عدالت کو غیر مؤثر بنانے کیلئے امریکا نے دنیا کے ۸۹ممالک سے معاہدہ کرلیا ہے کہ اگر کوئی امریکی فوجی یا سویلین انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم میں ملوث پایا گیا تو اسے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔امریکا نے قانون بنا رکھا ہے کہ جو ملک اس نوع کا معاہدہ کرنے سے انکاری ہو ،اس کی امداد روکی جا سکتی ہے۔احتیاط مزید کے طور پر امریکا نے ۲۰۰۲ء میں سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے اپنے آپ کو ایک سال کیلئے اس عدالت سے مستثنیٰ قرار دلوایا،جولائی ۲۰۰۳ء میں اس میں مزید ایک سال کی توسیع کردی گئی اور اس کے بعد اب تک ہر سال امریکا استثنیٰ کا حق دار ٹھہرتا ہے۔
بات یہاں تک ہی موقوف نہیں بلکہ امریکانے جب سے ہمارے ہمسایہ افغانستان کواپنے ڈیزی وکلسٹربموں کانشانہ بنایاہے ،پاکستان بھی اسی دن سے مختلف قسم کی جارحیت کاشکار ہے۔ان مصائب سے جان چھڑانے کیلئے بالآخرہماری افواج کووہاں ضرب عصب شروع کرناپڑاجس میں اللہ نے خاطرخواہ کامیابی عطافرمائی لیکن ان دہشتگردکاسرغنہ ملافضل اللہ اوراس کے ساتھی افغانستان کے علاقے کنٹرمیں پاکستان دشمن قوتوں کی حفاظتی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جوا بھی تک اپنی ناپاک کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ادھردوسری طرف پاکستانی قوم ان دنوں سارا وقت اسلام آباد میں جاری دھرنوں کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کو ایسے دیکھ رہی ہے جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو، اس دوران کسی کو پلک جھپکنے تک کا ہوش نہیں۔اس حملے سے ایک دن قبل امریکی جنرل کیمبل اپنے پہلے دورے پرجنرل راحیل سے علاقے کی صورتحال پراہم مشوروں کیلئے اسلام آبادمیں موجودتھے جہاں ضربِ عضب کے کامیاب آپریشن کے علاوہ افغانستان میں مقیم ملافضل اللہ اوران کے دیگردہشتگردساتھیوں کی حوالگی کابھی مطالبہ کیاگیالیکن اس کوکیاکہیں گے کہ اگلے دن منگل کی صبح افغانستان کے سرحدسے متصل سپین وام کے علاقے میں’’ ڈنڈی کچھ‘‘ کے مقام پر فرنٹئیر کور کی چوکی پر حملہ ہوگیا، پاکستانی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی میں گیارہ شدت پسندوں کو ہلاک اور ایک کوگرفتار کر لیاہے۔کیااب وہ وقت نہیں آن پہنچاکہ پاکستان امریکااورافغانستان سے ’’ڈومور‘‘کامطالبہ کرے اوراپنے اس مطالبے کوامریکی اورنیٹوافواج کے انخلاء سے مشروط کردے !
جواب دیں