ڈاکٹر بشیر بدر نے ٹھیک ہی کہا ہے ؎ سیاست کی اپنا الگ اک زباں ہے لکھا ہو اقرار تو انکار پڑھنا..سب سے پہلے مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل و تعلیم و ترقی محترمہ اسمرتی ایرانی کی بات کی جائے تو مناسب ہوگا ،جب بی جے پی کی سرکار بنی تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بلا تردد و تدبر کے فروغ انسانی وسائل اور تعلیم و ترقی جیسا اہم قلمدان اسمرتی ایرانی کو تھما دیا جن کی تعلیمی لیاقت مشکوک تھی ،سوشل نیٹ ورک سے لے کرپرنٹ میڈیا تک سبھوں نے حملہ بولا لیکن راجناتھ سنگھ کی قربت اور مودی کی آشیرباد سے وہ اتراتی اٹھلاتی رہیں اور انہیں مطلق فرق نہ پڑا ۔لیکن اب ایک مدعی نے دہلی کے پٹیالہ ہائوس کورٹ میں ایرانی صاحبہ کو یہ کہتے ہوئے گھسیٹا ہے کہ ان کی ڈگری فرضی ہے ،انہوں نے ۲۰۰۴ء کے لوک سبھاالیکشن کے حلف نامہ میں کہا :میں ۱۹۹۶ میں دہلی یونیورسیٹی سے فاصلاتی کورس میں بی اے کیا ہوں ،۱۱؍جولائی ۲۰۱۱ء کو گجرات راجیہ سبھا کے لئے حلف نامہ میں کہا :دہلی یونیورسیٹی سے فاصلاتی کورس میں بی کام پارٹ ون ہوں اور ۱۹ ؍اپریل ۲۰۱۴ءکو امیٹھی لوک سبھا کے لئے حلف نامہ میں بیان دیا کہ دہلی یونیورسیٹی کے اسکول آف اوپن لرننگ سے بی کا م پارٹ ون ہوں ۔گوکہ کچھ تو گول مال ہے ؟اسی لئے کورٹ نے مدعی کے دعوی کو قبول کرتے ہوئے لائق سماعت مانا اور ۲۸ ؍اگست کی تاریخ بھی مقرر کردی ہے ۔
سشما سوراج یعنی بی جے پی کاایک بڑا نام اور مودی حکومت میں وزیر خارجہ جیسے اہم منصب پر فائزمحترمہ نے ایک ایسے اشتہاری مفرور ملزم کی حمایت کی جس کا پاسپورٹ تک سابقہ حکومت نے ضبط کر لیا ہے لیکن سشما نے اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئےبرطانوی حکومت سےسفارش کی کہ للت مودی کو پرتگال جانے کے لئے ضروری سفری کاغذات مہیا کرا ئے،ساتھ ہی ہندوستانی ہائی کمشنر سے بھی اس کی مددکرنےکے لئےدبائو ڈالا۔سشما سوراج کا للت مودی کے لئے یہ نرم گوشہ یوں ہی نہیں ہے بلکہ سوراج فیملی کا للت مودی سے گزشتہ ۲۰ سالوں سے ذاتی تعلقات ہیں اور یہ تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ سشما کے شوہر سوراج کوشل اور ان کی بیٹی بانسری کوشل نے مودی کے حق میں کیس لڑنے کے لئے پیسے تک نہیں لئے ۔سشما جو خود بھی ماہر قوانین ہیں نہ جانے وزارت خارجہ جیسے باوقار عہدہ پر رہ کر اس نے ملک کے مفاد کو پس پشت ڈال کر کیسے ایک مفرور ملزم کی مدد کی ،کیا یہ ملک کے ساتھ غداری نہیں ہے ؟
پھر ڈھٹائی سے یہ کہنا کہ :میں نے للت مودی کی مدد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی ہے، کوئی جرم نہیں کیا ہے۔یہ اصرار جرم ہے ،اب محترمہ سے کوئی بتا ئے کہ دائود ابراہیم بھی للت مودی کی طرح ایک انسان ہے وہ بھی انسانی ہمدردی کا محتاج ہے نہ وہ اپنے اقرباء کی خوشی میں شریک ہو پا رہے ہیں اور نہ غم میں لہٰذا اس کی بھی مدد کیجئے ؟
اسی اثناء للت گیٹ معاملے میں خود للت مودی نے اپنے قانونی مشیر اور وکیل محمود عابد کے ذریعہ ہندوستانی چیانلس کویہ آگاہ کر کے ہنگامہ بپا کر دیا کہ کہ ان کے سارے معاملات میں راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے ان کی مدد کر رہی ہیں ،وسندھرا کا ایک تفصیلی مکتوب بھی للت نے منظر عام پر لایا،اور اب وسندھرا کے دستخط والےسارے کاغذات کو فارنسک لیب نے اصلی ہونے کی تصدیق کر دی ہے ۔یعنی وسندھرا نے بھی مودی کی بھرپور مدد کی ہے ۔اور وسندھرا مدد کیوں نہ کریں کہ ان کا بیٹا دشینت سنگھ کا للت مودی سے گہرے روابط ہیں، انہوں نے مودی سے لاکھوں کے شیئر خریدے جس سے کروڑہا روپئوں کا منافع ہوا ،یہ دشینت ہی کمال تھا کہ مودی کے دس روپئے کے شیئر کی قیمت ۹۶ہزار ۱۹۰ روپئے ہو گئی تھی ۔وسندھرا نے تو ایک خفیہ حلف نامہ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ للت مودی کی توہین میرے توہین ہے ۔
بی جے پی کے سینیر لیڈر آنجہانی گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی اور مہاراشٹر سرکار میں خواتین و اطفال کی فلاح و بہبود کی وزیر پنکجا منڈے پربھی ۲۰۶ کروڑ روپئے کے گھوٹالے میں ملوث ہونے کا الزام لگا ہے ۔انگلش اخبار دی نیوانڈین ایکسپریس کے رپورٹ کے مطابق قبائلی بچوں کو دی جانے والے سہولت کی خریداری میں ۲۰۶ کا غبن ہوا ہے ،الزام ہے کہ خریداری کے لئے تکنیکی قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر صرف ایک دن میں ۲۴ ریزو لیوشن پاس کئے بغیر اور ٹنڈر طلب کئے بغیر ایک ممنوعہ غیر سرکاری تنظیم کو ٹھیکہ دے دیا گیا ،جبکہ سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق اگر ۳ لا کھ سے زیادہ خریداری کا معاملہ ہے تو ٹنڈر طلب کیا جانا چاہئے ،مول بھائو ہونا چاہئے ۔گوکہ دال میں کچھ کالا ہے
یہ انتہائی افسوس کی بات ہےکہ ایک صاف ستھری حکومت، بدعنوانیوں سے پاک حکومت دینے کا دعوی ٰ کرنے والی بی جے پی پر ایک نہیں اس کی چار چار دیویاں بیک وقت مہربان ہیں ،کوئی مفرور و مطلوب ملزم سے انسانی ہمدردی دکھاکر ملک کو خطرے میں ڈال رہی ہیں تو کوئی اسی مجرم سے دیرینہ تعلقات نبھا رہی ہیں ،کوئی اپنا قد اونچا کرنے کےلئے جھوٹ در جھوٹ بول رہی ہیں تو کوئی اپنی تجوریاں بھرنے کے فراق میں ہیں ،اوپر سے بی جے پی کی دادا گیری کہ قومی جمہوری اتحاد کا کوئی وزیر استعفیٰ نہیں دے گا ۔بی جے پی کو معلوم ہے ہم کچھ بھی کر لیں کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ،کیونکہ نہ کوئی حزب مخالف ہے اور نہ ہمنوا پارٹیوں کی اپنی کوئی طاقت۔
ایک کہاوت ہے 146146تاڑ سے گرے کھجور میں اٹکے ،،اب تبدیلئ حکومت کے خواہاں اور بی جے پی کو ووٹ دینے والے افراد یہ سوچ رہے ہوں گے کہ جن بد عنوانیوں اور گھوٹالوں سے نجات کے لئے کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا صفایا کیا تھا آج بی جے پی بھی اسی راہ میں چل پڑی ہےبلکہ بی جے پی تو چوری کر کے سینہ جوری بھی کر رہی ہے ۔
جواب دیں