تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
کہتے ہیں کہ دلی سات بار اجڑی اور بسی ہے۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سے زیادہ مرتبہ دلی اجڑتی اور بستی رہی ہے۔گزشتہ ہزار سال میں اس شہر میں کتنے دنگے ہوئے اور کتنی جانیں گئیں،اس کا ٹھیک ٹھیک شمار تو تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں مل سکتا مگر آج مودی راج میں دلی کو جلانے اور اجاڑنے کی ایک کوشش ہوئی جس کی دنیا گواہ بنی۔ کہنے کو تو اسے بھی ہندو۔مسلم فساد کا نام دیا گیا تھا مگر یہ سچ نہیں کیونکہ ہندووں اور مسلمانوں نے تو ایک دوسرے کو جان پر کھیل کر بچایا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دونوں قوموں میں آج بھی پیار برقرار ہے ہاں اگر کوئی دونوں کا دشمن ہے تو وہ سیاسی مفاد پرست ہیں جنھوں نے شہر کو جلاکر اپنا الوسیدھا کرنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ ان دنگائیوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں خود وزیرداخلہ ان کے بچاؤ میں بیان دے رہے ہیں۔
دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام
آدمی کو آدمی درکار ہے
راہل کے لئے شہباز کے آنسو
دلی فسادات کے دوران ایسے بہت سے واقعات سامنے آئے جنھیں دیکھ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔دلی فسادات کے درمیان ایسے لوگ بھی سامنے آئے، جنہوں نے جنہوں نے ہندو یا مسلمان بننے کے بجائے، انسانیت کے مذہب کو نبھایا اور اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کو بچایا۔
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبووفاآئے گی
میں اٹھا لونگا بڑے شوق سے اس کو سر پر
خدمت قوم ووطن میں جوبلا آئے گی
دہلی فسادات کے دوران 26 سالہ راہول سولنکی بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے چھوٹے بھائی روہت سولنکی، جو جی ٹی بی اسپتال کے مردہ خانہ کے باہربھائی کی لاش کے منتظر تھے، نے بتایا کہ اس نے علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اتنی دشمنی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ روہت نے بتایا کہ راہول ایک مارکیٹنگ کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اور شام کو گھر سے باہر آنے پر فسادیوں نے اس کی گردن میں گولی مار دی تھی۔ راہل کے والد کا کہنا تھا کہ سی اے اے مخالف مظاہرہ تو دومہینے سے چل رہا تھامگر امن تھا، اصل میں کپل مشرا نے بیچ میں آکر آگ لگائی۔راہل سولنکی کی لاش پر پھوٹ پھوٹ کر رویا اس کا دوست شہبازعالم جس کا کہنا تھا کہ راہل اس کا دوست ہی نہیں بھائی بھی تھا۔
مسلمانوں کو بچانے میں جھلس گئے پریم کانت
پریم کانت بگھیل نے تشدد کے دن شیو وہار میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کو فسادیوں سے بچانے کے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔بگھیل نے بتایا کہ فسادات کے دن لوگوں کے گھر پیٹرول بموں سے جل رہے تھے۔ ادھر، فسادیوں نے ایک مسلمان ہمسایہ کے گھر کو آگ لگا دی۔ جب اسے معلوم ہوا تو وہ گھر میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لئے بھاگے اور انھوں نے چھ افراد کو نکال لیا، لیکن ان کے دوست کی بوڑھی والدہ گھر میں پھنسی ہوئی تھیں اور آگ بڑھ رہی تھی۔ بگھیل کا کہنا ہے کہ وہ انہیں بچاتے ہوئے جھلس گئے۔پریم کانت بگھیل نے کہا کہ اگرچہ وہ جھلس گئے ہیں لیکن اپنے دوست کی ماں کو بچا کر بہت خوش ہیں۔بگھیل اس وقت بھی جی ٹی بی اسپتال کے برن وارڈ میں ہیں اورخطرے سے باہر نہیں ہیں۔
مسلمانوں کی وجہ سے زندہ بچ گئے سنیل جین
تشدد سے متاثرہ بھاگیرتی وہار میں رہنے والے سنیل جین کا کہنا ہے کہ فسادیوں کے ہجوم نے انھیں مارنا چاہا لیکن اگر وہ زندہ رہ سکے تو اس کی وجہ ان کے مسلمان ہمسائے ہیں۔ مصطفےٰ آباد روڈ پر واقع اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اور کچھ ہندو خاندان بھی وہاں آباد ہیں۔ سنیل جین نے بتایا جب فسادی گلی میں داخل ہوئے تو ہم حیرت میں پڑ گئے۔ اس وقت گلی میں رہنے والے ہاشم، ڈاکٹر فرید اور عرفان سمیت دیگر بہت سے مسلمان ان کی ڈھال بن گئے اور گلی کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ ان مسلمان بھائیوں نے فسادیوں سے کہا ’ہندوؤں تک پہنچنے کے لئے انہیں پہلے ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا۔‘اس کے بعدوہ ہندو خاندانوں کو بچانے کے لئے کالونی کے گیٹ پر رات بھر پہرے پر رہے۔
اجے شرماجب، نعیم کے لئے آگے آئے
تشدد سے متاثرہ چمن پوری علاقے میں گردوں کے مریض نعیم احمد کو ڈائیلاسز کی ضرورت تھی لیکن وہ ہنگاموں کے سبب تین دن سے گھر سے باہر نہیں نکل پارہے تھے۔ کنبہ نے بہت سارے لوگوں سے مدد طلب کی لیکن فساد یوں کے خوف کی وجہ سے کوئی ان کی مدد کے لئے آگے نہیں آیا۔ جب نعیم کے پڑوسی اجے شرما کو اس کا پتہ چلا تو انھوں نے نجی ایمبولینس منگوائی اور نعیم کو اسپتال لے کر گئے۔
عرفان کے لئے ڈھال بن گئے گھنیشام
انتہائی پْرتشدد علاقہ برہم پوری میں عرفان کے پورے کنبے کو فسادیوں نے گھیر لیا۔ یہ دیکھ کر اس کے پڑوس میں رہنے والے گھنشیام مشرا،عرفان کے اہل خانہ کو بچانے کے لئے فسادیوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے فسادیوں کا مقابلہ کیا اور پولیس کو فون کرکے بلایا اورعرفان کے اہل خانہ کو بچایا۔
ایک تصویر جس نے دنیاکو جھنجھوڑ دیا
محمد زبیر کو ان کے نام سے زیادہ لوگ نہیں پہچانتے لیکن ان کی تصویر نے نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ تصویر دہلی کے فسادات کی ایک تکلیف دہ تصویر ہے۔ وہ تصویر، جس میں ایک شخص زمین پر گر ا ہے اوراسے فسادی ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مار رہے ہیں۔ یہ تصویر دہلی میں مظالم کی علامت بن گئی ہے۔ 37 سال کے محمد زبیر گذشتہ 19 سالوں سے چاند باغ میں رہتے ہیں، کولر ٹھیک کرنے کا کام کرتے ہیں۔ زبیرنے شہریت ترمیمی ایکٹ پر جاری احتجاج میں بھی کبھی حصہ نہیں لیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے قصاب پورہ عیدگاہ کے اجتماع میں نماز اداکی،اس کے بعد ایک دکان سے بچوں کے لئے حلوہ پراٹھا لیا اور دو کلو سنترے خریدے۔ان کا کہنا ہے کہ چاند باغ کیلئے راستہ میں تھا جب معلوم پڑا کہ میرے گھر کی طرف ہنگامہ برپا ہے۔ اس کی وجہ سے بس سے راستے میں ہی اتر گیا۔ بھجن پورہ پہنچا تو وہاں دونوں طرف سے پتھربازی چل رہی تھی۔ مجھے سڑک کی دوسری طرف اپنے گھر جانا تھا۔ وہاں انڈر پاس کی طرف جانے لگا۔ تب کچھ لوگوں نے مجھے روک لیا اور دوسری طرف سے جانے کو کہا۔ یہ لوگ پتھراؤ میں ملوث نہیں تھے، لہذا میں نے ان پر اعتماد کیا۔ مجھے لگا کہ وہ میری حفاظت کے لئے مجھ سے دوسری طرف سے جانے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ مجھے فسادیوں کے پاس بھیج رہے ہیں۔ جیسے ہی میں دوسری طرف پہنچا، بہت سے لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور مار پیٹ شروع کردی۔ ان میں سے کچھ نے پہلے میرے سر پر لوہے کی چھڑ مار دی اور اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کتنے لوگوں نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا۔ مجمع میں شامل ایک شخص باقی کو بھی روک رہا تھا اور مجھے وہاں سے جانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ لیکن وہ بھی شاید تنہا تھا۔
مسلمان پڑوسیوں کی مدد سے ہندو لڑکی کی شادی انجام کو پہنچی
دہلی تشدد کے دوران، مسلم اکثریتی علاقے چاند باغ میں رہنے والی ایک ہندو لڑکی کے اہل خانہ کو شادی منسوخ کرنے پر مجبورہونا پڑا لیکن مسلمان پڑوسیوں کی مدد سے، وقت پر شادی ہوگئی۔ مہندی اور شادی کے جوڑے سے آراستہ 23 سالہ ساویتری پرساد نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں اس وقت رو رہی تھی جب شادی کے دن پرتشدد ہجوم باہر ہنگامہ برپا کررہا تھا۔ دلہن ساویتری نے بتایاکہ میرے مسلمان بھائیوں نے ہماری حفاظت کی۔ساویتری پرساد کے والد نے بتایا ان کے مسلمان پڑوسیوں نے ان کی مدد کی اور شادی اپنے وقت پر انجام کو پہنچی۔ اس شادی میں اگرچہ ان کے رشتہ دار شامل نہیں ہوئے مگر مسلم پڑوسیوں کی شرکت رہی۔واضح ہوکہ ساویتری کا گھر چاند باغ کی ایک تنگ گلی میں ہے۔یہاں جب یہ شادی ہورہی تھی،باہر چند قدم کے فاصلے پر پورا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کاروں اور دکانوں کو توڑا جارہا تھا، سڑکوں کو نذر آتش کیا جارہا تھا۔ دو طرفہ پتھر بازی ہورہی تھی اورفائرنگ چل رہی تھی مگر مسلمانوں نے اپنے ہندو پڑوسی کی مدد کی۔لوگ گیٹ پر کھڑے پہرہ دیتے رہے اور اندر شادی انجام کو پہنچی۔
جواب دیں