دل دردمندان کے لیے امارت شرعیہ بہار کاایک اہم پیغام

جب کہ ان لاشعور میں آپ کی عظمت اور اسلام کی حقانیت بہر حال موجزن ہوتی ہے، مگر ان بختوں کی طبع اور حالات پر ضد اور حسد کا عنصر غالب ہوتا ہے، اور یہی حسد دین میں فساد ،یقین میں کمزوری پیدا کرتا ہے، انسان کو ذلت و رسوائی سے قریب کرکے سعادتوں سے محروم کردیتا ہے، نیکی اور خیر خواہی کے جذبات ختم کرکے بھلائیوں سے دور کر دیتا ہے ، حق و باطل کے پیمانے کو بدل کر انسان کو غیر معیاری و غیر معتدل بنا دیتا ہے ، جسم کو تھکا کر قوی مضمحل کر دیتا ہے ، ڈپریشن کا عادی بنا کر زندگی کا سکون و اطمینا ن غارت کر دیتا ہے۔اس کی قدامت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ آسمان پر سب سے پہلے ابلیس لعین اس کا شکار ہوا اور زمین میں آدم کا بیٹا قابیل۔ابلیس سجدۂ آدم کا منکر ہوکر غضب الہٰی کا مستحق ٹھہرا اور قابیل قتلِ ہابیل کا مرتکب ہوکر تاریخ انسانیت کو داغدار کر گیا۔یوسف کے بھائیوں نے اس کی زد میں آکر حضرت یوسف کے قتل پر آمادگی ظاہر کی ، قوم یہود نے اسے موروثی حق سمجھ کر گلے لگایا اور متعدد انبیاء کو قتل کیا، آخری نبی حضرت محمدؐ سے اپنی شدید دشمنی کا اظہار کیا اور کئی بار آپؐ کو قتل کرنے کی کو شش کی۔چونکہ یہود نبی ؐکی بعثت سے قبل اپنے مکر و فریب اور علمی برتری کی وجہ سے سارے عرب پر حاوی تھے حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی ان سے خائف رہا کرتے تھے اور اہم امور میں ان سے یہ کہہ کر رجوع کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس آسمانی علم ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر اسلا م کے غلبہ کی وجہ سے ان کی علمی برتری جاتی رہی اور ان کی سازشیں واضح ہونے لگیں۔ نتیجتاً وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد رکھنے لگے۔
قرآن میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے(ترجمۃ) یہ مسلمانوں سے اس لئے حسد کررہے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرف سے فضل نصیب ہے۔ ( کہ جس سے وہ خود محروم ہیں )۔ النساء۔ 
منافقین بالخصوص عبد اللہ بن اْ بَی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا ، نبیؐ کی مدینہ آمد سے قبل تک وہ وہاں کا پیر مغاں تسلیم کیا جاتا تھا ، اہل مدینہ تقریباً اس کی سرداری پر متفق ہوچکے تھے مگر ہادئ برحق کی آمد سے اس کی سرداری کو پورے طور سے خطرہ محسوس ہوا پھر وہ آپ کا دشمن بن گیا اور آپﷺ کے فضائل و مناقب دیکھ کر تا حیات حسد کی آگ میں جلتا رہا۔ آگ اس قدر شدید تھی کہ قبولیت اسلام سے بھی سرد نہ ہوئی اور ہوتی بھی کیسے کہ اس نے اسلام قبول ہی کیا تھا اپنے حاسد انہ ارادوں کو پورا کر نے کے لئے۔ ظالم ایذا رسانی کے تمام نسخے آزماتا ہوا فنا کے گھاٹ اتر گیا۔اسی طرح ابو لہب، ابو جہل، کعب بن اشرف، مسیلمہ کذاب، اور عصر حاضر میں مہاشے راجپال، مرزا غلام قادیانی، مرزا طاہر، شیطان رشدی تسلیمہ نصرین، بلکہ گزشتہ چودہ صدیوں پر اگر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ جتنی ہرزہ نسائی گزشتہ سو برسوں میں کی گئی، اس کی مثال پہلی تیرہ صدیوں میں نہیں ملتی،اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اصل میں اسلام کی آفاقیت اوراسکے فروغ سے بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں، انہیں مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسسی ترقی اوران کی یکجہتی ویگانگت ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے، اس لیے وہ ایسی مجرمانہ کاروائی میں مشغول رہتے ہیں۔ورنہ کتنے انصاف پسند مغربی مفکرین اور ہمارے برادران وطن نے اعتراف کیا ہے کہ انسانیت میں اگرکوئی عظمت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ محمد ﷺہیں، آپ وہ عظیم انسان ہیں جن کے جیسے اس دھرتی پر نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ قیامت کے دن تک پیدا ہوسکتا ہے ،آخر اس سے بڑھ کر عظیم انسان کون ہوسکتا ہے جو ایک دن اور دو دن نہیں 23 سال تک انسانیت کی خیرخواہی کے لیے تڑپتا رہا ، پھروہ دن بھی آیا کہ جن لوگوں نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگائی تھی اپنے کئے پر پشیماں ہوئے اور آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں لے کر پھیل گئے۔ کیونکہ ان کویقین ہوگیاتھا کہ آپ ساری انسانیت کے لیے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں، کیااس انسان سے بڑھ کر رحم وکرم کا پیکر کوئی ہوسکتا ہے کہ جن کی خیرخواہی کی تھی انہوں نے ہی ان پر پتھر برسائے تھے، یہاں تک کہ خون آلود ہوکرزمین پر گرگئے تھے، جب ہوش آیا اورفرشتے نے ظالموں کو جرم کا انجام چکھانے کی اجازت چاہی تویہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ان میں سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغام مصطفے کو فرش زمین پر بسنے والے ایک ایک فرد تک پہنچایا جائے، کہ اس سے نوع انسانی کے پیاسے قلوب سیراب ہوں، اور اپنی اصل کو جان سکیں، اور کسی کی چاہت بھٹک کر عداوت کا روپ اختیار نہ کرے، اور اس کی نتیجہ میں نبی امی کی ذات اقدس پر حملہ آور ہونے کی جراء4 ت نہ کرے۔
واضح ہو کہ آپﷺکی اہانت کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے سورج پر تھوکنے کی جرأت کی تو تھوک ان کے چہرے ہی پر آگرا، تجربات بھی شاہد ہیں کہ اس طرح کی نازیبا حرکتوں کا انجام ہمیشہ بہتر ی کی شکل میں سامنے آیا ہے ،ہمیں اللہ پاک کے اس فرمان پر یقین رکھنا ہے کہ (ترجمہ) ’’اسے اپنے لیے بْرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ‘‘۔ البتہ ہمیں اس مناسبت سے اپنے حبیب کے دفاع کے لیے اپنے عزم کو جواں رکھتے ہوئے ذیل کے چندکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے جس کی وضاحت امارت شرعیہ بہار واڑیسہ کے ناظم ہم سب کے رہنما حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی نے اپنے پیغام میں کیا ہے ۔ 
1.سیرت کے موضوع سے چھوٹے چھوٹے کتابچے غیر مسلموں مین تقسیم کیے جائیں، 2.سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے اور اسلام کی سچی تعلیمات کو عام کیا جائے، 3.رسول اکرم کی حیات مبارکہ سے متعلق واقعات خاص طور سے انسانی حقوق، اسلام اور امن عالم، نبی صلعم کی خارجہ پالیسی، اسلام اور غیر مسلموں کے حقوق، بنی کی روادری، وغیرہ کو عام کیا جائے۔ 
اس وقت امارت شرعیہ کی اس پیش قدمی کو سراہنا چاہیے، اور اس پر ملک میں بسنے والے معزز علمائے کرام، محترم ائمہ عزام اساتذہ و ذمہ داران مدارس ملک میں بسنے والے صحافی اور قلمکار کے ساتھ ساتھ دارالقضا کے قاضیوں کو بھی اس سمت توجہ دینے کی ضرورت ہے، کہ وہ اپنے مضامین اور خطابات کے ذریعہ نبی کے ذکر خیر، اخلاق وعادات، احکام و فرمودات، اور سنتوں کو عام کریں، اس موقع سے امیر شریعت سابع حضرت مولانا ولی رحمانی اور ناظم امارت شرعیہ انیس الرحمان قاسمی کے ہم سب کو شکر گزار ہونا چاہیے، کہ ان کا یہ پہل ملک کے موجودہ پس منظر میں جب کہ عدم رواداری میں سر اٹھا رکھیے ہیں، اور رسول صلعم کی ذات اقدس کو داغدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خدا کرے کہ ہمارے قائدین کا یہ پیغام اس ملک کے لیے اکسیر ثابت ہو۔

«
»

تیسری عالمی جنگ کے آثار

حضورصلی اللہ علیہ و سلم اخلاق کے عظیم مقام پر فائز ہیں۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے