دھرتی کے بھی بوجھ اور پارٹی کے بھی

دسمبر نے ان ہی ساکشی نے ناتھورام گوڈسے کے متعلق کہا تھا کہ وہ محب وطن تھا لوک سبھا میں جب ہنگامہ ہوا اور وزیر اعظم نے معافی کے لئے کہا تو الفاظ واپس لے لئے ہاؤس نے اسے معافی نہیں مانا تو پھر کہہ دیا کہ میری نیت یہ نہیں تھی پھر شور ہوا تو کہا کہ اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اس پر بھی ہنگامہ نہیں رُکا تو اسپیکر نے سفارش کی کہ وہ چار دفعہ معافی مانگ چکے اب آپ لوگ انہیں معاف ہی کردیں تب ان کی جان چھوٹی۔
اس وقت نہ فیملی پلاننگ کا کوئی مسئلہ ہے نہ حکومت کی طرف سے ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ جیسی کوئی بات ہے اس پر سکون ماحول میں جبکہ کشمیر کی حکومت میں بی جے پی اور پی ڈی پی لو اور دو کے مذاکرات چل رہے ہیں شری ساکشی بابا نے کہہ دیا کہ ہر ہندو عورت کو چار بچے پیدا کرنے چاہئیں اور مزید کہا کہ یہ چار عورتیں اور چالیس بچے اب نہیں چلیں گے۔ اس وقت ہاؤس تو چل نہیں رہا کہ وہاں ہنگامہ ہوتا لیکن بی جے پی کے صدر امت شاہ نے کہا کہ پارٹی کے لیڈروں کی بیان بازی بھاری پڑرہی ہے۔ انہوں نے مانا کہ تبدیلی مذہب پر رہنماؤں کے بیانات سے بی جے پی کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔ ممبرانِ پارلیمنٹ اس طرح کے بیان دیں گے تو پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
مسلمان کو ان کے مذہب نے اگر ضرورت ہوتو ایک سے زیادہ چار تک شادی کی اجازت دی ہے سعودی عرب جیسے ملکوں میں جہاں کے مسلمانوں پر ہندو سماج کا اثر نہیں ہے وہاں ایسے بہت لوگ مل جائیں گے جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں لیکن ہندوستان میں اگر پورے ملک کا جائزہ لیا جائے تو شاید دو فیصدی بھی ایسے مسلمان نہیں ملیں گے جن کے گھر میں ایک سے زیادہ بیوی ہو۔ اب رہا بچوں کا مسئلہ تو جاہل ہندو یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بچوں کی پیدائش روکنے کے لئے کسی علاج کی اسلام میں اجازت نہیں ہے رہے غریب اور جاہل تو زیادہ بچے وہ اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم اس لئے حاصل نہیں کرسکتے کہ سرکاری اسکول میں پڑھائی نہیں ہوتی جہاں پڑھائی ہوتی ہے ان اسکولوں میں آنے جانے کی بھی ان کی حیثیت نہیں۔ حکومت مفت تعلیم کا ڈھول بجاتی ہے لیکن وہ صرف نعرے ہیں۔ ان اسکولوں میں غریب اپنے بچوں کو بھیج کر برباد نہیں کرنا چاہتے ان کے بچے بڑھئی لوہار پینٹر مستری کا کام سیکھ کر یا رکشہ چلاکر جیسے تیسے پیٹ پال لیتے ہیں یا دُکانوں پر نوکری کرلیتے ہیں یا کارخانوں میں کام سیکھ کر نوکر ہوجاتے ہیں۔
ساکشی بابا کا یہ کہنا کہ چار عورتیں اور چالیس بچے اسی ملک کے ایک شہر میں رہنے کے باوجود کہنا صرف جہالت ہے وہ پارلیمنٹ کے ممبر بنے ہیں تو اس لئے نہیں کہ قابل ہیں سیاست کو سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے بنے ہیں کہ انہوں نے روپ ایسا بنا لیا ہے جو جاہلوں کے ہر مرض کا علاج ہے انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں صرف اپنے چیلوں سے کہیں کہ ان کے آس پڑوس میں یا اُن کے محلے میں یا اُن کے گاؤں میں ایسے مسلمان کتنے ہیں جن کی چار بیوی ہیں اور چالیس بچے ہیں تو اس کی لسٹ بناکر لادیں اگر وہ لادیں تو ہمارے اخبار میں بھیج دیں ہم چھاپ دیں گے اور انہیں بہت بڑا مہاراج کہیں گے اور اگر وہ ایک بھی نہ لاسکیں تو ہم انہیں موٹے موٹے حروف میں جھوٹا ڈھونگی لوٹ پاٹ کرنے والا سب کچھ لکھیں گے اور بار بار لکھیں گے۔
بی جے پی کے صدر امت شاہ اور دوسرے لیڈروں نے ساکشی کے چار بچوں کے بیان پر کہہ دیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ کوئی لیڈر کسی طرح کا احمقانہ بیان دے دے تو وہ اس کی ذاتی رائے ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے یہ اعلان کیوں نہیں کردیا جاتا کہ صدر سکریٹری اور ترجمان کوئی بیان دیں گے تو وہ پارٹی کا ہوگا اور باقی کوئی وزیر یا کوئی عہدیدار یا کوئی بھی ایم پی کچھ کہے تو وہ اس کی ذاتی رائے ہوگی۔
موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل دونوں نے کہا کہ آٹھ سو سال کی غلامی کے بعد اب ہندو حکومت بنی ہے یا اب ملک آزاد ہوا ہے تو ہم اسے کیا سمجھیں؟ ان دونوں کو لپاڑ یا کم عقل یا ڈھونگی سمجھیں اور انہوں نے جو کہا اسے ذاتی رائے سمجھیں جبکہ یہ دونوں وہ ہیں جو بی جے پی کے ممبر بھی نہیں ہیں ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں ہیں پھر بھی ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ نریندر مودی کو وزیر اعظم انہوں نے ہی بنوایا اور بی جے پی کے بڑے لیڈر شری اڈوانی اور شری جوشی کو انہوں نے ہی طاق پر رکھ دیا۔
اور یہ بھی ان دونوں کا ہی اثر ہے کہ جموں کشمیر میں حکومت بنتے بنتے بگڑنے کی طرف چل پڑی اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اگر اپنے ان وعدوں کو جو الیکشن سے پہلے کئے تھے فراموش کرکے حکومت کی خاطر ٹھنڈے بستے میں ڈالتی ہے تو یہی لوگ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہوا جو حکومت کے لئے اٹل جی نے کیا تھا اور اگر اپنی شرطوں پر حکومت بناتے ہیں تو دوسری پارٹی جس نے اپنے ووٹروں سے کہا تھا کہ ہم صورت حال تبدیل نہیں ہونے دیں گے وہ ان کو کیا منھ دکھائیں گے؟ مفتی سعید صاحب کا کامن پروگرام امت شاہ یا موہن بھاگوت کے حلق سے نہیں اُتر رہا اس لئے اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ فروری یا مارچ میں ایک الیکشن پھر ہو اور اس وقت تک الیکشن ہوتے رہیں جب تک بی جے پی اپنے مشن 45 کو حاصل نہ کرلے۔ بہرحال کچھ بھی ہو کشمیر کے وہ دن آگئے جن کو سوچ کر کشمیری کانپا کرتے تھے۔

«
»

پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما

بعثت رسول سے قبل عرب کے حالات کا اجمالی جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے