دھرم رکشک سرکار کے دُلارے کانوڑیے

حفیظ نعمانی

پروردگار اس ملک کی حفاظت فرمائے جسے ایک طبقہ نے برباد کرنے کی شاید قسم کھالی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ منصوبہ بند سازش اس لئے ہو کہ اگر کوئی دوسری پارٹی حکمراں بن جائے تو وہ ایک سال کے اندر ہی حکومت کو چوراہے پر رکھ کر بھاگ جائے جیسے غلط لوگوں کا شکار بنی کوئی لڑکی ناجائز بچے کو نظروں سے دور چھوڑکر بھاگ جاتی ہے۔ 2014 ء میں مودی جی نے ہر اس جگہ جہاں انہوں نے نوجوانوں کا جوش دیکھا اور حالات سے اتنی بیزاری دیکھی کہ وزیراعظم بننے کے بعد جب وہ کسی ریاست میں گئے تو سرکاری آداب کے مطابق وہاں کے وزیراعلیٰ کے لئے یہ ضروری تھا کہ ملک کے وزیراعظم کو اپنی ریاست میں خوش آمدید کہے اور ریاست کے مسائل اور ضرورتیں ان کے سامنے رکھے۔ لیکن ہر جگہ وزیراعظم مودی نے دیکھا کہ پرجوش نوجوانوں نے اپنے صوبہ کے وزیراعلیٰ کی تقریر میں مداخلت کی اور مودی مودی مودی کے اتنے نعرے لگائے کہ انہیں تقریر درمیان میں ہی چھوڑنا پڑی۔
وزیراعظم کے لئے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے ان نوجوانوں کی بدتمیزی پر ان کی سرزنش کرتے اور کہتے کہ وہ جب تک وزیراعلیٰ ہیں احترام کے قابل ہیں۔ اور انہیں بتاتے کہ جمہوریت کے آداب میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ صوبہ کے حالات پیش کرے جن کا تعلق تم سب سے ہے۔ آئندہ یہ حرکت کبھی نہ کرنا۔ اس کے برعکس وہ وزیراعلیٰ کے ذلیل ہونے اور ادھوری بات چھوڑکر بیٹھ جانے سے خوش ہوتے تھے۔ اور نوجوانوں کے بارے میں مگرمچھ کے آنسو بہاکر کہتے تھے کہ کیسے کیسے ہیرے خاک میں پڑے ہیں۔ میں ان سب کو روزگار دوں گا اور بار بار کہا کہ دو کروڑ نوکریاں ہر سال دی جائیں گی اس کے بعد جے شری رام۔ تو کم کہا جاتا تھا نریندر مودی کی جے ہر زبان پر ہوتا تھا۔
یہ بات پورا ملک جانتا ہے کہ نئے نوجوانوں کو روزگار کیا ملتا نوٹ بندی کے بعد لاکھوں نوجوان جن کارخانوں اور فیکٹریوں میں لگے تھے وہ بھی بے روزگار ہوگئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی جی نے دنیا کے ہر ملک کا دورہ کیا اور نہ جانے کتنے ایسے ملکوں میں گئے جہاں جاکر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا وزیراعظم اس ملک میں پہلی بار آیا ہے۔ اور ہر جگہ جھولی پھیلائی کہ ہندوستان آکر کارخانے لگایئے ہم ہر طرح کے کارکن، زمین، بجلی اور پانی جتنا کہئے گا دیں گے لیکن سیکڑوں ملکوں میں سے کسی ایک نے بھی ہندوستان آنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ہوسکتا ہے انہوں نے وزیراعظم اور حکومت کی سرپرست آر ایس ایس کے بارے میں تفصیلات معلوم کرلی ہوں اور وہ نہ آئے ہوں یا کوئی دوسرا سبب ہو؟
مودی جی نے تین سال محنت کرکے جب دیکھا کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کرپائیں گے تو انہوں نے شاید یہ سوچا کہ اب اپنے اس نعرہ ’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘ پر عمل کرنے کا وقت آگیا۔ سننے والوں نے تو اس کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ نہ گھوٹالہ کروں گا نہ کرنے دوں گا۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ حکومت حکومت کی طرح کروں گا اور نہ کسی کو کرنے دوں گا۔ اس کے بعد سے ہی انہوں نے ہر تھانے میں چوڑیاں بھیج دیں کہ یہ پہن لو اور بے روزگار ہندو نوجوانوں کو اشارہ کردیا کہ لوٹو مارو اور کھاؤ یہی روزگار ہے۔ اور اس پر عمل اس طرح ہوا کہ جس مسلمان کے ہاتھ میں گائے کی رسّی دیکھی اس پر مودی کے بے روزگار ٹوٹ پڑ ے کہ ’کاٹنے کے لئے لے جارہا ہے اس سے گائے چھینی اس کے روپئے نکالے موبائل چھینا اور پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیا‘۔ اس کے بعد دوسرا عنوان بچہ چوری کا بنایا ان کے علاوہ کوئی تہوار ہو یا دسہرہ اور رام نومی ہو ہر موقع پر جلوس اور جلوس میں ہر کسی کے پاس تلوار بانکا پھرسا اور لہراتا ہوا جھنڈا جس بازار میں مسلمانوں کی دُکانیں ہوں اس میں گھسنا اور لوٹ پاٹ کرکے جلانا ایک روزگار یہ دے دیا اور اب ساون آیا تو کانوڑیوں کو بھگوا کپڑے دے دیئے کہ یہ پہن لو یہ حکومت کا پٹکا ہے۔ اب تم جو چاہو کرو ہر سڑک تمہاری ہے۔ اب پولیس تم سے نہیں بولے گی۔
کانوڑیوں کا شیوجی پر چڑھانے کیلئے گنگا جل لے جانے کی رسم کوئی نئی نہیں ہے ہم بھی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنے عام کپڑوں میں ہوتے تھے اور پیدل جاتے تھے دوپہر کو جہاں گھنا سایہ اور پانی دیکھتے تھے وہاں رُک کر کھاتے پیتے، تھوڑا آرام کرتے اور پھر بم بولے کا نعرہ لگاتے چلے جاتے تھے اب چار سال سے بھگوا کپڑے گلے میں پٹکا ہاتھ میں ڈنڈے اور پوری سڑک پر قبضہ۔ ان میں پیدل کم بائک اور ٹرکوں میں زیادہ۔ اس غنڈہ گردی میں چھیڑچھاڑ بھی اور ذراسا چھو بھی جائے تو لاکھوں کی کار کباڑ کا ڈھیر۔ عوام تو کیا سپریم کورٹ کے محترم جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے خود یکھا کہ کانوڑیوں نے کس طرح ایک کار کو کوڑا بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون میں تبدیلی کا انتظار نہیں کریں گے۔ ہم اس پر کارروائی کریں گے۔
2009ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ کسی مظاہرے وغیرہ میں کوئی لاٹھی ڈنڈا یا ہتھیار نہیں لے جاسکتا۔ لیکن حالت یہ ہے کہ پدماوت کی مخالفت کا جلوس ہو یا رام نومی کا ہر کسی کے پاس تلوار اور دوسرے ہتھیار ہوتے ہیں اور یہ انتہا ہے کہ بلندشہر میں پولیس کی گاڑی پر کانوڑیے لاٹھیاں برساتے شیشے توڑتے اور پولیس کو مارتے رہے مگر وہ چوڑیاں ہی نہیں پہنے رہے بلکہ ہیلی کاپٹر سے ایک بہت بڑے افسر ان غنڈوں پر پھول مسلسل برساتے رہے اور جب ایک نمائندے نے سوال کیا کہ غنڈے کانوڑیے پولیس کو پیٹ رہے تھے اور آپ ان پر پھول برسا رہے تھے تو ان کا جواب تھا کہ ہم ہر دھرم کے ایسے مظاہروں پر پھول برساتے ہیں؟ ہر مسلمان سکھ اور عیسائی گواہ ہے کہ آج تک ان کے کسی مذہبی جلوس پر ایک پھول نہیں پھینکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی وزیراعظم کی نقل کرنے کے لئے سفید جھوٹ بولنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مودی جی نے دھرم کے ہر کام کو بی جے پی سے اور بی جے پی کے ہر کام کو دھرم سے جوڑ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ ملک ہر ہفتے پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعہ فسادات دیکھ رہا ہے اس کا ثبوت ہے کہ ملک میں ہر طرف بدامنی حکومت کے اشارہ پر ہورہی ہے۔ بے روزگاروں نے پکوڑے تو نہیں بنائے نہ پان کی دُکان کھولی غنڈہ گردی کو اپنا لیا کیونکہ وہ بھی انہیں سرکار نے دی ہے اور اس نے ہی پولیس کو چوڑیاں پہناکر تھانوں میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔
:13؍اگست2018(فکروخبر/ذرائع)

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
13؍اگست2018(ادارہ فکروخبر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے