ڈیموکریسی بمقابلہ موبوکریسی

محمد آصف اقبال

وطن عزیز ہندوستان جسے عموماً ایک خاص پس منظر میں "بھارت”کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، میں گزشتہ تین چار سالوں میں بھیڑ کے ذریعہ قتل کے واقعات جس قدر بڑے پیمانہ پر سامنے آئے ہیں اس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ان واقعات کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ جھوٹ،افواہ اور غلط بیانی کے ذریعہ واٹس اَپ گروپ کے تعاون سے قبل از وقت غلط فہمیوں کے شکار لوگوں کو مجتمع کرتی ہے تو وہیں دوسری خصوصیت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ یہ بھیڑ دراصل بھیڑ نہیں بلکہ حالات اور معاملات سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت تیار شدہ افراد ہیں جو وقتاًفوقتاً ہمارے سامنے آتے ہیں، ان کا مجرمانہ کردار واضح ہے،یہ جنون کی حد تک مجروح کیے جا چکے ہیں، انہیں بربریت کی تربیت دی گئی ہے اور یہ انسانی جان کی اہمیت نہیں سمجھتے۔نتیجہ میں معصوم اور بے قصور لوگ اپنی جان سے ہاتھ گنوابیٹھتے ہیں۔

ان واقعات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہاں معاملہ ایک فرد کی زندگی اور موت سے جڑا ہوا نہیں ہے۔بلکہ جس شخص کی جان جاتی ہے اس کے بچے یتم ہوجاتے، مرنے والی کی بیوی بیوہ جاتی ہے، خاندان سے وابستہ دیگر افرادذہنی، اقتصادی اور سماجی سطح پر پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ وہیں مرنے والے کے متعلقہ مذہب سے وابستہ دیگر افرادچند ہی منٹ کے اس واقعہ کے بعد خوف کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔متعلقہ افراد پولیس، کورٹ کچہری اور وکلا کے چکر لگانے اور دقتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور ایسے افراد کی مدد کرنے کے لیے عام طور پر ہاتھ بڑھانے والے بہت کم سامنے آتے ہیں اور جو آتے بھی ہیں وہ بیان بازی، فوٹوسیشن،اخبارات کی زینت بننے کے بعد، متاثرہ افراد کے لواحقین سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ واقعہ بھلا دیا جاتا ہے اور ایک نیا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔

 واقعہ یہ ہے کہ یہ جو موبوکریسی(بھیڑ کی منمانی) کا نظام رائج ہو چکا ہے اس سے تمام ہی شہری، عوام و خواص واقف ہیں ۔اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً بیان بازیاں بھی کی جاتی رہی ہیں ۔ذمہ داران ملک اس بات سے بھی اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کہ ان واقعات کی انجام دہی میں سوشل میڈیا کا نمایاں کردار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے چیف جسٹس دیپک مشرا جو گزشتہ چند ماہ سے خبروں میں نمایاں رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ہجومی تشدد کے ذریعہ قتل کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ان واقعات کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا کا بڑارول ہے۔ معاشرے میں امن اور قانونی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کو جانچ کے دائرے میں لانا ہوگا اور تحقیقات خود ملک کے بیدار شہری ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے موب لنچنگ کے واقعات پر روک کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کنٹرول کوئی ادارہ یا حکومت نہیں بلکہ خود اس ملک کے ہوشمند شہری کریں گے۔انہوں نے یہ بھی اپیل کی کہ اگر کوئی قابل اعتراض پیغام کوئی اپنے سوشل میڈیا پیج پر دیکھے تو اسے فوری طور پر ڈلیٹ کردیں، اسے آگے نہ بڑھنے دیں ۔چیف جسٹس کا عوام سے مطالبہ درست ہے،گفتگو سے لگتا ہے کہ انہیں بھی ان حالات سے تشویش ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ عوام اپنے ہاتھ میں کوئی بھی قانون نہ لے اور نہ ہی قانونی حدوں کو توڑیں ۔اس کے باوجود جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مسائل کا حل عوام کے ذریعہ ہی ممکن ہے تو انہیں اس جانب توجہ کرنی چاہیے اور ان لوگوں کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے جو عوامی سطح پر منظم و منصوبہ بند انداز میں غلط فہمی کے بازار کو گرم کرنے میں مصروف ہیں، جن کا کام ہی نفرت کا فروغ ہے،جو جھوٹ کے علمبردار ہیں، جنہیں انسانیت اور انسانی جان کی فکر نہیں۔

اگر ایسے لوگوں کی نشاندہی نہ کی جائے،انہیں نہ پہچانا جائے اور ان کے خلاف اگر کارروائی حکومتی سطح پر نہ کی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام اپنی ہوشمندی کے نتیجہ میں مسئلہ کا حل تلاش کرلیں اور امن و امان قائم ہو جائے؟عوام کے ذریعہ مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جبکہ خواص اور خصوصاً وہ لوگ جو حکومت کی باگ دوڑ اور اس کے نظم و نسق کو چلانے میں مصروف ہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں، ان کے ذریعہ کوئی ایسا پیغام عوام میں اور مجرمین کے درمیان نہ جائے، جس کے ذریعہ ظلم میں اضافہ ہو، ان کے حوصلے بلند ہوں، ان پر گرفت کرنے میں دشواریاں پیش آئیں، اور انہیں کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکے۔اس پس منظر میں جب آپ دیکھیں گے توبھیڑ کے ذریعہ تشدد اور جان لیوا حملہ و قتل کے چند ہی منٹ بعد ایک نہیں بے شمار بیانات سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں جو مجرمین کے حق میں ہوتے ہیں اور مظلومین اور ان کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کے حوصلوں کو پست کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور رخنہ ڈالتے ہیں ۔

 گزشتہ دنوں جھارکھنڈ میں سوامی اگنی ویش پر جان لیوا حملہ ہوا،مارپیٹ کی گئی،ان کے کپڑے پھاڑے گئے اور یہ سب جن لوگوں نے کیا یا جن پر اس واقعہ کے رونما کرنے اور اس بھیڑ کی منمانی نظام میں بھر پور حصہ لینے کا الزام ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان ہیں ۔سوامی اگنی ویش ایک تقریب میں شرکت کے لیے جھارکھنڈ گئے تھے۔جیسے ہی وہ ہوٹل سے نکلے انہیں کالے جھنڈے دکھائے گئے،ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی گئی،یہاں تک کہ وہ زمین پر گرادئیے گئے اور زخمی ہوئے۔این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سوامی نے کہا کہ ‘میں تشددکے خلاف ہوں، میں امن پسند ہوں ۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا؟انہوں نے کہا کہ حملہ کرنے والوں نے مجھے گالی بھی دی اور اُس وقت کوئی پولیس والا میرے آس پاس موجود نہیں تھا’۔پولیس نے بعد میں 20حملہ آوروں کو حراست میں لیا ہے۔دوسری جانب سماجی کارکن جان دیال نے اپنے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ سوامی پر آر ایس ایس کے لوگوں نے جان لیواحملہ کیا ہے۔دوسری طرف چند ہی دن پہلے ریاست راجستھان کے الور میں مبینہ گئو رکشکوں نے اکبر کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔

اس واقعہ میں پولیس بھی شک کے دائرے میں ہے کیونکہ جس وقت وہ پیٹا گیا اس کے کئی گھنٹوں بعد تک وہ زخمی حالت میں پولیس کی گرفت میں ہی رہاتھا، الزام ہے کہ وقت پر اس کو اسپتال نہیں پہنچایا گیا یہاں تک کہ اس کی موت ہو گئی۔یہ واقعہ ہوا ہی تھا کہ مدھیہ پردیش میں بدمعاش کو پکڑنے گئے پولیس افسر کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا،ہاتھرس، اترپردیش میں بھینس اسمنگلک کے الزام میں گائوں والوں نے چار لوگوں کو بری طرح پیٹا،لیکن پولیس نے زخمیوں پر ہی بھینس کو چوٹ پہنچنے کے الزام میں مقدمہ درج کردیا اور پیٹنے والوں کو بخش دیا۔ وہیں ایک ہی دن میں تیسرا واقعہ جو سامنے آیا وہ راجستھان میں ایک مسلم لڑکی سے مبینہ لو افیئر کی وجہ سے دلت نوجوان کا پیٹ پیٹ کر قتل کیا جانا ہے۔

ایک کے بعد ایک واقعات کی روشنی میں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں لاء اینڈ آڈر جیسے رہا ہی نہیں اور بس یہ غنڈے اور بدمعاش ہی بچے ہیں، افسوس صد افسوس اس صورتحال پر۔The Quintایک معروف نیوز ویب سائٹ ہے،ویب سائٹ نے سال 2015سے اب تک کے اُن واقعات کا تذکرہ کیا ہے جس میں صرف گائے کے نام پر معصوم لوگوں کی جان لی گئی۔2015سے اب تک 69افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں، ان کی زندگی بھیڑ تنتر کی نظر ہو گئی،افواہوں اور غلط پیغامات کے ذریعہ لوگوں کو جمع کیا گیا اور اس سے پہلے کے الزام جرم کی شکل میں ثابت ہوتا، بھیڑ نے خود ہی قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے لوگوں کی جان لے لی۔اس کے باوجود نہ آج تک ان معاملات میں کمی آرہی ہے اور نہ ہی آئندہ دنوں ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل اس میں کمی آنے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس پر سخت گرفت کی ہے۔اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ قصور وار افراد کو سزا دینے کے لیے علیحدہ سے ایک قانون بنائے۔یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں موبو کریسی (بھیڑ کی منمانی )کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔کوئی بھی شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔خوف اور افراتفری کے ماحول سے نمٹنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔شہری اپنے آپ میں قانون نہیں بن سکتے۔مرکزی اور ریاستی حکومتیں عدالت کے احکامات کو چار ہفتوں کے اندر (18؍جولائی 2018کے بعد گزرے چار ہفتوں کے اندر)نافذ کریں ۔اور حکومت موب لنچنگ کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے۔یہ تمام باتیں اور احکامات سپریم کورٹ آف انڈیا نے حکومت ِ وقت کو دیئے ہیں۔

اس کے باوجود جو بیانات مرکزی حکومت اور ان سے سے وابستہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی جانب سے آرہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ ان واقعات میں کمی آنے والی ہے۔مرکزی وزیر اور راجستھان بی جے پی کے بڑے لیڈر ارجن رام میگھوال نے گرچہ الور تشدد کی مذمت کی لیکن وہیں یہ بھی کہا کہ مودی جی جتنا مشہور ہوں گے موب لنچنگ کے واقعات اتنے ہی بڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم موب لنچنگ کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ واحد ایسا واقعہ نہیں ہے،آپ کو تاریخ میں جانا پڑے گا، ایسا کیوں ہوتا ہے؟اسے کیسے روکنا چاہیے؟1948میں سکھوں کے ساتھ جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ میں سب سے بڑی موب لنچنگ تھی۔بیان سے صاف ظاہر ہے کہ موب لنچنگ کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس میں آر ایس ایس یا بی جے پی اور اس کی حلیف تنظیمیوں کا کوئی رول نہیں ہے،لہذا اُن پر گرفت نہیں کی جاسکتی!

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
30؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

پاکستان میں فوج کے تعاون سے عمران خاں کے اقتدار کی راہ ہموار

مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہی تو سیکولرزم ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے