ممتاز میر فروری2014 میں جناب اروند کیجریوال نے 49دن سرکار چلا کر اور دہلی کے لفٹننٹ گورنر کی مرکزی کانگریس حکومت سے وفاداری سے تنگ آکر استعفیٰ دے دیا تھا۔ہمارے علم کی حد تک یہ وطن عزیز میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی وزیر اعلیٰ نے عوام کے لئے کچھ نہ کرپانے کی […]
فروری2014 میں جناب اروند کیجریوال نے 49دن سرکار چلا کر اور دہلی کے لفٹننٹ گورنر کی مرکزی کانگریس حکومت سے وفاداری سے تنگ آکر استعفیٰ دے دیا تھا۔ہمارے علم کی حد تک یہ وطن عزیز میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی وزیر اعلیٰ نے عوام کے لئے کچھ نہ کرپانے کی وجہ سے استعفیٰ دیا ہو۔ہمارے یہاں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وزراء عوام کے لئے کچھ نہ کرنے کے لئے ہی وزارتیں سنبھالتے ہیں۔اس سے پہلے ایک بار1993میں ممبئی شمال کے ایم پی جناب سنیل دت نے اس لئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ ممبئی فسادات کے دوران اپنے حلقہئ انتخاب کی عوام کے لئے کچھ نہ کر پارہے تھے۔یہ استعفیٰ اس کانگریس ہائی کمان کی مرضی کے خلاف تھاجو تقسیم وطن کے بعد سے مسلمانوں کو بے وقوف بناتی آرہی ہے۔ اس لئے جناب سنیل دت کوہائی کمان سے اس ’دغا بازی‘ کے بڑے سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔ان کا بچہ جو فلموں میں نایک کی اداکاری کرتا تھا فلموں کے ساتھ ساتھ اصلی زندگی میں بھی کھلنایک بنا دیا گیا۔خیر،بات چل رہی تھی کیجری وال کی۔بڑی عجیب ہے ہماری قوم بھی۔یاروں کا کہنا تھا کہ انھیں 49 دن بعد استعفیٰ نہیں دینا چاہئے تھا۔یعنی زبردستی کرسی سے چپکے رہنا چاہئے تھا۔جبکہ ہم یہ کہتے رہے کہ جب آدمی کچھ نہ کر پارہا ہو تو اسے ’اجتماعی ضمیر کے اطمینان‘ کی خاطر استعفیٰ دے دینا چاہئے۔آئندہ کیجریوال کو اس کے بہتر نتائج حاصل ہونگے۔اتفاق سے انھی دنوں یعنی فروری 2014میں پرگتی میدان دہلی میں عالمی کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا تھا،جس میں ہم اپنے چند رفقاء کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ دہلی میں بس،میٹرورکشا اور ٹیکسی میں گھومتے ہوئے عوام سے گفتگو ہوئی تھی اس سے ہم اس نتیجے پر پہونچے تھے کہ اس بار کیجریوال غیر معمولی اکثریت سے جیتیں گے۔کیونکہ عوام ان کے استعفیٰ سے مطمئن تھی۔اور الیکشن میں وہی ہوا۔کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کل 70 نشستوں میں سے 67 پر جیتی تھی۔معلوم نہیں کس طرح بی جے پی نے 3سیٹیں نکال لی تھی اور کانگریس کا تو وہائٹ واش ہو گیا تھا۔اب،جبکہ جناب کیجریوال 5 سال سرکار چلا چکے اور اپنی5 سالہ کار کردگی کا رپورٹ کارڈ جاری کر چکے ہمیں نہیں لگتا کہ اس بار ان کے سامنے کھڑی کوئی پارٹی اپنا چراغ جلا پائے گی یا پھول کھلا پائے گی۔الا یہ کہ کوئی چمتکار ہو جائے۔ بہتر ہے ہم پہلے کیجریوال کے جاری کردہ رپورٹ کارڈ کا مختصر جائزہ لے لیں۔کیجریوال نے اپنے رپورٹ کارڈ میں سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ کوئی ان کی حکومت کو بے ایمان یا کرپٹ نہیں کہہ سکتا۔اس دعوے کی تحقیق کوئی راکٹ سائنس نہیں۔کیونکہ اگر وہ یا حکومت میں شامل ان کا کوئی ساتھی بد عنوان ہوتا توجو حکومت شرد پوارجیسے مہارتھی پر ہاتھ ڈال سکتی ہے وہ کیجریوال اور ان کے نو آموز ساتھیوں کو کب سے جیل سلاخوں کے پیچھے پہونچا دیتی۔اس کے علاوہ کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سے بھی ان کی حکومت کی کارکردگی کی تصدیق ہوتی ہے۔سی بی آئی نے بھی انھیں کلین چٹ دی ہے اور دونوں ادارے مرکزی حکومت کے ہیں۔اور مرکزی حکومت اور اس کے چمچے ہاتھ دھو کر کیجریوال کے پیچھے پڑے ہیں۔اپنے رپورٹ کارڈ میں کیجریوال مزید کہتے ہیں کہ انھوں نے دہلی کے بجٹ کو 31 ہزار سے بڑھا کر60ہزار کردیا ہے۔کیونکہ ان کی حکومت خسارے میں نہیں منافع میں چل رہی ہے۔اور یہ سند خود بی جے پی حکومت نے دی ہے۔یہ بھی کانگریس اور بی جے پی کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔خواتین کی حفاظت کے لئے دولاکھ اسی ہزار مجوزہ کیمروں میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار کیمرے لگائے جا چکے ہیں اور اسی غرض سے سڑکوں پر دو لاکھ دس ہزار نئے بلب بھی لگانے کا کام شروع کیا گیا ہے تاکہ سڑکیں خوب روشن رہیں۔ 8 ہزار کروڑ1130 نئی مگر غیر قانونی کالونیوں کے مکینوں کی راحت کے لئے sewerلائنوں کے بچھانے کے لئے خرچ کئے گئے ہیں۔عام آدمی پارٹی کے رپورٹ کارڈ کے مطابق سب سے اہم اور سب سے زیادہ کام تعلیم کے شعبے میں کیا گیا ہے۔دہلی کی سرکاری اسکولوں کے معیار کو ہر طرح سے پرائیویٹ اسکولوں کی سطح پر لایا گیا ہے۔دہلی سرکار کو اس کام کے لئے ساری دنیا میں سراہابھی گیا ہے۔پہلے دہلی میں بجلی سپلائی کی حالت بڑی خراب تھی۔اب دہلی میں 24گھنٹے بجلی سپلائی جاری رہتی ہے۔اس کے علاوہ 200یونٹ تک شہریوں کو مفت بجلی سپلائی کی جا رہی ہے۔صاف پانی کی سپلائی پہلے صرف 58 فی صد شہریوں تک محدود تھی اب93فی صد افراد کو صاف پانی مہیا ہے۔اور20ہزار لیٹر تک پانی فری مہیا کیا جا رہا ہے۔اس طرح ٹینکر مافیا کا خاتمہ کیا گیا ہے۔400سے زائد محلہ کلنک کو اسپتالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں علاج کی مفت سہولیات دستیاب ہیں۔ دہلی میٹرو کی سروسس173و میٹر سے بڑھا کر290 کلو میٹرکر دی گئی ہے۔روڈ ٹرانسپورٹ میں بھی نئی بسیں داخل کی گئی ہیں۔”فرشتے دلی کے“اس نام سے ایک اسکیم شروع کی گئی ہے جس نے اب تک قریب3000جانوں کو روڈ ایکسیڈنٹ میں ضائع ہونے سے بچایا ہے۔یعنی یہ لوگ حادثہ ہوتے ہی متاثرین کو فرسٹ ایڈ دینے کی اور اسپتال پہونچانے کی فکر کرتے ہیں۔5000 جھونپڑے والوں کو نئے فلیٹ کی چابیاں سونپی گئی ہیں جس کی وجہ سے خود انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے جھونپڑوں کو توڑا ہے۔ممکن ہے دہلی حکومت نے اوربھی چھوٹے موٹے کام انجام دیئے ہوں جسے ہم اپنی تحریر میں کور نہ کر پائے۔مگر یہ سب خود ان کی رپورٹ ہے۔اور سیاستداں اپنے منہ میاں مٹھو تو بنتا ہی ہے۔اس لئے ہم نے اپنے ان احباب کے سامنے جو دہلی میں مقیم ہیں یہ سوال رکھا کہ کیجریوال نے اپنے رپورٹ کارڈ میں جو دعوے کئے ہیں کیا وہ سچ ہیں۔سب کا جواب کم و بیش یہ تھا 90فی صد سچ ہے۔اس جواب سے ہم یہ سمجھے کہ کیجریوال کا رپورٹ کارڈ صد فی صد سچ ہے۔اس لئے کہ ہر شخص کو وہاں کا کام دکھائی دیتا ہے جہاں وہ رہتا ہے یا جہاں اس کا آنا جانا ہوتا ہے۔جہاں اس کا گزر نہیں وہ وہاں کے کام سے نابلد رہتا ہے۔ اب جس پارٹی کے کام کا اور عوام کے اطمینان کا یہ حال ہو اس کے سامنے کس کا چراغ جل سکتا ہے۔اس سے کوئی نہیں جیت سکتا بشرط یہ کہ انتخابات صاف و شفاف ہوں۔مگر برسوں ہوئے ہمارے یہاں سے صاف و شفاف انتخابات کو دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔کانگریس کے دور میں بی جے پی اور بی جے پی کے دور میں کانگریس ای وی ایم کے خلاف ایسے مدھم سروں میں شور مچاتی ہیں کہ خود ان کیساتھ کھڑے لوگوں کو آواز سنائی نہیں دیتی۔اور کوئی دوسرا اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ یہ آواز نہیں سنتیں۔اس بار بظاہر تو پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عام آدمی پارٹی ہر سیٹ جیتے گی۔مگر ای وی ایم کیا کرتی ہے کہا نہیں جا سکتا۔ ایک عجیب بات یہ کہ وہ کانگریس جس کا دلی میں نہ ایم ایل اے ہے نہ ایم پی وہ بھی الیکشن لڑ رہی ہے۔کیوں؟ ہمارے نزدیک کانگریس نہ کبھی سیکولر تھی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔کیونکہ کانگریس بھی برہمن مفادات کی محافظ پارٹی ہے۔بالکل ویسے جیسے بی جے پی ہے۔اور اس کا فی الوقت الیکشن لڑنے کا مقصد عام آدمی پارٹی کے ووٹ کاٹنا ہے۔مگر ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکے گی۔کانگریس کے چمچے کبھی سماجوادی پارٹی کوکبھی بی ایس پی کو اور آج کل ایم آئی ایم کو ووٹ کٹوا پارٹی کہتے ہیں۔اور کسی کسی علاقے میں ان پارٹیوں کی حیثیت ووٹ کاٹنے اتنی تو رہی ہے مگر آج کانگریس کی اوقات کم سے کم دلی میں ووٹ کاٹنے اتنی بھی نہیں ہے۔ہاں بی جے پی کے ساتھ مل کرای وی ایم کا کوئی چکر چل جائے تو الگ بات ہے۔کیونکہ کانگریس کی اوقات اتنی گر جائے یہ بھی سنگھ کے منصوبوں کے مطابق نہیں ہو سکتا۔پہلے دن سے عآپ کی مخالفت جتنی بی جے پی کر رہی ہے اتنی ہی کانگریس بھی کر رہی ہے جب کہ کانگریس اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہے پھر اسے عآپ اور مجلس اتحاد المسلمین سے بیر نہیں ہونا چاہئے۔مگر کانگریس کو بی جے پی ہی کی طرح ان سے شدید بیر ہے۔کیوں؟اس لئے کہ یہ دونوں ہی پارٹیاں صحیح معنوں میں سیکولر پارٹیاں ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تمام پارٹیوں کو دلی کے میدان سے ہٹ جانا چاہئے۔اور عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کو ون بائی ون لڑنیکا موقع دینا چاہئے۔ دیگر پارٹیاں ایک دوسرا کام یہ کریں کہ صاف شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے اپنے کیڈرس کو حرکت میں لے آئیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔ 18/ جنوری 2020 ادارہ فکروخبربھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں