دہلی الیکشن میں شکست خوردگی کے خوف سے بھاجپا کی بدحواسی

گالی گلوج، ہٹ دھرمی، بے شرمی اور تشدد پر اُتر آئی

 عبدالعزیز 

    عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو پارٹی برسراقتدار آتی ہے اس کے اندر بردباری اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے، سب کیلئے کام کرنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جس قدر وہ اپوزیشن میں غیر ذمہ دارانہ رویہ، غیر ذمہ دارانہ بیان اور فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتی تھی اس سے کہیں زیادہ کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 2014ء سے پہلے بھی بی جے پی اقتدار میں آئی تھی اس وقت اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے، وہ بھی چاہتے تھے کہ کسی طرح آر ایس ایس کا ایجنڈا نافذ العمل ہو لیکن ان کی سربراہی میں اور آج کی بھاجپا کی سربراہی میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ 2002ء میں گجرات فسادات کے بعد اٹل بہاری واجپئی نریندر مودی کو گجرات کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن ایل کے ایڈوانی، ارون جیٹلی اور آر ایس ایس کی قیادت کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ احمد آباد کی ایک پریس کانفرنس میں نریندر مودی کی موجودگی میں انھوں نے کہا تھا کہ مودی نے گجرات میں راج دھرم کا پالن (احترام) نہیں کیا۔ راجہ اپنے سارے پرجا کو یکساں سمجھتا ہے اور یکساں سلوک کرتا ہے۔ ملک کی بدقسمتی کہئے کہ جو گجرات جیسی ایک چھوٹی سی ریاست میں راج دھرم کے فرائض پورے نہیں کرسکا اس سے آر ایس ایس اور بی جے پی نے 2014ء میں ملک کے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کر دیا۔ کانگریس کی کمزوری، بدعنوانی اور نریندر مودی کے جھوٹے اور بڑے خواب دکھانے کے فریب میں عوام آگئے۔ 31% ووٹوں کی حمایت سے انھیں وزیر اعظم کا عہدہ مل گیا۔ 2014ء سے 2019ء تک کا زمانہ بھی ہندستان کیلئے زہر آلود اور نفرت انگیز تھا۔ مئی 2019ء میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد ہندستان میں افراتفری، ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔اس وقت ملک میں خانہ جنگی جیسی کیفیت ہے۔ 
    مہاراشٹر میں بی جے پی حکومت بنانے سے قاصر رہی۔ جھار کھنڈ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب دہلی میں الیکشن کا مرحلہ درپیش ہے۔ بی جے پی کسی نہ کسی طرح (By Hook and Crook) الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ میں جہاں ڈیڑھ ماہ سے خواتین کالے قانون کے خلاف پر امن طور پر دھرنے پر بیٹھی ہیں اسے بھی بی جے پی بے شرمی کے ساتھ الیکشن کا ایشو بنا رہی ہے۔ پورے علاقے کیلئے توہین آمیز اور ذلت آمیز قسم کے الفاظ و کلمات اس کے لیڈران استعمال کر رہے ہیں۔ اسے چھوٹا پاکستان کہہ کر ہندو مسلمان کے درمیان دلی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے کہاکہ دہلی کا انتخاب ہندستان بمقابلہ پاکستان ہے۔ پاکستان کے لوگ شاہین باغ کے ذریعے دہلی میں داخل ہورہے ہیں۔ ان کے ایک دوسرے لیڈر پرویش ورما نے انتہائی گھٹیا قسم کی زبان اور بیان سے کام لیا۔ کہاکہ ”جس طرح کشمیر میں کشمیری مسلمانوں نے کشمیری پنڈتوں کی عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی اور انھیں کشمیر بدر کرنے میں کامیاب ہوئے اگر یہاں بھی بی جے پی ہارتی ہے تو وہی سلوک مسلمان دہلی کی بہو بیٹیوں کے ساتھ کریں گے۔ ہمارے آپ کے گھروں میں گھس کر بلتکار (عصمت دری) کریں گے اور اس وقت مودی جی یا امیت شاہ آ کو بچانے نہیں آئیں گے۔ لہٰذا بی جے پی کو ووٹ دے کر کامیاب کیجئے“۔ یہ ہے بی جے پی کے ووٹ مانگنے کا طور طریقہ جو الیکشن کے اصول و ضوابط کے بالکل خلاف ہے۔ 
    انوراگ ٹھاکر مرکزی حکومت کے وزیر ہیں دو دن پہلے ایک انتخابی جلسہ میں انھوں نے ایسی نعرے بازی کی جو ایک مجرم اور غنڈہ بدمعاش ہی کرسکتا ہے۔ پہلے انھوں نے نعرہ لگایا کہ ”دیش کے غداروں کو“ اور سامعین نے جواب دیا ”گولی مارو سالوں کو“۔ اس طرح کی اوچھی اور گھٹیا زبان بی جے

پی کے لیڈر ہی استعمال کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ لوگ ہیں، جن کو بچپن سے گالی دینا، جھوٹ اور فریب کاری کرنا سکھایا جاتا ہے۔ امیت شاہ اور نریندر مودی ان سب کے استاد ہیں۔ استادوں کی بھی زبان ان کے چیلوں سے ملتی جلتی ہے بلکہ چیلے انہی سے سیکھتے ہیں اور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ در اصل بی جے پی اور ان کے لیڈروں کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ وہ بری طرح دہلی میں ہار رہے ہیں۔ ان کے پاس کوئی مدعا یا ایشو نہیں ہے اور نہ ہی انھوں نے دہلی کیلئے کبھی کچھ کام کیا ہے۔
     اس کے برعکس اروند کجریوال نے پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ دہلی کے وہ بہت ہی مقبول اور محبوب لیڈر ہیں۔ ان کے مقابلے میں بی جے پی کے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے۔ نریندر مودی کا چہرہ دکھاکر عوام سے ووٹ لینا چاہتے ہیں مگر عوام بھاجپا کی دھوکہ دہی، فریب کاری اور وعدہ خلافی سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں۔ اب وہ ان کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ جن لوگوں نے بھاجپا کوووٹ دیا تھا وہ بھی دہلی میں اپنے مفاد اور بھلائی کیلئے کجریوال کو ہی ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اخبار کے ایک نامہ نگار سے بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا کہ بی جے پی کی پوزیشن اب یہ ہے کہ کسی طرح چند سیٹوں پر اس کی جیت درج ہوجائے تاکہ دہلی میں وہ منہ دکھانے کے لائق ہوجائے۔ ایک دوسرے لیڈر نے کہاکہ لوک سبھا الیکشن میں جیتنے کی وجہ سے بی جے پی Over Confidence (حد سے زیادہ خود اعتمادی)میں تھی اسی لئے بی جے پی نے کوئی کام دہلی میں نہیں کیا۔ اس کے برعکس کجریوال نے کافی کام کیا اور دو سال سے الیکشن کیلئے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ 
    دہلی کا الیکشن کئی لحاظ سے بی جے پی کیلئے اہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دہلی ملک کی راجدھانی ہے جہاں سے پورے ملک کی حکمرانی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے سفارت خانے دہلی میں ہی ہیں۔ تیسری بات یہ کہ 1998ء کے بعد دہلی میں بی جے پی کو اقتدار حاصل نہیں ہوا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مہاراشٹر اور جھار کھنڈ ہارنے کے بعد بی جے پی پس و پیش میں ہے۔ اگر یہاں بھی اس کی شکست ہوجاتی ہے تو نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادتوں پر سوال اٹھنا شروع ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجوہات ہیں کہ بی جے پی کے لیڈر باؤلا بنے ہوئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ جیسا احتجاج، مظاہرہ اور دھرنا جو انتہائی پرامن ہے اسے بدامنی اوربدنظمی اور فساد انگیز بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک شخص پستول لے کر شاہین باغ کے مظاہرے میں داخل ہوگیا اور ہنگامہ آرائی کرنا چاہا تھا لیکن مظاہرین نے اسے پکڑ کر پولس کے حوالے کردیا۔ اس طرح بی جے پی کا یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ 
    بی جے پی کے لیڈران یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر وہ الیکشن میں جیت گئے اور ان کی حکومت ہوگئی تو دھرنے کو ایک دن میں ختم کردیں گے۔ دہلی میں حکومت کجریوال کی ہے لیکن پولس محکمہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہے۔ اگر پولس بربریت اور ظلم و تشدد سے کام لینا چاہے تو وہ لے سکتی ہے لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ شاید اس لئے پولس کو ہدایت نہیں دے رہے ہیں کہ اس سے ان دونوں کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ شاہین باغ کی تحریک اب وہ صرف دہلی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندستان بھر شاہین باغ کا جال بچھا ہوا ہے بلکہ ملک کے باہر بھی کئی ملکوں میں شاہین باغ کی یکجہتی اور پیروی میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہزاروں لوگ دور دراز علاقوں سے روزانہ مظاہرے میں شامل ہورہے ہیں اوربہت سے لوگ صرف دیکھنے کیلئے جارہے ہیں۔ اس لئے کہ وہاں میلہ جیسا سماں ہے۔ کئی ریاستوں کے آرٹسٹ اور فن کار اپنے آرٹ اور فنوں کا دلچسپ و دلکش مظاہرے کررہے ہیں۔ 
    ہندستان کے دو فرقے مسلمان اور عیسائی مکمل طور پر کالے قانون کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ہندو بھائیوں میں بھی ایک بہت بڑی تعداد نئے قانون کے خلاف مظاہرے کیلئے سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائی کے بعد دلتوں کی تعداد بھی اس تحریک کا حصہ بن رہی ہے لیکن اب بھی دلتوں کابہت بڑا حصہ سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے آگے نہیں آرہا ہے۔ دلتوں کا طبقہ اگر مکمل طورپر احتجاج اور مظاہرے میں شامل ہوگیا تو تحریک میں آبادی کی اکثریت ہوجائے گی۔ ہندو بھائیوں کی تعداد بھی ابھی کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اکثریتی فرقے کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی، محبت اور بھائی چارہ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اکثریتی فرقہ کے نصف سے زائد لوگ تحریک کا حصہ بن گئے تو پھر تحریک کو کامیابی سے کوئی نہیں روک

سکتا۔ اس کے نتیجے میں ہر الیکشن میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ جھارکھنڈ کے الیکشن سے بی جے پی نے کوئی سبق نہیں لیا۔ وہاں مودی اور شاہ دونوں مقامی یا ریاستی ایشوز اور مسائل پر تقریر یا گفتگو کرنے کے بجائے قومی اوربین الاقوامی مسائل پر تقریر اور گفتگو کرتے تھے۔ ’این آر سی‘ اور ’سی اے اے‘ کو لاگو کرنے کی بات دہراتے تھے۔جھارکھنڈ کے عوام نے دونوں لیڈروں کو انگوٹھا دیا اور ان کی تقریروں کا کوئی اثر نہیں لیا۔ دہلی میں بھی اسی طور طریقے پر بی جے پی کے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دہلی کے مسائل سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شاہین باغ، پاکستان، مسلمان، عمران، ہندو مسلمان، این آر سی، سی اے اے، این پی آر جیسی چیزوں کو پیش کر رہے ہیں۔ فتنہ انگیزی اور فساد انگیزی، ہٹ دھرمی، بے شرمی اور گالی گلوج کی مدد سے الیکشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ قریب آرہی ہے ویسے ویسے بھاجپا سے دہلی دور ہوتی جارہی ہے۔ امید ہے کہ بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور مودی- شاہ کی جوڑی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ (یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
30/ جنوری 2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے