دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

مدتوں متعدد بادشاہوں کی دارالحکومت آج بھی ملک کی وفاقی حکومت کاپایہ تخت ہے۔ مغلوں کے زمانے میں تعمیر شدہ عمارتیں اس شہر میں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں جن میں دہلی کا لال قلعہ جامع مسجد اور قطب الدین کی تعمیر کردہ قطب مینار سر فہرست ہے۔ملک اور بیرون ملک کے بے شمار لوگ آج بھی یہاں بسنے کے خواب دیکھتے ہیں ‘انھیں یا پتہ کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی‘ توانائی کی بے دریغ کھپت اور گاڑیوں سے کاربن کے اخراج نے وہ شہر کی حالت کردی ہے کہ دہلی کو دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہرتسلیم کیا گیا ہے۔
بیجنگ سے زیادہ خراب نہیں:
حال ہی میںیالے یونیورسٹیYale University کی تحقیق نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان میں فضائی آلودگی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس کا فضائی آلودگی کا تناسب عالمی ادارہ صحت کی اوسط فضائی آلودگی کے لیول سے بڑھ گیا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی کی صورتحال بیجنگ سے خراب نہیں ہے۔فضائی معیار کو جانچنے والے ایک سرکاری ادارہ’سفر‘ کے اہلکار غفران بیگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دہلی کے متعلق ایسی رپورٹ پڑھ انہیں حیرت ہوئی۔خود ان کے الفاظ میں’مجھے تعجب ہے کہ دہلی کے حوالے سے ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے خاص کر سردی کے موسم میں۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ یہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے لیکن یہ صورتحال بیجنگ سے زیادہ خراب نہیں۔‘
دنیا کا آٹھواں بڑا شہر:
ماضی میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران کلکتہ کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911میں دارالحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر’نئی دہلی‘ بسایا گیاجو آج خوشحال اور حکمراں طبقہ کے قبضہ میں ہے۔ 1947میں آزادہند کے بعد نئی دہلی کو جب سے ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیاہے‘ اسے وہ توجہ نصیب نہ ہوسکی جس کا یہ مستحق ہے۔ شہر میں پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں جبکہ آج کی دہلی ہندوستان کا ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز ہے۔دلی شہر اب90 کلومیٹر کے رقبہ پر پھیل گیا ہے۔ آس پاس کے کئی دیہات اور قصبات اس میں شامل ہو چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ 2015میں اس کی آبادی 45 کروڑ ہو جائے گی۔ اسی لئے ریاستی حکومت نے زیر زمین میٹرو شروع کی ہے اور اس پر عملدرآمد کیلئے شہر کو کھود ڈالا ہے لیکن مستقبل کے آرام کیلئے شہری یہ تکلیف ہنس کے برداشت کرتے ہیں۔ مکانوں کے کرایہ ہوش رباہیں اس کے باوجود یہ ہندوستان کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا شہر ہے۔
جمنا کی صورت بھی بگڑی:
دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر بھلے ہی چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے لیکن آلودگی نے جمنا کی صورت بھی بگاڑ رکھی ہے کہ ایک گندہ نالہ محسوس ہوتا ہے۔ سلطنت دہلی کے عروج کیساتھ یہ شہر ایک ثقافتی، ثقافتی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ اس کی حیثیت محض کماو پوت کی سی رہی جبکہ نکھٹو مزے کرتے رہے۔حالانکہ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی کئی یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں جن کے سبب اندرون اور بیرون ملک سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن ذراسی بارش پڑتے ہیں انتظامیہ کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلام کی شان و شوکت کے اولین مظاہر ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا جبکہ 1639میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649 سے 1857تک مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے جس کی تجدید کاری برسوں سے لٹکی ہوئی ہے۔ 
گندگی، سڑکوں پر تجاوزات:
تقریباً 3 صدیاں گزرنے کے باوجود دلی کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے آج بھی لگتا ہے کہ یہ شہر واقعی مرزا غالب بلکہ ان سے بھی زیادہ امراؤ بیگم کا ہے جنہوں نے شدید غربت میں ایسے رکھ رکھاؤ سے زندگی گزاری کہ ایک مثال بن گئیں۔ دلی پر ان کا رنگ اتنا پختہ اور واضح ہے کہ چاندنی چوک اور اس سے ذرا پرے کوچہ قاسم جان میں آج بھی دکھائی دیتا ہے جہاں ان کا وہ مکان اب ایک یادگار کی صورت میں موجود ہے لیکن دلی صرف مرزاغالب اور امراؤ بیگم کا ہی شہر نہیں تھا بلکہ ابراہییم ذوق سے لے کر دیوان سنگھ مفتوں تک، بہادر شاہ ظفر سے لے کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور آزادی کے بعد جواہر لال نہرو سے اٹل بہاری واجپئی تک کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات اس شہر میں جلوہ افروز رہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ گلیاں اسی طرح گندی، سڑکوں پر تجاوزات عام ہیں۔
گندے اور خستہ حال بھکاری:
26 جنوری کے موقع پر دلی ایک محاصرہ زدہ شہر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانیوں سے غیر ملکیوں کے نام پر ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس خالی کروا لئے جاتے ہیں۔
راج گھاٹ پر گاندھی جی اور ان سے ذرا پرے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور پھر گیانی ذیل سنگھ کی سمادھیاں ہیں۔ قطب مینار پرہندوستانیوں کیلئے 5 روپے کا ٹکٹ لیکن غیر ملکیوں کیلئے 10ڈالر کا ٹکٹ ہے۔صفدر جنگ اور ہمایوں کے مقبرہ ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں جو سگنل نہ ہونے کے باعث مقبرہ ایک راؤنڈ اباؤٹ کی طرح ٹریفک ریگولیٹ کرنے کے کام آتا ہے۔مقبرہ سے ذرا دور نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے جو شہر بھر کے گندے اور خستہ حال بھکاریوں کا گڑھ بناہوا ہے۔ غالب کے مزار کے اردگرد کا پورا علاقہ نوسربازوں سے بھرا پڑا ہے۔ علاقہ میں داخل ہوں تو کوئی نہ کوئی آپ کیساتھ لگ جائے گا ۔لال قلعہ پر بھی دوہرا ٹکٹ ہے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسان سائیکل رکشہ پر دوسرے انسان کا بوجھ کھینچتے انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پکارتے ہیں۔ بازار میں عملاً کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔
تقابلی تجزیئے نے کھولی پول:
ایسی گہما گہمی میں ہندوستان ٹائمز نے 178 ممالک کے ایک تقابلی تجزیئے کے 9 ماحولیاتی پیرامیٹرز پر مبنی تحقیق کے حوالے سے کہا ہے کہ دارالحکومت نئی دہلی میں لاکھوں گاڑیاں ہیں اور ٹریفک سے پیدا ہونے والی آلودگی کا تناسب 2.5 ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اخبار کے مطابق ہندوستان عالمی ماحولیاتی پرفارمنس انڈیکس کے تمام 32 درجے بھی گر گیا ہے جبکہ آلودگی سے عام ہندوستانی شہری کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔دہلی میں فضائی آلودگی کا عالم اب یہ ہے کہ وہاں ایک گہری سانس لینے سے قبل10 مرتبہ سوچ لینا چاہئے۔ 
کھانسی بن گئی ہے معمول:
شہرمیں کچھ روز تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ فضائی آلودگی کے باعث ہوا اتنی مَٹیلالی ہو جاتی ہے کہ ٹریفک تک کو رینگ رینگ کر چلنا پڑتا ہے۔ اب یہاں افراد کی باہم گفتگو کے بیچ کھانسی ایک معمول سا بن گئی ہے، جیسے یہ بھی گفتگو ہی کا کوئی حصہ ہو اور سورج کی روشنی اس آلودہ فضا سے یوں ٹپک ٹپک کر زمین کو چھوتی ہے کہ آسمان اپنا نیلا رنگ اتار کر نارنجی قبا اوڑھ لیتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہوا میں خطرناک ذرّات کا پتہ دینے والے سینسریا حساسئے ا ب عموما ان مہلک ذرّات کی ہوا میں موجودگی کو ’پریشان کن‘ سطح پر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ایسا بھی دیکھا گیا کہ یہ سطح بیجنگ کی سطحِ آلودگی کے تقریبا برابر دکھائی دی۔
مہلک ذرّات کا غلبہ:
یہ کہناتو فی الحال ممکن نہیں ہے کہ ان دونوں شہروں میں سے کس کی فضا میں اس آلودگی کے باعث دھند زیادہ ہے، کیوں کہ فضا میں موجود ان مہلک ذرّات کی قسمیں بھی کئی طرح کی ہیں اور ان کے پیمائشی معیارات بھی متنوع،لیکن ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ کہ کم از کم چین کی حکومت اس سلسلہ میں بہتری کیلئے اقدامات کرتی نظر آ رہی ہے جبکہ گزشتہ کچھ برسوں میں اس بابت نئی دہلی حکومت کے اقدامات ناکافی نظر آتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئی دہلی کے شہری اس موضوع پر شکایت کرتے ہوئے کم ہی ملتے ہیں۔

پھیپھڑوں کے عوارض :
نئی دہلی میں طبی ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ اب پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ افراد اس فضائی آلودگی سے متاثر ہو کراسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں، تاہم اس بابت نئی دہلی میں اعداد و شمار جمع کرنے کا شاید کوئی نظام ہی میسر نہیں۔ فضائی آلودگی انسانی پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے، تاہم محققین کی ایک بڑی تعداد یہ بھی بتاتی نظر آتی ہے کہ اس آلودگی کی وجہ سے انسان ذہنی تناؤ اور جسم سوزش یا جلن اور دیگر کئی طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ عوامی صحت کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر کے سری ناتھ ریڈی کہتے ہیں کہ ’یہ بات نہایت حیرت انگیز ہے کہ خود نئی دہلی میں رہنے والے سیاست دان اور جج حضرات اس بری اور گندی ہوا کی وجہ سے اپنی اور اپنے اہل خانہ اور بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے پریشان تک نہیں جبکہ عوام کو یہ سمجھنا ہو گاکہ انہیں کتنا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور کس طرح کا نقصان مستقبل میں ان کا راستہ دیکھ رہا ہے‘ یہی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ اس بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جا سکے گا۔‘
کچھ کام نہ آئی تنبیہ:
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ دو ماہ قبل ریڈی نے وزارت صحت کی ایک کمیٹی کے ایک خصوصی اجلاس کی شریک سربراہی کی، جس میں محققین، حکومت کے عہدیداروں اور صحت سے متعلق اہلکاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں فضائی آلودگی کا مقابلہ کرنے اور اس صورتحال میں بہتری کے اقدامات کیلئے ان افراد سے تجاویزطلب کی گئی تھیں۔جس بر اعظم ایشیا میں ہندوستان واقع ہے یہاں فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 8لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ماحولیاتی گروپ نے2012 کے دوران خبردار کیاتھا کہ خطہ کی ائیرکوالٹی مزید خراب ہونے سے اموات کی شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی گروپ کی خاتون ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے ہانگ کانگ میں فضائی آلودگی کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ خطے میں پی ایم 10کنسٹرکشن کی سطح میں دوبارہ اضافہ ہمارے لئے نہایت تشویش کا باعث ہے جبکہ ایشیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کے باعث توانائی کی بے دریغ کھپت اور گاڑیوں سے کاربن کے اخراج میں اضافہ خطے میں فضائی آلودگی کے اصل محرکات ہیں۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ ترقی پذیر ایشیا کے 10میں سے 8 شہریوں کے رہائشی اس ہوا میں سانس لیتے ہیں جو صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ پی ایم 10وہ فضائی ذرات ہوتے ہیں جو 10مائیکرومیٹر کے برابر ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی گروپ کا کہنا ہے کہ 2035تک ایشیامیں گاڑیوں کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی جبکہ اس سے توانائی کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 400فیصد اضافہ ہو جائے گا۔

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے