وہ نوکر شاہی کی وہ تصنیف ہے جس سے وہ اپنے وزیروں کو چٹکیوں میں اُڑا دیتے ہیں اور وزیر صاحب بہادر مہینوں اس حلف نامہ کے عین غین میں ہی الجھے رہتے ہیں۔ لیکن شاطر اہلکار اور حکومت بھول گئی کہ وہ امت شاہ کی دھرپکڑ اور آر ایس ایس کے ہندوتو یا مودی جی کی لن ترانیوں کی لہر کے بنائے ہوئے وزیر نہیں وہ سپریم کورٹ کے وہ منجھے ہوئے جج صاحبان ہیں جو دفعہ 144 سے ابتدا کرکے دفعہ 302 کے تحت ہونے والے فیصلوں کے ماہر مان کر جج بنائے گئے ہیں۔
حکومت کے حلف نامہ کو سپریم کورٹ نے سمجھ لیا کہ یہ کیا ہے؟ اسی لئے اب حکم دیا ہے 20 دن کے اندر درجہ بہ درجہ کام کا خاکہ بناکر داخل کیا جائے کہ کتنے دنوں میں کتنا کام ہوگا کتنے دنوں میں گھاٹ صاف ہوں گے کتنے دنوں میں گنگا اشنان کے قابل ہوگی اور آنے والی کون سی نسل ہوگی جو گنگا کا صحت بخش پانی پئے گی بھی اور سفر میں ساتھ بھی رکھے گی؟ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے فرمایا کہ جو حلف نامہ شیطان کی آنت کی طرح ہمارے حوالے کیا ہے اسے دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت دو سو برس میں بھی گنگا کو صاف نہیں کرسکے گی۔ عدالت نے حکومت کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ 2500 کلومیٹر گنگا ندی کی صفائی مرحلہ وار منصوبہ کو پاور پوائنٹ کے ذریعہ نمایاں کرکے ہمارے سامنے پیش کیا جائے ۔
آ ایسا محسوس ہورہا جیسے مودی جی نے تو الیکشن جیتنے کے لئے کہا تھا کہ مجھے ماں گنگا نے بلایا ہے اور ملک کے کروڑوں گنگا پرستوں کے ووٹ لینے کے لئے ماں گنگا کی صفائی اور عظمت کے لئے بہت کچھ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اسے کروڑوں گنگا پرستوں کی اور اپنی ماں مان کر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ حکومت کو سیاست کی گاڑی میں بیٹھ کر بھاگنے نہ دے گا۔ مودی جی کے تمام بیانات پر سو دن گذر گئے۔ کل سپریم کورٹ کی پھٹکار پر ہر چینل حرکت میں آگیا اور اس نے کیمروں کا رُخ کاشی کے گھاٹوں کی طرف کردیا جہاں گندگی کے ڈھیر لگے تھے جس میں پوری کچوری کے دونے پلاسٹک کی بوتلیں گلاس اور پلیٹیں اور وہ باسی پھولوں کے ہار جو کسی کے گلے کا ہار بنے ہوں گے اور اسی کے ساتھ پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی اور گندہ کوڑا۔ بتانے والے نے رپورٹر کو بتایا کہ سو دن میں ایک گرام بھی کوڑا کم نہیں کیا گیا ہے نہ سرکار کی طرف سے اور نہ نگرنگم کی طرف سے بلکہ سیاحوں کے آنے کی وجہ سے اور برسات کے پانی کی وجہ سے کاشی کے گھاٹ جتنے گندے سودن پہلے تھے اس سے دوگنا زیادہ گندے ہوچکے ہیں۔ جہاں تک بہتے ہوئے دریا یا ندی کی صفائی کا تعلق ہے اس کا ایک مظاہرہ ایک چھوٹی سی ندی گومتی کا ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب بی جے پی کی حکومت تھی اس وقت حکومت کے وزیر شہری ترقیات نے زبردست تقریر کرکے کہا کہ ہم سے پہلے جو حکومتیں تھیں انہوں نے گومتی کو کوڑا گھر اور گندگی کی پورٹ بنا دیا ہے۔ اور اعلان کیا کہ ہماری حکومت اسے شیشے کی طرح صاف کرنے کی پابند ہے۔ اس کے لئے انہوں نے نہ جانے کتنے کروڑ کا بجٹ بھی منظور کرالیا اور اعلان کردیا کہ ایک ہفتہ میں صفائی کا کام شروع ہوجائے گا۔ اس اعلان کے چار مہینے کے بعد ایک وزیر موصوف نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ سب کو مبارک ہو کہ گومتی پاک صاف ہوگئی اور اب اس کا پانی لوگ شوق سے پئیں گے۔ دوسرے دن مخالف پارٹی کے ایک ایم ایل اے ایک لٹیا میں پانی اور ایک گلاس لے کر آئے اور انہوں نے وقفہ سوالات میں کھڑے ہوکر کہا کہ میں صبح یہاں آنے سے پہلے گومتی گیا تھا وہاں ندی کے بیچو بیچ سے یہ پانی لایا ہوں اور انہوں نے گلاس میں پلٹ کر پورے ہاؤس کو دکھایا کہ دیکھئے یہ وزیر صاحب نے شیشہ کی طرح صاف کردیا ہے اب ذرا مہربانی کرکے وزیر موصوف اسے پی کر دکھائیں تو کل سے ہم سب گومتی کا تازہ پانی ہی پیا کریں گے۔ وزیر بہادر کی گلاس دیکھ کر جان نکل گئی اور حزب مخالف سب ایک ہوگیا کہ پہلے منتری جی نوش فرمائیں اور منتری جی کو بھاگنے کے لئے راستہ نہیں مل رہا تھا آخر میں انہوں نے یہ کہہ کر جان بچائی کہ ہوسکتا ہے رات میں پھر کسی نے گندی کردی ہو؟
گنگا کی لمبائی 2500 کلومیٹر بتائی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی شاید زیادہ لمبی ہو سردی کے زمانہ میں سائبیریا سے آنے والی قازیں، مرغابیاں اور سرخاب بھی لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں وہ گنگا میں ہی رہتے ہیں اسی میں کھاتے ہیں اسی میں بیٹ کرتے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کو مارنے یا پکڑنے پر سخت پابندی ہے اس لئے کہ ان کو مہمان مانا جاتا ہے۔ اب تصور کیجئے کہ تین چار مہینے میں وہ کتنے ٹن گندگی گنگا کی گود میں ڈال کر جاتے ہوں گے۔ ان کے علاوہ ایک اہم چیز ایسے غریب مرُدوں کو ہندو اس لئے ماں گنگا کی گود میں نہلاکر اور کفناکر ڈال دیتے ہیں کہ ماں ان کو سورگ میں پہونچا دے گی یہ ملک کا وہ طبقہ ہے جس کے پاس نہ جلانے کو لکڑی ہے اور نہ آخری رسوم ادا کرانے کے پیسے ہم نے یہ منظر نہ جانے کان پور کے قریب پل پر کتنی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور ابھی دو مہینے پہلے یہ بھی دیکھا کہ سائیکل کے کیرئیر پر ایک ٹوکرا باندھے ایک آدمی گنگا کنارے آیا اس نے سائیکل کھڑی کی ٹوکرا بڑے احترام سے اتارا اور ایک کشتی کو اشارہ کرکے بلایا کشی آئی تو اس نے پہلے ٹوکرا رکھا جس میں زعفرانی کپڑے میں لپٹے ہوئے ایک بندر صاحب تھے جن کا صرف منہ کھلا تھا۔ دریا کے بیچ میں لے جاکر کشتی رُکوائی اور پورا ٹوکرا گنگا کے سپرد کردیا اور بڑی عقیدت کے ساتھ نمستے کرکے ٹوکرے کو دھکا دے دیا۔
انسان ہو یا جانور اس کے پیٹ میں کتنی غلاظت ہوتی ہے یہ سب جانتے ہیں اور اسے روکا اس لئے نہیں جاسکتا ہے کہ یہ بھی عقیدے کا سوال ہے اور گنگا ان کی بھی ماں ہے۔ پھر اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ تالاب یا جھیل تو ایک محدود علاقہ میں ہوتے ہیں انہیں تو صاف کیا جاسکتا ہے دریا کو کیسے صاف کیا جائے کہ جو ہر وقت رواں دواں ہے؟ اور گنگا کے کنارے بیٹھ کر قضاء حاجت کرنے اور اس کے پانی سے دھونے والوں کی تعداد نہ جانے کتنے لاکھ ہے۔ ہم نے گنگا میں گرنے والے سیکڑوں گندے نالوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ تو حکومت خوب جانتی ہے۔ بہرحال اب مودی جی خود بھی بری طرح پھنسے ہیں اور انہوں نے مس اوما بھارتی کے ارمان پورے کرنے کے لئے ان کے گلے میں بھی پھندا ڈال دیا کہ کرو گنگا کو صاف۔ اور گنگا اس لئے صاف نہیں ہوسکتی کہ اس کے عقیدتمند عقیدے کے طور پر اسے گندہ کرتے ہیں اور جن کا عقیدہ نہیں ہے وہ اسے ایک دریا سمجھ کر ساری گندگی اس میں ڈال دیتے ہیں کہ بہتی ہوئی سمندر میں چلی جائے گی اور کروڑوں مہمان پرندے چونکہ مہمان ہیں اس لئے انہیں بھی پوری آزادی ہے۔ اور اب فریق عوام نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے جو حکومت کی زندگی اجیرن کردے گا۔
جواب دیں