انجمن کے ایک گوہرنایاب کی کہانی ، کچھ میری کچھ ان کی زبانی
تحریر : ارشد حسن کاڑلی
تامل ناڈو کے صدر مقام چنائی کے ایک سرکاری افسر کے مکان میں اداسی کا ماحول چھایا ہوا تھا۔ ان کا ہونہار فرزندعین انجینئرنگ داخلہ کے مسابقتی امتحانات والے دن ٹایفایڈ کی وجہ سے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اگر وہ امتحانات میں شریک ہوتا تو اسے کسی بھی موقر تعلیمی ادارے میں انجینئرنگ میں بہ آسانی داخلہ مل سکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس ہونہار لڑکے کے مقدر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ لڑکے کے والدین سوچ رہے تھے کہ ایک سال ضائع کر کے اگلے سال داخلہ امتحانات میں شرکت کرنے سے بہتر ہو گا کہ کسی نجی انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا جائے۔ حالات نے اس ہونہار لڑکے کو غیر متوقع طور پر اپنے شہر سے دور کرناٹک کے ساحلی شہر بھٹکل میں محتشم عبدالغنی صاحب مرحوم کے در پر پہنچایا۔ مرحوم عبدالغنی صاحب کی فراست کی داد دینی ہو گی کہ اس در نایاب کو ان کی تاجر آنکھوں نے فوراً پرکھ لیا اور بغیر کسی ڈونیشن کے کمپیوٹر سائنس شعبہ میں ان کا داخلہ مفت میں کروا دیا۔
یہ آپ بیتی ہے ڈاکٹر ظفر صادق ابن محمد غوث کی، جن کا نام بلا شبہ انجمن حامئ مسلمین کے قابل فخر فارغین کی فہرست میں لکھنے کے لائق ہے۔

ظفر صادق کے والد محترم ڈاکٹر محمد غوث صاحب صوبہ تامل ناڈو کے زرعی انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت چیف انجینئر تعینات تھے۔ سنہ 1975 میں چنئی میں ان کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ظفر نے اپنی محنت و لگن سے نہ صرف اپنے والدین کا نام روشن کیا بلکہ ملک و ملت و اپنے مادر علمی کو سرخروئی سے ہمکنار کیا۔
ڈاکٹر ظفر انجمن انجینئرنگ کالج بھٹکل ، انجینئرنگ کے 4 سال ، 1992-1996 ، پہلی بیچ میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ سے فارغ ہوئے۔ یوں تو چننئ جیسے بڑے شہر سے بھٹکل آنا ہی بڑی قربانی تھی مگر یہاں آنے بعد ایک نئی افتاد آں پڑی۔ظفر صاحب بیمار ہو گئے۔ وہ بھی ایک دفعہ نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے کورس کی تکمیل تک چار مرتبہ مرض نے ان سے ان کے صبر کا امتحان لیا۔ اس کا اثر ان کے امتحانات کے نتائج پر پڑنا کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ ان کے علاوہ بیچ میں ہر کسی نے امتیازی نمبرات حاصل کیے تھا۔ وہ اپنے کلاس میں واحد طالب علم تھے جنہیں پاس کلاس پر قناعت کرنا پڑا۔
لیکن بھٹکل اور یہاں کا تعلیمی ادارہ انجمن حامی مسلمین ظفر صاحب کے لیے ایک تعلیم گاہ سے زیادہ ایک تربیت گاہ ثابت ہوا۔ انہیں محتشم عبد الغنی صاحب اور اس دور کے انجمن کے جنرل سیکرٹری (موجودہ صدر محترم) قاضیا محمد مزمل صاحب سے رہنمائی اور دست شفقت ملا. جس کی وجہ سے اس طالب علم نے ہمت نہیں ہاری۔ میرے تجزیہ کے مطابق ظفر صاحب بیرونی طلباء میں وہ واحد انجینئرنگ کالج کے فارغ ہیں جو کالج سے زیادہ انجمن کے گن گاتے ہیں۔
بار بار طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ کالج کی تقاریب سے جڑے رہے اور انٹرنیشنل سوسائٹی آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے افتتاحی اسٹوڈنٹ چیئرمین بھی رہے۔


