فولادی قوتِ ارادی بمقابلہ آہنی سلاخیں : دہشت گردی فکری شکست کی علامت ہے

 عبدالعزیز 

 طاقت اور روپئے پیسے کے زور پر آئیڈیالوجی یا نظریے یا اپنی بات منوانے کی عادت پرانی ہے، لیکن جو چیز زور زبردستی منوائی جاتی ہے اس کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ طاقت کے بل بوتے پر جس قدر جلد بات منوائی جاتی ہے اسی قدرجلد دل سے وہ بات نکل جاتی ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ شروع سے ہی دہشت گردانہ ہے۔ جسمانی ورزش کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن جسمانی ورزش کے ذریعے طاقت کا حصول اور اس طاقت کا غلط استعمال انتہائی غلط ہے اور انسانیت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جبر و ظلم کے ذریعے رعب و دبدبہ قائم کرنا اقتدار اور حکومت کا بڑھانا کسی بھی قوم یا فرد کو راس نہیں آتا۔ قوم ظالمانہ روش اختیار کرکے اپنے وجود کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ فرد بھی ظلم کرتے کرتے ایسی حالت میں پہنچ جاتاہے کہ اس کیلئے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ خودکشی کے سوا اس کیلئے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ہٹلر پوری دنیا کو زیر نگیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسے بھی بالآخر خودکشی کرنی پڑی۔ 
    آج ہمارے ملک میں آر ایس ایس اور اس کے پریوار کے لوگ نشہئ اقتدار میں اس قدر چور ہوگئے ہیں کہ اقتدار کو باقی رکھنے کیلئے اور پورے ہندستان کو ایک رنگ میں رنگ دینے کیلئے سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کی سیاسی پارٹی جمہوریت کے راستے سے اقتدار تک پہنچی ہے، اگر چہ جمہوری اصولوں، انسانی اوراخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے کرسیِ اقتدارکو حاصل کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شروع ہی سے آر ایس ایس کے اندر دہشت گردی کا ذہن موجود تھا۔ گاندھی جی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کا اتحاد چاہتے تھے اور اتحاد میں ہی ملک کا استحکام اور مضبوطی سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس اور اس کے پریوار کے لوگ اتحاد کو اپنی راہ میں روڑا سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی جیسے عظیم شخص کو اپنی راہ سے ہٹانے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ گاندھی جی نہ صرف آزادیِ ہند کے سب سے بڑے سپہ سالار تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ ان کے اثرات دنیا بھر میں نہ سہی ملک میں ضرور پڑے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی ہے۔ اگر چہ وہ کانگریس کے ممبر نہیں تھے لیکن کانگریس کا ہر لیڈر رہنمائی کیلئے ان کی طرف دیکھتا تھا اور آزادی انہی کی رہنمائی میں حاصل کی گئی۔ دستورِ ہند پر ان کے نظریے اور ذہن کی چھاپ ہے۔ ان سب کے باوجود ناتھو رام گوڈسے نے جسے آر ایس ایس کے حمایتی اور ماننے والے پذیرائی کرتے ہیں اور دیش بھکت سمجھتے ہیں گاندھی جی کا بہیمانہ قتل کیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے راستے سے جمہوریت کی آڑ میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ضرور ہوئی ہے لیکن اب جس راستے پر گامزن ہے وہ راستہ اس کیلئے بھی خطرناک اور تباہ کن ہے اور ملک و قوم کیلئے بھی خطرناک اور تباہ کن ہے۔ 
    گزشتہ اتوار کی رات کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ہوسٹل میں گھس کر جس طرح آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم ’اے بی وی پی‘ نے اپنے مخالفین طلبہ کو چن چن کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی سلاخوں سے مارا پیٹا اور لہولہان کیا انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف نہ صرف ہندستان کی یونیورسٹیوں میں طلبہ احتجاج کررہے ہیں بلکہ ملک کے باہر دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں میں بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر ظالمانہ اور جابرانہ حملے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس سے دنیا بھر میں ہندستان بدنام ہورہا ہے اور اس کی تصویر بھی بگڑ رہی ہے۔ مودی اور شاہ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی اصطلاح بہت استعمال کرتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مخالفین ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں لیکن جو زخمی اور لہولہان طلبہ و طالبات کی تصویریں ٹی وی چینلوں، اخبارات، فیس بک اور واٹس ایپ میں نظر آرہی ہیں اس سے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کا گینگ کون ہے، جس کے ہاتھ میں لاٹھی ڈنڈا، لوہے کی چھڑ اور ہتھیار ہو وہ ہے یا جو ان کی مظلومیت کا شکار ہے۔ پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دہشت گردی کا دہلی پولس نے جو بی جے پی کے زیر نگرانی ہے مظاہرہ کیا۔ لائبریری تک کو تہس نہس کیا۔ طالب علموں پر حملے کرنے سے باز نہیں آئی۔ جامعہ ملیہ سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالبعلموں پر یوگی پولس کا قہر ٹوٹا، سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور سیکڑوں کی گرفتاری ہوئی۔ اب اسی ظلم و جبر کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں دہرایا جارہا ہے۔ 
    جے این یو کی اسٹوڈنٹنس یونین کی صدر آئشی گھوش نے کہا ہے کہ لوہے کی چھڑوں سے ہم لوگوں کو مارا پیٹا گیا ہے ہم لوگ اس کا جواب Democratic debate  (جمہوری مباحثہ) اور Discussions (بحث و مباحثہ) سے دیں گے۔ صدر یونین نے یہ نہیں کہا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے بلکہ یہ کہا ہے کہ فکری بحث و مباحثے سے دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی کی بھی فکری شکست ہوجاتی ہے تو اس کے اندر کمزوری نظر آتی ہے۔ آج جو ملک بھر میں ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اس سے اقتدار کی چولیں ہل رہی ہیں۔ اسی کا رد عمل ہے کہ جو یونیورسٹی کے طالبعلموں پر حملے ہورہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دہلی میں جو 8 فروری کو الیکشن ہونے والا ہے اس کیلئے بی جے پی یا سنگھ پریوار ماحول تیار کررہا ہے۔ میرے خیال سے دونوں مقاصد ہیں۔ ایک مقصد ملک بھر کے طالب علموں کو یہ پیغام دینا ہے کہ جو بھی اقتدار کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرے گا اس سے حکمراں پارٹی اور اس کی طلبہ تنظیم سبق سکھائے گی۔ دوسرا ضمنی مقصد دہلی میں ہونے والا اسمبلی کا انتخاب ہے۔ امیت شاہ نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ جو لوگ بھی ’سی اے اے‘ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ان کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ سبق سکھانے والے کو شاید یہ سبق ضرور ملا ہے کہ ان کی بدنامی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک دہلی اسمبلی کے انتخاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دوچار سیٹوں پر ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ جھارکھنڈ میں جو حشر بی جے پی کا ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ برا حشر دہلی میں ہونے والا ہے۔ 
    مودی میجک کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ان کی جھوٹ اور فریب سب کے سامنے عیاں ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ ہندستان میں رہ کر پاکستان اور مسلمان کی باتیں کرتے ہیں تاکہ پولرائزیشن ہو اور اس پولرائزیشن سے ہندوؤں کا سارا ووٹ انھیں مل جائے گا۔ دہلی کے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کا جو انٹرویو آرہا ہے وہ بی جے پی کیلئے سوہانِ روح سے کم نہیں۔ سو ڈیڑھ سو میں شاید ہی کوئی بدقسمت ہوگا جو بی جے پی کی حمایت کرتا ہو، یہاں تک کہ جو لوگ بی جے پی کو ووٹ دیئے تھے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اروند کجریوال نے دہلی میں اپنی پانچ سال کی حکومت میں بہت کچھ کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بجلی، پانی، صحت اور تعلیم کی سہولیات کیلئے غیر معمولی کام انجام دیا ہے لہٰذا وہ بی جے پی کو بلکہ ’عام آدمی پارٹی‘ کو ووٹ دیں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے پاؤں تلے سے دہلی کی زمین کھسک گئی ہے۔ اب یہی مار پیٹ اور دہشت گردی ہی ان کیلئے سہارا ہے۔ انتخاب کے دن دھونس، دھاندلی سے بی جے پی کام لے گی کیونکہ پولس ان کی ہے۔ اور پولس کی مدد سے ہی جے این یو میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کیلئے ضروری ہے کہ انتخاب پرامن ماحول میں کرانے کیلئے الیکشن کمشنر پر دیگر پارٹیوں کی مدد سے زور ڈالے۔ الیکشن کمیشن بھی بی جے پی کی طرفداری کرتا رہتا ہے۔ امید ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں مل جل کر بی جے پی کو شکست دینے کی حتی الامکان کوشش کریں گی۔ غنڈہ گردی اور دہشت گردی کرنے والی پارٹی ایک طرح سے اپنی شکست خوردگی کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ بی جے پی ان تمام ریاستوں میں جہاں فتنہ و فساد کا مظاہرہ کر رہی ہے جہاں برسراقتدار ہے۔ اس میں یوپی سرفہرست ہے جو حقیقت میں قیدخانہ بنا ہوا ہے۔ یوپی میں بھی دیر سویر انتخاب ہونے والا ہے، شاید یوگی جی اور ان کی پارٹی تیاری میں لگی ہوئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی کے بہت سے ممبرانِ اسمبلی یوگی کے طرزِ حکمرانی سے ناخوش ہیں۔ اکھلیش یادو کے ایک بیان کے مطابق ناراض ایم ایل اے کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔ اگر ان کی ناراضگی بڑھتی ہے تو الیکشن سے پہلے ہی یوگی جی کی چھٹی ہوسکتی ہے۔ خدا کرے کہ یوپی کے مسلمانوں اور انصاف پسندشہریوں کو یوگی سے جلد سے جلد نجات حاصل ہوجائے۔ (یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
07/ جنوری 2020
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد

آر ایس ایس غلام نہیں بنا سکتی، اگر تحریک کا مقصد آئین کا تحفظ ہو..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے