دہلی فساد کے اصل مجرم آزاد اور مظلوم جیلوں میں!!!

 

   ذوالقرنین احمد

گزشتہ سال شہریت ترمیمی قانون کو دونوں ایوانوں میں پاس کرنے کے بعد اس سیاہ قانون کے خلاف جامعہ ملیہ  دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شاہین باغ سے احتجاج شروع ہوا جو دھیرے دھیرے پورے ملک میں پھیل گیا۔ جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کو واپس لے، جس میں مذہب کی بنیاد پر پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش،   کے جین ، سیکھ، ہندو، کو ہندوستانی شہریت دینے کا قانون بنایا گیا جس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ کہا تھا کہ پہلے شہریت ترمیمی قانون آئے گا  اسکے بعد این آر سی آئے گا اسی مسئلہ کے پیش نظر مسلمانوں نے اپنے ساتھ انصاف پسند افراد کو ساتھ لے کر شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
مشرقی دہلی کے سلیم پور، جعفر آباد علاقے میں خواتین نے ٹرین کا راستہ روک کر احتجاج شروع کیا تھا۔ جبکہ یہ حکومت کے بنائے گئے سیاہ قانون کے خلاف جاری تھا ۔ نا کہ کسی پارٹی یا مخصوص فرد کے خلاف لیکن آر ایس ایس کے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر نفرت انگیز اعلانات جاری کیے۔ جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپیل مشرا نفرت پھیلانے والا بیان بھی شامل ہے جس میں انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے افراد کو گولی مارو کہا تھا۔ جس کے بعد دہلی میں ۲۴ فروری ۲۰۲۰کو فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا  جس میں ۵۳ سے زائد افراد کی جانیں چلی گئی ۲۰۰ سی زائد زخمی ہوئے ۔ مسلمانوں کی مسجد کو شہید کیا گیا  دوکانوں کو چن چن کر نظر آتش کیا گیا ۔ باقاعدہ یہ ایک منظم فساد کروایا گیا تھا جس کا مقصد شہریت ترمیمی قانون کو کمزور کرنا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا تھا۔ اسی طرح بے قصور مسلم نوجوانوں کی جھوٹے الزامات میں گرفتاریاں کی گئی ہے۔  جنھیں خطرناک قانون کا استعمال کرکے جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ تقریباً ۲۲ سو افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔اسی طرح راگنی تیواری جو کہ ایک فرقہ پرست سنگھی ذہنیت کی حامل عورت ہے اس نے فساد زدہ علاقے میں فیس بک لائیو پر ویڈیوں جاری کرکے نفرت کی آگ بھڑکائی تھی اور سناتنی عوام کو بھڑکایا تھا ۔ جس میں پولس اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا  کہ لاٹھی چارج کرو ہم تمھارے ساتھ ہے۔
دہلی فرقہ وارانہ فساد کو حال ہی میں جاری سی پی آئی ایم کی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک منظم فساد تھا۔ اسے دہلی فساد کہنا غلط ہے کیونکہ فساد  میں دونوں فریق برابر کے شریک رہتے ہیں۔ جبکہ یہاں ہندو فریق کی طرف سے تشدد بھڑکایا گیا تھا۔ جو بی جے پی کے رہنماؤں کی طرف سے جاری بیانات کے بعد فساد ہوا، اس رپورٹ میں امیت شاہ کے ماتحت آنے والی وزارت داخلہ کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ فساد کو کنٹرول کرنے کیلئے پولس فورس کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا ، کرفیو کیوں نہیں لگایا گیا۔ مسلمانوں نے صرف اپنا دفاع کیا جبکہ کچھ ویڈیوز ایسے موجود ہے جس میں پولس کو ہندوتوا بھیڑ کی مدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس وقت دہلی کی سندھو بارڈر پر کسانوں کا کسان مخالف قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ جس میں گزشتہ دنوں شرجیل امام، اور دیگر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے نوجوانوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس انصاف پسند عوام کی آواز کو دبانے کیلئے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت  پھیلانے کیلئے راگنی تیواری جس نے دہلی فساد کے وقت بھی نفرت پھیلانے کا کام کیا تھا۔ اس نے پھر سے ایک نفرت انگیز ویڈیو کے ذریعے کسانوں کو  ۱۶ دسمبر تک احتجاج کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے اور احتجاج ختم نہ کرنے پھر سے دھمکی دی ہے کہ دہلی کے احتجاج کو جعفر آباد کی طرح ہم اٹھائے گے۔ اور اسکی ذمہ داری ریاستی و مرکزی حکومت ہوگی‌۔ اتنی نفرت انگیزی کے باوجود ان فرقہ پرستوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے اس سے پہلے بھی ان فرقہ پرستوں کے خلاف کیس درج کیے گئے تھے لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نا ہی اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ۔

یہ سب فرقہ پرست حکومت کے اقتدار میں ہورہا ہے ۔ گنڈا راج جاری ہے۔ کسانوں کے احتجاج میں سردی کے موسم میں کسانوں پر واٹر کینن برسائے گئے۔ دہلی میں داخل ہونے سے پہلے انہیں بارڈر پر روک دیا گیا۔ جبکہ وہ اپنے مطالبات کو لے کر جمہوری انداز میں احتجاج کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے سیاہ قانون کے خلاف مسلمان سڑکوں پر پورے ملک میں احتجاج کر رہے تھے ۔ موجودہ سنگھی حکومت نے پھر سے ایسے زراعی قوانین کو پاس کیا ہے۔ جس کا مقصد امیروں کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ جو کے کسانوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ فرقہ پرست سنگھی حکومت لاٹھی اور گولی کے زور پر عوام کو غلام بنانا چاہتی ہے۔ انسانی حقوق کو چھین کر ان پر ظلم کیا جارہا ہے۔ اور احتجاج کرنے پر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ کیا یہ ہٹلر شاہی نہیں ہے کیا ظالم حکومت نہیں ہے جو ظلم و جبر کے ساتھ ایک جمہوری ملک کی عوام پر من چاہے قانون کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ آج کسان سڑکوں پر ہے کل کو پھر کوئی نیا قانون ایسا پاس کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے عام عوام کے عام انسانی حقوق کو چھین لیا جائے گا۔ اور پھر انکے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کی طرح برتاؤ کیا جائےگا۔ آج سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے ملک کی تنزلی کا ذمہ دار انہیں ٹہرا رہی ہے۔ اور سیاست کر رہی ہے۔ جبکہ ملک کی عام عوام غربت و افلاس کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب رہی ہے۔ آج جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اگر انکی رہائی کیلئے عام عوام آواز نہیں اٹھاتی ہے تو آئیندہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی  تمام آوازوں کو دفن کردیا جائے گا اس لیے آج ملک کی عوام کو حکومت کے خلاف منظم احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

13دسمبر2020

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے