جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق طالب علم عمرخالد نے ۶؍ دسمبر کو ’’بغاوت کےمعاملے‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے خلاف دہلی فسادات کی سازش میں انہیں مورد الزام ٹھرانے کے تمام دعویٰ بے بنیاد ہیں۔‘‘ عمر خالد نے کورٹ کے سیشن کے دوران نشاندہی کی کہ ’’کس طرح انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایکٹ (یو اے پی اے) ۱۹۶۷ء کے تحت پھنسایا گیا تھا اور اعتراض کیا کہ اس مبینہ سازش میں ملوث دیگرافراد کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔ وکیل تردیپ پیس نے عمر خالد کی قید پرسوال قائم کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ کسی طرح کے تشدد یامظاہرے کرنے کیلئے فنڈ جمع کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے۔ عمر خالد نے دہلی ہائی کورٹ سے پوچھا کہ ’’میٹنگ میں شامل ہونےو الےا فراد ملزم کس طرح ہوسکتے ہیں۔ آخر میں ملزم کس طرح ہوسکتا ہوں۔ میٹنگ میں موجود دو افراد کو ملزم ٹھرایا گیا ہے، ایک شرجیل امام اور ایک ہیں۔کس طرح صرف ہم ملوث ہیں اور میٹنگ میں موجود دیگر افراد کو ملوث کیوں نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ کس طرح آپ کسی ایسے شخص کو ملزم ٹھرا سکتے ہیں جسے آپ جانتے تک نہیں ہیں؟‘‘
انہوں نے مسلم کارکنان کے تئیں حکومت کے رویے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’شہری سماج کے متعدد افراد اس اجلاس اور مظاہروں کاحصہ تھے، پھر انہیں نشانہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ انہیں کسی نے نشانہ نہیں بنایا۔ یوگیندر یادو سے لے کر فلم ساز راہل رائے تک ، کسی کو بھی ملزم نہیں ٹھرایا گیا اورنہ ہی انہیں یو اے پی اے کے تحت حراست میں لیا گیا۔ صبا دیوان اور دیگر نے تشدد پھوٹنے کے کچھ دیر بعد اپنے فون استعمال کئے تھے لیکن حکام نے ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا اور نہ ہی انہیں حراست میں لیا گیا؟‘‘
جسٹس نیون چاؤلا اور شلیندر کور کی بینچ کے سامنے یہ اعتراضات پیش کرتے ہوئے وکیل تردیپ نے کہا کہ ’’میٹنگ میں اور بھی لوگ تھے۔ مثال کے طور پر جگن پورہ کی میٹنگ میں مسٹر یوگیندر یادو تھے۔ وہ ملزم نہیں تھے۔ میٹنگ میں پرشوتھم شرما نے بھی شرکت کی تھی لیکن کسی نے انہیں ملزم نہیں ٹھرایا تھا۔‘‘
عمر خالد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں
یاد رہے کہ عمر خالد گزشتہ ۴؍ سال سے جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔وہ تہاڑ جیل میں ہیں۔ وہ ان ۱۸؍ افراد میں شامل ہیں جنہیں فروری ۲۰۲۰ء کے دہلی فسادات کیلئے ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔ ۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان پر دہلی فسادات کے ’’ماسٹرمائنڈ‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ دہلی فسادات کے نتیجے میں ۵۳؍ معصوم لوگوں کی جانیں گئی تھیں ۔ مہلوکین میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے جو (سی اے اے) سٹیزن شپ امانڈمیٹ ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ایکٹ (این آرسی) کےتحت احتجاج کررہے تھے۔تفتیش میں یہ بات واضح ہوئی تھی کہ عمر خالد جسمانی تشددیا اشتعال انگیز تقاریر میں ملوث نہیں ہیں۔ ان کے پاس نہ ہی ہتھیار یا پابندی عائد کیا گیا ادب پایا گیا تھا۔ صرف متعدد افرادکے ایسے بیان پائے گئے تھے کہ عمر خالد نے ایسی زبان استعمال کی تھی جس سے مظاہرین کے ردمیان اشتعال بھڑک اٹھا تھا۔
وکیل پیس نے عمرخالد کی عرضی متعدد مرتبہ مستردکئے جانے کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے عشرت جہاں، اقبال تنہا اور دیون گنا کلیتا جیسے افراد کو ضمانت دی تھی۔عمر خالد نے دلیل پیش کی تھی کہ ’’جب تشددپھوٹ پڑا تھا تو انہوں نے ’’پر امن مظاہروں‘‘ کیلئے گاندھی جی کے اصولوں کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’امراوتی میں ان کی تقریر کو مخالفین نے داغدارکیا تھا لیکن حقیقت میں یہ ’’عدم تشدد‘‘پر مبنی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’تقریر میں تشد د پر نہیں اکسایا گیا تھا۔ میں دہلی سے بہت دور تھا۔ ہجوم نے کسی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ تقریر میں گاندھی جی کے عدم تشدد کے اصولوں کی پاسداری پر زور دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم اس قانون کے خلاف احتجاج کریں گے۔‘‘بار اور بینچ کے مطابق عمر خالد نے کہا کہ ’’مجرمانہ سازش کی میٹنگ میں بھی، میٹنگ کے ممبران ایک ہی جگہ پر نہیں تھے۔ انہوں نے اچانک سی ڈر آر پڑھا اور ملزم کی لوکیشن کا موازنہ کیا اور کہا کہ ’’یہ افرادیہی پر ہیں۔دوسری میٹنگ میں ایسے افراد زیادہ تھے جنہیں ملزم ٹھہرایا نہیں گیا ہے۔ ’’ ہائی کورٹ نے اسی دن لیڈر میران حیدر کے کیس کی بھی سماعت کی ہے جنہوں نے ضمانت کی عرضی داخل کی ہے۔ ان کے خلاف بھی کسی طرح کے ہتھیارنہیں پائے گئے ہیں اور نہ ہی انہیںفسادات میں غیر قانونی طور پر ملوث پایا گیا ہے۔