از۔عبدالنور عبدالباری فکردے ندوی
آج دہلی فسادات کی جانچ کر رہی ایس ائی ٹی (SIT) کی عجیب رپورٹ پر نظر پڑی جس میں دہلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ دہلی تشدد کا ماسٹر مائنڈ راجدھانی پبلک اسکول کا مالک فضیل فاروق ہے۔ مزید ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ تشدد بڑی سازش کے تحت ہوا بلکہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس کے سرے کو مرکز نظام الدین اور دارلعلوم دیوبند سے بھی جوڑا گیا ہے،دہلی تشدد جس میں زیادہ تر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی،اور ایک ہفتہ تک آ گ اور خون کے جس دریا کو پار کیا گیا‘اس کا درد اور کرب ان کے علاوہ کوئی دوسرا محسوس نہیں کرسکتا، اور اپنی تباہی بربادی، درندگی اور سفاکی کے اعتبار سے یہ ملک کی حالیہ تاریخ کا سب سے خوفناک فساد تھا۔لیکن اس میں امید کی کرن اتنی ضرور دیکھی گئی تھی کہ کئی ہندووں نے اپنے مسلمان پڑوسیوں کی اور کئی مسلمانوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی جانیں اپنی جانوں پر کھیل کر بچائی تھیں۔ فساد میں تجزیہ نگاروں کے مطابق سب کچھ ایک حکمت عملی کا حصہ تھا اور سفاک قاتلوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ میدان میں اتارا گیاتھا کہ وہ کچھ بھی کرلیں ان کی مکمل پشت پناہی کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر نے دہلی پولیس کے بر وقت کارروائی نہ کرنے پر سوال اٹھایا اورزہر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔جب دوسرے ججوں کو اس مقدمے کی سماعت سونپی گئی توانھوں نے معاملے کی سماعت ایک ماہ کے لئے ٹال دی۔ پھر سب سے پہلے عام آدمی پارٹی کے میونسپل کونسلر طاہر حسین کو نشانہ پر لیاگیا۔اس کے بعد مسلسل گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کرکے انہی کو نشانہ بنایا گیا جوسب سے زیادہ فسا د میں متاثر ہوئے تھے اور ملک میں لاک ڈاون ہونے کے باوجود مسلسل ان نوجوان طلباء،لیڈرز اورزیادہ تر طالبات کو دہلی فسادات کا ذمہ دار ٹہراکر گرفتار کیا گیا جو سی اے اے این آرسی کے خلاف میدان میں تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حراست میں لئے جانے والے افراد اس بل کی مخالفت صرف مسلم مخالف ہونے پر نہیں بلکہ ملک مخالف بل کی منظور ی پر سوال کھڑے کررہے تھے اور اسے قانون کی پاسداری نہیں بلکہ قانون شکنی سے تعبیر کررہے تھے۔ کیونکہ بل میں جس طرح سے ایک طبقہ کو نشانہ بناکر ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر سوال اٹھانا ان کا حق تھا۔ اور یہ حق دستور نے انہیں دیا ہے۔ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر آواز اٹھانا اور اپنے حقوق کے لئے لڑنا یہ گویا ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے۔ اب ان افراد کو جو ملک کی فلاح وبہبودی کو سامنے رکھ کر حقوق سلب کئے جانے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، ان کی گرفتاری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ فساد کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کرکے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی قانون کے خلاف آواز اٹھا نے پر ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو آج ان نوجوانوں کا ہورہا ہے اور دہلی فساد کا الزام ان کے سروں پر تھوپنے کی مذموم کوششوں کے ذریعہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کی تصویریں بھی دکھائی جارہی ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
04جون2020(فکروخبر)
جواب دیں