یہ پہلا موقع ہے جب لیفٹینٹ گورنر اور دہلی حکومت کے تنازعہ نے لڑائی کی شکل اختیار کرلی ۔ اختیارات کی یہ جنگ سڑک سے ہوتے ہوئے عدالت کے دروازے تک جا پہنچی ہے ۔ اس سے پورے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان لگا ہے ۔
عوام کو بجلی ، پانی ، اچھی اور محفوظ لوکل سواری ، ٹریفک جام اور آلودگی سے نجات دلانا تو درکنار سرکار کے روز مرہ کے کام بھی ٹھیک سے نہیں ہورہے حالت یہ ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے کجریوال سرکار اور لیفٹینٹ گورنر افسران کی تقرری و تبادلہ کو لیکر الجھے ہوئے ہیں ۔دونوں میں سے غلط جو بھی ہو نقصان دہلی کی ڈیڑ ھ کروڑ عوام کا ہو رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر 70سیٹوں والی اسمبلی میں 67سیٹ جیت کر آئی سرکار ایک افسر بھی اپنی پسند کا نہیں رکھ پاتی تو چناؤں کا ڈرامہ کیوں ؟ اگر لیفٹینٹ گورنر کو ہی سارے فیصلے لینے ہیں تو اسمبلی ، سرکار یا کابینہ کا ڈھکوسلا کیوں ؟قانونی طور پر کس کا کیا اختیار ہے یہ جاننے کے تین ذریعہ ہیں ۔ آئین کی دفعہ239AAجو دہلی کو ریاست بنانے کے لئے آئین میں 69ویں ترمیم کے تحت داخل ہوئی او ر یکم فروری 1992کو اس کا آرڈیننس جاری کیا گیا ۔دوسرا نیشنل کیپٹل ٹریٹری قانون 1991جو آئینی ترمیم کے ذریعہ وجود میں آیا اور تیسرا ٹرانجکشن آف بزنس رول 1993 ۔
تینوں ذرائع نے لیفٹینٹ گورنر کو حکومت کا سربراہ بتایا ہے لیفٹینٹ گورنر اور وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر کے درمیان اختلاف کی صورت میں کس کو کیا اختیار حاصل ہے اس کی پوری تفصیل ان قوانین میں موجود ہے ۔ آئین کی مندرجہ بالا دفعہ کی سہ دفعہ4میں کہا گیا ہے کہ اگر لیفٹینٹ گورنر اور وزراء کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے تو معاملہ کو وضاحت کے لئے صدر جمہوریہ کو بھیجا جائے گا اور جب تک وہاں سے کوئی فیصلہ نہیں آتا اور لیفٹینٹ گورنر کو لگتا کہ معاملہ پر فورا فیصلہ لینا ہے تو وہ لے سکتے ہیں ۔ان کا یہ فیصلہ سب کو ماننا ہوگا ۔ ٹرانجکشن آف بزنس رول 1993سلسلہ وار بتاتا ہے کہ کیسے کیسے کیا کیا کیا جانا چاہئے ۔اس کا رول 49کہتا کہ اگر لیفٹینٹ گورنر کا کسی وزیر سے کسی بات پر اختلاف ہے تو پہلے وہ اس معاملہ کو کابینہ کے پاس بھیجیں گے رول 50کہتا ہے کہ اگر یہ اختلاف بنا رہا تو اسے مرکزی سرکار کو صدر جمہوریہ کے فیصلہ کے لئے بھیجا جائے گا ۔رول 51کہتا ہے کہ جب تک صدر جمہوریہ کا فیصلہ نہیں آتا اورلیفٹینٹ گورنر سمجھتے ہیں کہ فورا ہدایت جاری کرنا ضروری ہے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں رول 52کا کہنا ہے کہ ان کے حکم کو متعلقہ وزیر کو عمل میں لانا ہوگا ۔رول 55(2) میں چیف سیکریٹری کی تقرری کا طریقہ بتایا گیا ہے اس قدم بہ قدم رہنمائی میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لیفٹینٹ گورنر نے ٹرانجکشن آف بزنس رول کے رول 50۔51 پر عمل کرتے ہوئے کابینہ کے ساتھ بیٹھک کر تنازعہ کو سلجھانے کی کوشش کی ؟ کیا انہوں نے افسرا ن کے تقرر یا تبادلہ کرنے سے پہلے یہ معاملہ صدرجمہوریہ کو بھیجاَ ؟ شاید نہیں ۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفیکشن میں تنازعہ کو اور ہوا دی جس میں کہا گیا ہے کہ انتظامی افسران کی تقرری یا تبادلہ میں لیفٹینٹ گورنر چاہیں تو صلاح لے سکتے ہیں اس کے لئے وزارت داخلہ نے آئین کی دفعہ 239AAکا حوالہ دیا ہے ۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران کا انتظام مرکز کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے لیفٹینٹ گورنر وزیر اعلیٰ کی صلاح لیں یہ ضروری نہیں ۔ جہاں قانو ن سازی کی طاقت نہیں ہوتی وہاں انتظامی طاقت بھی نہیں ہوتی ۔ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی صاف کیا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن بیورو دہلی سرکار کے ماتحت ہے اسے مرکزی کیڈر کے افسران کے خلاف جانچ کرنے کا حق نہیں ہے ۔
کرپشن مخالف انا آندولن سے نکلی عام آدمی پارٹی نے اپنے چناؤی مینی فیسٹو میں دہلی کو کرپشن سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کی سرکار آنے کے بعد اینٹی کرپشن بیورو نے تین ماہ میں 35افسران کو گرفتار کیا جبکہ 152افسران کرپشن کے معاملہ میں معطل ہوئے ۔اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ کرپٹ لوگوں میں اس سے خوف پیدا ہوا ہے مرکزی سرکار کے نوٹیفیکشن اسی خوف کا نتیجہ ہے ۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کرپشن کو دور کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے وہ اس نوٹیفیکشن کے ذریعہ کرپٹ افسران کو بچانا چاہتی ہے ۔ اس سے قبل دہلی نگر نگم میں بدعنوانی کا پردہ فاش ہو چکا ہے وہاں 22ہزار ایسے ملازمین پائے گئے جو برسوں سے تنخواہ حاصل کررہے ہیں لیکن ان کا نگم کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔
جانکاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے نوٹیفیکشن کے ذریعہ سیاسی نشانہ سادھنے کی کوشش کی تھی ایک طرف وہ کیجریوال سرکار پر دباؤ بنانا چاہتی تھی جس کے لئے لیفٹینٹ گورنر کا کنڈھا استعمال کیا گیا دوسری طرف وہ کجریوال کی شبیہ کو جھگڑالو شخص کی بنانا چاہتی ہے تاکہ آئندہ ریاستوں میں خاص طور پر پنجاب کے الیکشن میں وہ کہہ سکے کہ عام آدمی پارٹی اتنی بڑی اکثریت حاصل کرکے بھی دہلی میں کچھ نہ کر سکی ۔تیسری طرف وہ کجریوال کو دہلی میں الجھا کر رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ بہار ، بنگال ، یوپی اور اڑیسہ میں بی جے پی کا کھیل خراب نہ کر سکے ۔
دہلی ہائی کورٹ نے انٹی کرپشن بیورو کے ذریعہ گرفتار کئے گئے دہلی پولس کے ہیڈ کانسٹیبل کی ضمانت عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے نوٹیفیکیشن کو مشکوک بتایا تھا اور گرفتاری کو جائز قرار دیتے ہوئے ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا عدالت نے اپنے فیصلہ میں لیفٹینٹ گورنر کے 8نومبر 1993کے اس آر ڈیننس کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اے سی بی کا دائرہ پوری دہلی ہوگا ۔ وہ ایک پولس اسٹیشن ہے اور اس کا آفس پرانا سیکڑیٹریٹ ہوگا ۔ عدالت نے کہا کہ آئین کی دفعہ 239AA 3(A) میں اسمبلی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ Comcurrent Issuesمتوازی مسائل پر قانون بنا سکتی ہے ۔ اس فہرست میں آنے والے معاملوں میں لیفٹینٹ گورنر کو مداخلت کا حق نہیں ہے ۔ان معاملوں میں وہ کابینہ کی صلاح ماننے کے لئے پابند ہیں ۔ 1998میں اے سی بی اور افسران کی تقرری و تبادلوں کے معاملہ میں وضاحت ہوئی تھی کہ اے سی بی دہلی سرکار میں کام کررہے ملازمین کی جانچ کرسکتی ہے اور افسران کی تقرری و تبادلہ کا بینہ کی صلاح سے کیا جانا چاہئے جسے وزارت داخلہ نے اپنے تازہ نوٹفیکشن کے ذریعہ الٹ دیا ۔ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں جب بھی حقوق کے ایسے جھگڑے سنوائی کا موضوع بنے عدالت کے فیصلہ چنی ہوئی سرکاروں کے حق میں آئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سرکار دہلی کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔
مرکزی سرکار نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو لیکر سپریم کورٹ کا رخ کیا جبکہ دہلی حکومت نے مرکز کے نوٹیفیکیشن کو رد کرنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ مشکوک لفظ کو فیصلہ سے الگ رکھا جائے جبکہ ہائی کورٹ نے نوٹیفیکیشن پر سنوائی جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اے سی بی دہلی کے تمام افسران کی جانج کرسکتی ہے اور لیفٹینٹ گورنر افسران کی تقرری یا تبادلہ میں اپنی عقل یا حق امتیاز سے کام نہ لے کر کابینہ سے نام طلب کرے ۔ اگر کابینہ کے ذریعہ بھیجے گئے ناموں میں انہیں اختلاف ہے تو وہ اس میں ترمیم کے لئے سرکار کو واپس بھیج سکتے ہیں اگر دوبارہ بھی وہی نام آتے ہیں تو وہ یہ نامرکزی حکومت کو صدر جمہوریہ کے فیصلہ کے لئے بھیج دیں ۔
عدالت کی اس وضاحت سے یہ تو صاف ہوگیا کہ ریاستی حکومت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اسے دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی طرف پہلا قدم مانا جا رہا ہے اس لڑائی میں جیت دونوں کی ہی ہوئی ہے کجریوال رائے دہندگان کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ دہلی کے حق کے لئے وہ کسی سے بھی ٹکرانے کا مادہ رکھتے ہیں دوسری طرف تلخ تیور دکھاکر لیفٹینٹ گورنر نجیب جنگ نے اپنی کرسی پکی کرلی ہے کجریوا ل یہ بتانے میں بھی کامیا ب رہے ہیں کہ وہ ربر اسٹیمپ نہیں ہیں صوبہ میں حکومت اسی طرح چلے گی جس طرح وہ چلائیں گے انہوں نے یہ بھی بتادیا ہے کہ ان کی سرکار دہلی کے لوگوں کے لئے پوری ایمانداری سے کام کرنے میں جٹی ہے لیکن مرکزی حکومت ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کے عوام کب کامیاب ہوں گے ان کی کامیابی تو ان کے مسائل کے حل میں چھپی ہے جس کی راہ ابھی آسان نظر نہیں آتی ( یو این این)
جواب دیں