دہلی قتل عام اور حکومت کی بے شرمی

 

نہال صغیر

 

دہلی فساد جسے قتل عام کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے میں اب تک تصدیق شدہ انسانی اموات کی تعداد 42 سے زائد ہوچکی ہیں۔ تین دن تک دہلی جلتی رہی اور ہمارے پردھان سیوک ٹرمپ کے ساتھ انسانیت اور دہشت گردی پر گفتگو کرتے رہے۔ پوری دنیا سے حکومت پر لعنت کے ٹھیکرے برس رہے ہیں مگر ہمارے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کانگریس اور حزب مخالف نے کرایا ہے۔ مہاراشٹر سے ایک اور دلت لیڈر اور برہمنزم کے غلام رام داس اٹھاولے کہتے ہیں کانگریس اور عام ا?دمی پارٹی نے یہ فساد کرایا ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایک نہیں دسیوں ویڈیو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فسادات ہوتے رہے فسادی ا?زاد  گھومتے رہے اور دہلی کی نکمی اور بے شرم پولس خاموش تماشائی رہی۔ انہیں ان کے ا?قاؤں نے امن کے قیام کی کوشش کیلئے متحرک ہونے کا حکم ہی نہیں دیاتھا۔ پولس کے اسی رویہ کے سبب مسلم نوجوانوں نے بحالت مجبوری حفاظت خود اختیاری کے طور پر اپنا دفاع کیا اور یوں انہوں نے مزید نقصان ہونے سے بچالیا اور کئی فسادی بھی مارے گئے۔واضح ہوکہ مسلمان جن سیکولر اور جمہوریت پسند طبقہ پر جان چھڑکتے ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کا حفاظت خود اختیاری والا رویہ بھی قابل مذمت ہے۔ حفاظت خود اختیاری کی بنیاد پر ہی طاہر حسین نے جو احتیاطی تدبیر کی اس کی وجہ سے انہیں فساد کا ماسٹر مائنڈ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا اور پولس کا یہ رویہ نیا نہیں ہے تقریبا ا?زاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ا?یا ہے۔ ابھی تک گرفتار لوگوں کے تعلق سے یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان میں فسادی کتنے گرفتار کئے گئے اور مسلمان کتنے مگر مجھے یہاں کے بدترین متعصب انتظامیہ سے یہی امید ہے کہ انہوں نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا ہوگا جیسا کہ طاہر حسین کے معاملہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔مگر حکومت کی بے شرمی دیکھئے کہ پوری دنیا جس کی حقیقت کو اپنی ننگی ا?نکھوں سے دیکھ رہی ہے اس کے تعلق سے سچائی تسلیم کرنا قصورواروں کیلئے مشکل ہورہا ہے۔ سچ ہی کہا ہے نبی? نے ’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484)۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہم حکومت کی بے شرمی بے غیرتی اپنی کھلی ا?نکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ 
موجودہ حکومت عوام اور اس کی تحریک سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ انہیں دھوکے میں رکھنے والا کام رات کے اندھیرے میں ہی کیا کرتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی کا نفاذ اور مہاراشٹر میں اپوزیشن کو دور رکھنے کیلئے رات کے اندھیرے میں ہی صدر راج اٹھانا اور صبح تڑکے ہی حلف برداری۔اسی طرح اس نے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ بھی رات کے اندھیرے میں ہی کردیا۔ شاید یہ تاریکی کے پجاری ہیں۔دہلی فساد میں پولس اور انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی کیخلاف دہلی ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے دہلی پولس کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینے والے بی جے پی لیڈروں پر کارروائی کا حکم کیا دیا کہ حسب روایت بی جے پی کی موجودہ حکومت میں رات کے بارہ بجے جج مرلی دھر کا تبادلہ اچانک اور فوری اثر کے ساتھ کردیا گیا۔الزامات کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ کالجیم نے ان کے تبادلہ کی سفارش ۱۲? فروری کو ہی کردی تھی۔ لیکن یہ محض ایک بہانہ ہے اور اس کی حیثیت تار عنکبوت سے زیادہ نہیں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ا?ناً فاناً میں جج کا تبادلہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈر کو موجودہ فساد کے الزام اور مواخذہ سے بچایا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ ہیجسٹس مرلی دھر نے فسادکے دوران پولس کے کردار پر اٹھ رہے سوال پر بہت سخت تیور اپنائے تھے اور وہ تاریخی اور نہایت شدید ریمارک دیا تھا کہ ہم ۱۹۸۴ جیسے فساد کا اعادہ نہیں ہونے دیں گے۔ جج کے اس طرح کے انصاف پر مبنی رویہ کو دیکھتے ہوئے ہی جسٹس مرلی دھر کو رات میں ہی فوری تبادلہ کے احکام دے دیئے گئے۔حکومت کا یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہ شرم و حیا والا معاملہ ان کے لئے ہے جن میں یہ موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بے شرم اور ڈھیٹ قسم کے حکمراں شاید ہی کہیں دیکھے گئے ہوں۔ وہ بھی اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں جس پر دانشوروں کا طبقہ بضد ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر نظام حکومت نہیں ہے۔ جبکہ ہمیں اس جمہوری نظام نے وہ حکمراں عطا کئے ہیں جن کا تصور بادشاہت اور ا?مرانہ طرز حکومت میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔کانگریس نے بجا طور پر الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو بچانے کیلئے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کیا گیا ہے۔یہ بات اسی طرح سچ اور واضح ہے جس طرح دوپہر میں سورج کی موجودگی۔ خواہ اب بی جے پی یا حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے کچھ بھی جواز گڑھے جائیں۔
ہندوستا ن میں موجودہ حکومت کے دور میں سارے عوامی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ جمہوریت کے جتنے بھی ستون کہے جاتے ہیں ان میں کہیں کوئی جان نہیں بچی ہے۔ عدلیہ بھی پوری طرح اپنا وقار کھو چکی ہے، بس اتنا ہے کہ کچھ ججز جن کا ضمیر زندہ ہے اور وہ عدلیہ کا نام روشن دیکھنا چاہتے وہ اپنی جانب سے بساط بھر کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی کوشش جسٹس مرلی دھر نے کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پوری دنیا کے انصاف پسندوں نے ان کے جرات کی ستائش کی وہیں ان کے فیصلہ کی زد پر ا?نے والوں کے حامیوں نے بہر حال انہیں اس سیٹ سے ہٹانے کے احکام دے دیئے جہاں رہ کر وہ مظلوموں کی دادرسی کرسکتے اور ظالموں کی گردن ناپ سکتے تھے۔ہندوستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا ذرائع ابلاغ تو کب سے حکومت کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا ہے اسی کا انجام ہے کہ اب کوئی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ حکومت کی چاپلوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر عدلیہ کے بگاڑ کے باوجود بعض ججوں کی اپنے فرائض اور ذمہ داری کے تئیں سنجیدگی شاید یہاں کے بے بس عوام کا ا?خری سہارا ہیں۔ اگر انہیں بھی کام نہیں کرنے دیا گیا تو عوام میں جو بے چینی پھیلے گی اور اس بے چینی کے نتیجہ میں جو نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ سوال ا?ج کے ہر اس شخص کو اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے ضرور کرنا چاہئے جو موجودہ حالات سے واقف ہیں اور اس کے ردعمل سے بھی۔ وطن پرستی کے نام پر پورے ملک میں جس اندھیرے کو مزید گہرا کیا جارہا ہے ایک دن ایسا بھی ا?ئیگا جب اس اندھیرے سے کبھی ہم اجالے کی جانب پہنچ پائیں گے تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا کہ اس عرصہ میں ہم نے کیا کیا کھو دیا۔بہتر ہوتا کہ ہم اس اندھیرے کی گہرائی میں پہنچنے سے پہلے ہی تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹیں ورنہ اس وقت پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اب پچھتاوت کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘۔بیدار ہو جائیے باہر نکل ا?یئے کہ خواتین ناقابل تصور حوصلہ دکھاتے ہوئے دوماہ سے زائد عرصہ سے گھر کا سکھ چھوڑ کر ملک اور اپنے ا?نے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکل ا?ئی ہیں۔ موجودہ حکومت تاریک ذہن کی ہے اور وہ پورے ملک کو تاریک دور میں لے جانا چاہتی ہے۔کیا ا?پ یہ چاہیں گے کہ یہ لوگ ملک کو تاریک دور میں لے جائیں اور ہم دیکھتے رہیں؟ 
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 


 

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے