دلی میں اسلامی تاریخ اور فن تعمیر کے ابتدائی نقوش مٹنے کے قریب

یہ وہ خاندان تھا جس کے حکمراں غلام تھے یا غلاموں کی اولاد۔ قطب الدین ایبک خود ،شہاب الدین محمد غوری کا غلام تھا۔اس کا جانشیں سلطان شمس الدین التتمش بھی ایبک کاترک غلام تھا اور اس کی پرورش ایبک نے کی تھی مگر اس کے عقل وشعور اور علم وتقویٰ کو دیکھ کر بادشاہ نے اپنا داماد بنا لیاتھا۔التتمش نے قطب مینار اور قوت اسلام مسجد کو، جنہیں قطب الدین ایبک ناتمام چھوڑ کر مرگیا تھا، مکمل کرایا۔ التتمش نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا جو ہندوستان میں پہلی خاتون حکمراں تھی اور علم وہنر نیز بہادری میں مردوں سے کہیں آگے تھی۔خاندان غلاماں 1206ء سے 1290ء تک ہندوستان میں سلطنت دہلی پر حکمران رہا۔ 1206ء
میں غوری کی موت کے بعد قطب الدین نے غوری سلطنت کے ہندوستانی حصوں پر اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ اس نے پہلے لاہور کو دارالحکومت قرار دیا جسے بعد ازاں دہلی منتقل کردیا گیا۔قطب الدین ایبک 1210ء میں انتقال کرگیا جس کے بعد التتمش تخت پر بیٹھا۔ التتمش کے بعد آنے والے بہت سے سلاطین اسی کی اولاد میں سے تھے، جن میں اس کی بیٹی رضیہ سلطانہ بھی شامل تھی۔ سلطان ناصر الدین شاہ کی افواج کے سپہ سالار غیاث الدین بلبن نے ہندوستان کو منگولوں کے حملے سے بچانے کے لئے تاریخی کارنامے انجام دیئے اور بعد ازاں تخت حاصل کیا۔
ہندوستان میں اسلام کی قوت کی مظہر،مسجد قوت الاسلام
مسجدقوت اسلام ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں خاندان غلامان کے دورکی ایک عظیم یادگارہے جس کا مئذنہ ’’قطب مینار‘‘ عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ قطب الدین ایبک کے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی عظیم مسجد تھی۔مسجد قوت الاسلام کی تعمیر میں پرانی عمارتوں کا ملبہ استعمال کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔اس کی تعمیر کا مقصد صرف ایک مسجد کی تعمیر نہیں تھا بلکہ اس سرزمین پر اسلام کی شوکت کا اظہار بھی تھا۔اسی لئے پرشکوہ مسجد کے ساتھ ساتھ اس کے مینار کو بلند اور شاندار بنایا گیا تھا۔ کہنے کو یہ اذان دینے کے لئے بنایا گیا تھا مگر یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ اذان کے لئے اس قدر بلند مینار بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ماہرین کا خیال ہے کہ مینار کا مقصد مئذنہ سے زیادہ شان وشوکت کا اظہار تھا۔ قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔مسجدقوت الاسلام اور قطب مینار پر خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں جن کی کاریگری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی طرز تعمیر کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ جس وقت اس عمارت کی تعمیر ہوئی یہاں وسط ایشیا اور ایران کے کاریگروں کی کمی تھی اور ایسے افراد بھی موجود نہیں تھے جو اس طرز تعمیر سے آگاہ ہوں۔ ایسے میں کچھ ایرانی اور کچھ ہندوستانی کاریگروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ۔مسجد کی مغربی جانب سلطان شمس الدین التتمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔ سلطان کی قبر پر بھی قرآنی آیات تحریر ہیں۔اسے بادشاہ نے جیتے جی بنوایا تھا۔مسجد کی موجودہ صورتحال کھنڈرات جیسی ہی ہے اور دھیرے دھیرے دیواریں منہدم ہوتی جارہی ہے۔مسجد کی حرمت بھی باقی نہیں رہی اور یہاں آنے والے جوتے چپلوں سمیت گھومتے ہیں۔حکومت کی طرف سے اس کے تحفظ کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ علامہ محمد اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ایک نظم ’’مسجد قوت اسلام ‘‘کے عنوان سے لکھی ہے:
ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
’لا الہ‘ مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود!
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود!
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زجاج اس کا وجود!
ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہر معرکۂ بود و نبود!
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ اور درود!
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟
مسجد قوت الاسلام کا جنوبی دروازہ سلطان علاء الدین خلجی نے بہت بعد میں بنوایا تھا ۔اس کے نام کی مناسبت سے اسے علائی دروازہ کہا جاتا ہے۔علائی دروازہ پہلی عمارت ہے جس کی تعمیر ہند۔ اسلامی فن تعمیر کے اصولوں پر کی گئی ہے۔
قطب مینار
دہلی کی شناخت قطب مینار، پتھروں سے بنا دنیا کا سب سے اونچا تاریخی مینار ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ سائٹس میں شامل مہرولی علاقے کایہ مینارہند،اسلامی آرکیٹیکچرکا بے مثال نمونہ ہے۔ قطب مینار کی اونچائی 72. 5 میٹر ہے۔یہ سرخ اور بھورے رنگ کے بلوا پتھروں سے بنا ہے۔ قطب الدین ایبک ابھی پہلی منزل ہی بنا سکا تھاکہ اس کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے جانشین شمس الدین التتمش نے بالائی تین منزلیں بنوائیں۔مینار میں عربی اور فارسی ا سکرپٹ میں کئی مضامین پتھروں پر کھدے ہیں جو اس کی تاریخ بتاتے ہیں۔علاوہ ازیں قرآنی آیات خوبصورتی سے کندہ کی گئی ہیں۔مسجدکی علاء الدین خلجی کے زمانے توسیع کی گئی تھی اور فیروز شاہ تغلق وسکندر لودھی نے اپنے زمانے میں اس کی مرمت کرائی تھی۔ قطب مینار کی مرمت سال 1829 میں میجر آر اسمتھ نے کرائی تھی۔قدیم رکارڈ سے ظاہر ہے کہ 1326 اور 1368 میں بجلی گرنے سے دو باراسے نقصان ہوا تھا۔ پہلے نقصان کے بعد سلطان محمد تغلق نے 1332 میں اس کی مرمت کرائی۔ دوسرے نقصان کے بعد فیروز شاہ تغلق نے اس کی مرمت کرائی تھی۔
صوفیہ کا علاقہ
مہرولی کا علاقہ صوفیہ اور اہل تصوف کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔سلطان التتمش کے دور میں یہاں خواجہ معین الدین چشتی کی آمد ہوئی تھی اور یہاں انھوں نے دین کی اشاعت کے لئے اپنے مرید وخلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو رہنے کا حکم دیا تھا۔ بختیار کاکی کے اثرات سلطان التتمش پر تھے ، بعض روایتوں کے مطابق سلطان آپ کا مرید بھی تھا اور حکومت کے کام
کاج میں عموماً آپ کے مشوروں کا خیال رکھتا تھا۔ قطب صاحب کی نماز جنازہ سلطان نے ہی پڑھائی تھی اور اسی علاقے میں آپ کی قبر بھی ہے جہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ اس درگاہ کی تاریخی اہمیت مسلّم ہے اور یہ دلی میں قومی یکجہتی کا مرکز ہے۔یہاں آنے والوں میں سبھی مذہب اور فرقہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ سالانہ عرس کے موقع پربھی بڑی تعداد میں یہاں عقیدت مند جمع ہوتے ہیں۔ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ملکہ ممتاز محل نے اپنے بیٹے کی رہائی پر خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی تھی اور اس کی اس خوشی میں ہندوؤں نے بھی درگاہ کے قریب واقع یوگ مایا مندر میں پھولوں کے پنکھے چڑھائے۔درگاہ سے تھوڑے فاصلے پر مہرولی میں ہر سال نومبر مہینے میں ایک میلہ لگتا ہے جسے ’’ پھول والوں کی سیر‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کی شروعات تقریبا دو سو سال قبل مغل دور میں ہوئی تھی۔ہندو، مسلم اتحاد کی مثال اس میلے کی رونق آج بھی برقرار ہے۔ یہ میلہ دیکھنے کے لئے یہاں ملک و بیرون ملک کے لوگ جٹتے ہیں۔یہاں سے پھولوں کی چادر درگاہ پر پیش کی جاتی ہے اور پھولوں کا پنکھا یوگ مایا مندر میں چڑھایا جاتا ہے۔قطب صاحب کی درگاہ کے احاطے میں دوسرے کئی اولیاء وصالحین کے مزارات بھی ہیں۔ علاوہ ازیں مہرولی میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور دیگر اہل اللہ کی قبریں ہیں۔
کل کی دلی اور آج کی مہرولی
مہرولی کو ہنداسلامی سلطنت کا اولین مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس خطے میں ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں تاریخی عمارتیں، مسجدیں،درگاہیں، مقبرے، کنویں اور باؤلیاں ہیں۔یہ آثار صرف ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے لئے نادر وانمول ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ یہ سب تاریخی آثار دن بدن ختم ہوتے جارہے ہیں۔ان کی بربادی میں سرکاری اور غیر سرکاری عناصر برابر کے شریک ہیں۔ خود مسلمانوں نے بھی ان کی بربادی میں ویسا ہی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ دوسروں نے نبھایا۔ تاریخی عمارتوں کے کھنڈرات پر قبضے ہوتے جارہے ہیں اور نئی بلڈنگیں تعمیر ہوتی جارہی ہیں۔قبرستانوں اوروقف کی جائیدادوں پرمکان، ہوٹل، شاپنگ سنٹرس اور پارک وجود میں آرہے ہیں اور یہ سب حکومت کے لوگوں کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔یہاں آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے زیر انتظام کئی مسجدوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی ہے مگر ان کے اندر کسی بھی وقت غلیظ جانوروں کو محو آرام دیکھا جاسکتا ہے۔ مہرولی کا وہ علاقہ جو کبھی ہندوستان میں مسلم سلطنت کا مرکز ہوا کرتا تھا، آج اپنی قسمت پر نوحہ کناں نظر آتا ہے۔ ماضی کی شان وشوکت یہاں زیر خاک دفن ہوچکی ہے اور حال ایسا بے حال ہے کہ مستقبل کی امیدباقی نہیں بچی۔جہاں غلاموں نے اپنی شوکت و سطوت کے پرچم گاڑ ے تھے آج ’آزاد قوم مسلم‘ نے اپنے اجداد کی اسی میراث کی حفاظت سے قاصر ہے۔ یہ تاریخی سچائی ہے کہ جب ہندوستان میں مسلم سلطنت کا قیام عمل میں آیا تھا تو یہاں مسلمانوں کی آبادی ایک فیصد بھی نہیں تھی اور آج وہ کروڑوں میں ہیں مگر ان کا شکوہ ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت

دے ان کو سبق خودشکنی، خودنگری کا
دل توڑ گئی ان کا دوصدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا (

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے