’’ دلی میں آپ تو مہاراشٹر میں ہم ہیں باپ‘‘

اور وہ دبے الفاظ میں پوچھ رہے ہیں کہ یہ کونسا قانونی احتجاج ہے جس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر انارکی پھیلائی جارہی ہے ۔کیایہ مسئلہ کاحل ہے۔ وہیں دوسرے طرف راج ٹھاکر گزشتہ روز راج ٹھاکرے اپنے قافلہ کے ہمراہ جب ممبئی سے پونہ پہنچے تو ان کے ساتھ مسلح پولس موجودتھی اور ان کی آمد سے مختلف مقامات پر ٹول ناکے بند تھے ۔ نیز ریاست میں اشتعال انگیزی بیان دے کر قانو ن کو ہاتھ میں لینے والے راج کو بڑی عزت ووقار کے ساتھ ممبئی سے پونہ لایاگیا۔ آخر ایسا کیو ں۔
اگر ایساہے تو پھر حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ راج ٹھاکرے کے خلاف قانونی کاروائی کرپائے گی ۔دریں اثناء راج ٹھاکرے نے حکومت کو للکارتے ہوئے کہا کہ مجھ پر۱۱۰ پر کیس درج ہیں ۔اگر پولس اور حکومت میں ہمت ہے تو ان کے گرفتار کرکے دکھائیں ۔ کیا موصوف کایہ بیان دستو رہند کے مغائر نہیں ہے ۔ ان کی اشتعال انگیزی اور حکومت کو للکارنے سے کوئی تعزیرات ہند کی دفعہ ان پر عائد نہیں ہوتی ۔یاپھر پولس اور حکومت کی ان کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جوچاہے کریں ۔ یاپھر حکومت کی کوئی ایسی سازش ہے کہ مسلمانوں کو ڈرانے او رھمکانے کیلئے بال ٹھاکرے کی طرح راج ٹھاکر ے کی سیاسی پروش کرکے اپنی سیاست کو مزین کیاجائے۔راج ٹھاکرے کابیان اس بات کامتقاضی نہیں ہے کہ ریاست کے وزیرداخلہ آر آرپاٹل ان کے خلاف فوری کاروائی کرکے اپم پی ڈی اے اور راسو کے تحت ان کو سلاخوں کو پیچھے بھیج دیں ۔ یاپھر یہ قوانین صرف مسلمانوں کے لئے مدون ہیں ۔ قبل ازیں وزیرداخلہ نے بھیونڈی فساد کے بارے میں کہاتھا کہ ہم اینٹ کاجواب ہم گولی سے دیں گے ۔آج وہ کیوں خاموش ہیں ۔ پولس انتظامیہ ان کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کررہاہے ۔ کیا ریاست میں انصاف کے دو معیار بنائے گئے ہیں ۔ فرقہ پرست لیڈران کو کھلی چھوٹ اور غریب یامسلم قائدین کی معمولی غلطی پر ان کی فوری گرفتاری اور پھر ایم سی آر.
آخر کیاوجہ ہے کہ ریاست میں تشدد پھیلانے والے فرقہ پرست لوگوں کی حکومت پشت پناہی کررہی ہے۔ حالانکہ یہ سب باتیں عدالتیں کو بھی معلوم ہیں اور فرقہ پرست لیڈر کے خلاف عدالت بھی سوموٹو ایکشن لینے کے مجاز ہے ۔لیکن وہ بھی کسی مصلحت کے بناء پر خاموش ہے۔ ریاست کی عوام چاہتی ہے کہ وہ ریاست میں خوشحالی کی زندگی بسر کرے اور ریاست کو اشتعال انگیزیری اور فسادات سے بچایاجاسکے اور یہاں جمہوریت کو فروغ ملے ۔ ریاستی حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ میں ہوش کے ناخن لے اور اپنے سیکولر ہونے کاثبوت دے اور اشتعال انگیزی پھیلانے والے ایم این ایس کے سربراہ کے خلاف فوری امتناعی قوانین کے کاروائی کرکے ان کو قانو ن کو ہاتھ میں لینے سے روکے ۔ورنہ ریاست میں جمہوری اقدار اور دستورہند کی دھجیاں اڑتی رہیں گی اور سیاسی قائدین میں قانون کے تئیں کچھ بھی خوف وڈر نہیں ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ ریاست حکومت اس جانب ضرور توجہ دے اپنی ذمہ داری سے عہد ہ برآہوگی۔ ورنہ عوام کاکہناہے کہ حکومت کا موجودہ رویہ اس بات کاغماز ہے کہ ٹھاکرے خاندان جمہوریت اور دستور ہند کی اہمیت واقف ہی نہیں ہے ۔ نیز ریاست میں اپنی ڈیکٹیرشپ قائم کرکے انارکی کی سمت رواں دواں ہے۔ حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاناشاہوں پر قدرت کی سخت نگاہ ہوتی ہے اور جن کاحشر دینا اپنے آنکھوں سے دیکھ چکی ہے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے