دہلی فسادات سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ !!*

 

 

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

 

آخرکار بی جے پی اپنی سازش میں کامیاب ہو ہی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے پر امن غیر معینہ احتجاج سے خائف بی جے پی مسلسل اس احتجاج کو ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی لیکن انصاف پسند غیر مسلموں کی شمولیت اور مظاہرین کی حکمت عملی نے بی جے پی مشنری کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ لیکن 23 فروری اتوار کی شام ہوتے ہوتے بی جے پی فساد کا بیج بونے میں کامیاب رہی، جب جعفرآباد میں چل رہے دھرنے کے خلاف ایک معمولی اور مقامی نیتا کپل مشرا کے اکساوے پر موجپور چوک پر بی جے پی کارکنان نے پتھربازی کی۔کپل مشرا موقع پرست اور فطری طور پر بدزبان لیڈر ہے۔پہلے یہ عام آدمی پارٹی میں تھا،وہاں سے نکالے جانے کے بعد بی جے پی میں آیا ہے۔جب یہ عام آدمی پارٹی میں تھا تو وزیر اعظم مودی کو گالیاں بکتا تھا، پھینکو کہتا تھا،حد تو یہ ہے کہ اس نے مئی 2016 میں وزیر اعظم  مودی کو ISI ایجنٹ تک کہہ دیا تھا۔آج یہی لیڈر بی جے پی میں آکر امن پسند غیر مسلموں کو بھڑکا کر اپنی سیاسی زمین بنانے کے لیے مسلمانوں کو گالیاں دیتا ہے۔اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر موقع پرست ہے۔جعفرآباد میں پر امن مظاہرہ چل رہا تھا،پولیس مظاہرین سے گفت وشنید میں مصروف تھی کہ اس موقع پرست نے ٹویٹر پر بھڑکاؤ میسج کرکے لوگوں کو موجپور چوک پہنچنے کی اپیل کی اور اپنے ساتھ کچھ غنڈے لے جاکر پتھربازی کرائی۔اس کی بے خوفی کا عالم یہ تھا کہ بھرے مجمع میں کیمرے کے سامنے ڈی سی پی (Deputy Comissner of police) کو دھمکاتے ہوئے وارننگ دی کہ

"تین دن میں سی اے اے مظاہرین کو ہٹا دیں ورنہ ہمیں سڑک پر اترنا پڑے گا پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے۔"

 

اس معمولی سے لیڈر کی ڈھمکی سن کر ڈی سی پی صاحب بیچارگی سے سر ہلاتے رہے کاش انہیں اپنے رتبے اور ذمہ داری کا احساس ہوتا تو اسی وقت دھمکی دینے کے کیس میں اسے جیل رسید کر دیتے۔جس سے علاقے کا امن و امان بھی قائم رہتا ،قانون کی بالادستی بھی برقرار رہتی اور پھر کسی کو شرانگیزی کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔لیکن ڈی سی پی صاحب نےایسا کچھ نہیں کیا ۔ہاں اگر دھمکی دینے والا مسلمان ہوتا تو شاید اب تک وہ لیڈر جیل میں پڑا ہوتا۔

اتوار کو دی گئی تین دن کی وارننگ کو اگلے ہی دن عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ یکے بعد دیگرے آس پاس چل رہے مظاہروں پر پتھراؤ شروع ہوگیا۔شروعات موجپور چوک سے ہوئی اس کے بعد کردم پوری ، بابرپور ، بھجن پورہ ،کھجوری ، چاند باغ ،مصطفیٰ آباد، جعفرآباد میں شرپسندوں نے لاٹھی ڈنڈوں پیٹرول بموں سے حملہ بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے جمنا پار علاقے میں قتل وخون اور آگ زنی شروع ہوگئی۔

 بھجن پورہ واقع پیٹرول پمپ کو بری طرح پھونک دیا گیا ہے۔ پمپ کے ٹھیک سامنے واقع سید چاند بابا کے مزار کو پھونک دیا گیا۔چاند بابا کا مزار علاقے میں ایکتا واتحاد کا خوب صورت نمونہ ہے کیوں کہ یہاں کا انتظام وانصرام مسلمان نہیں ایک ہندو گوجر خاندان کرتا ہے۔ لیکن شرپسندوں نے نہایت بے خوفی کے ساتھ مزار میں پیٹرول بوتل اور ٹایر ڈال کر آگ لگائی ، آگ لگانے کے لئے ایک 17، 18 سالہ بچے کا استعمال کیا گیا۔بے خوفی کا یہ عالم کہ فسادیوں نے آگ لگانے کا ویڈیو بنایا اور فخریہ وائرل بھی کیا جس میں آگ لگانے والے چہرے صاف نظر آرہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کئے جانے لائق ہے مزار سے متصل ہی ایک مندر ہے جو مسلم اکثریتی علاقے میں پڑتا ہے لیکن مزار کی بے حرمتی کے بعد بھی مندر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا. رات ہوتے ہوتے گوکل پوری واقع ٹایر مارکیٹ کو پوری طرح جلا کر راکھ کردیا گیا۔ اس مارکیٹ میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کا کاروبار ہے،آگ زنی سے کروڑوں کا مال راکھ کا ڈھیر بن گیا ہے، کھجوری چوک پر تبلیغی جماعت کے کچھ افراد گزر رہے تھے کہ ان پر حملہ کردیا گیا اگر کالونی کے لوگ بچانے نہ آتے تو شاید کئی جانیں جا سکتی تھیں.

اس وقت پورے علاقے میں خوف و ہراس کا سماں ہے، ہر آہٹ پر کان کھڑے ہوجاتے ہیں، فضا میں گونجتے جارحانہ نعرے ،دکانوں سے اٹھتا دھواں کسی بھی دل کو ڈرانے کے لئے کافی ہے۔ فساد کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایک طبقہ پولیس کے شانہ بشانہ فساد کر رہا ہے، پولیس کی موجودگی میں ہتھیار بند لڑکے پتھربازی کر رہے ہیں لیکن انہیں پولیس کا خوف ہے نہ ڈر !!

ہاتھوں میں لاٹھی لیے یہ لڑکے

"پولیس ہمارے ساتھ ہے،دلی پولیس زندہ باد" کے نعرے لگاتے دکھائی دے رہے ہیں، کیا اسے پولیس کی شہہ نہ کہا جائے؟

ایک طرف یہی پولیس مسلم نوجوانوں پر تشدد کی انتہا کر دیتی ہے۔ ایک وائرل ویڈیو میں چند نوجوان انتہائی زخمی حالت میں سڑک پر بے سُدھ پڑے ہیں اور پولیس والے نہایت بے رحمی کے ساتھ ان کے منہ پر ڈنڈے مارتے ہیں اور کہتے ہیں:

"چل بے راشٹرگان سُنا، ایک پولیس والا گالی دیکر کہتا ہے چل…..وندے ماترم سُنا، دوسرا پولیس والا بھی گالی دیکر کہتا ہے…..ہندوستان میں آزادی کا نعرہ لگاتے ہو"

 

ذرا سوچیے!کیا ان جیسے پولیس والوں کی موجودگی میں امن و امان قائم ہوسکے گا؟

ہمارا ماننا ہے کہ پولیس فورس میں آج بھی فرض شناس افسران کی کمی نہیں ہے لیکن حالیہ واقعات کے تناظر میں لگتاہے کہ پولیس کے کچھ افراد میں مذہبی تعصب اور مسلم دشمنی کا زہر سرایت کر گیا ہے جس کی وجہ سے پولیس اپنے فرض کو بھول کر ایک فریق کا ساتھ دیتی ہے اور دوسرے فریق پر زیادتی کرتی ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت شرپسندوں سے زیادہ ڈر پولیس والوں کا ہے۔ جو مکمل طور پر مذہبی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں ، وکیلوں سے مار کھانے والی پولیس مسلمان کو دیکھتے ہی جنونی ہو جارہی ہے۔مرد تو مرد پولیسیا تشدد سے عورتیں اور بوڑھے تک محفوظ نہیں ہیں۔

 

*سیاسی لیڈران کہاں ہیں؟*

دِلّی آگ میں جل رہی ہے لیکن وزیر اعلی سمیت سارے سیاسی لیڈران بس ٹویٹر پر ہی امن کی اپیلیں کر رہے ہیں ، ہمارے لیڈران کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ ہر کام سوشل میڈیا پر نہیں ہوتا کچھ کام زمین پر کرنا پڑتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کیجری وال کو چاہیے کہ وہ اپنے وزرا اور ممبران اسمبلی کے ساتھ علاقے کا دورہ کریں اور لوگوں کو سمجھائیں۔ فساد زدہ علاقے میں سینئر وزیر گوپال رائے ، حاجی یونس، اور عبدالرحمن جیسے ممبران اسمبلی کے حلقے ہیں لیکن زمینی سطح پر یہ تینوں لیڈران غائب ہیں۔ فسادیوں کے حوصلے آسمان چھو رہے ہیں ، افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں اعلی سیاسی قیادت نے دخل نہ دیا تو بی جے پی کارکنان اس آگ کو پوری دلی میں پھیلا دیں گے۔ سوشل میڈیا پر فساد کے ویڈیوز پر ان کے تبصروں اور جارحانہ کمنٹ پڑھ کر ان کی طبیعت وفطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر انصاف پسند غیر مسلم سماجی کارکنان ،دلت لیڈران،اور سوشل ورکرز گھروں سے نکلیں، عوامی نفرت کو روکنے میں عملی کردار ادا کریں تاکہ امن وبھائی چارگی قائم رہے ، ہماری دلی پر داغ نہ لگ سکے !!

 

عوام بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ ہر بار کی طرح آپ کا محض جذباتی استعمال ہوگا اور فائدہ سیاسی لیڈران اٹھائیں گے۔آپ کو اسی سماج میں رہنا ہے جہاں ایک دوسرے سے آپ کے کام وابستہ ہیں۔ہندو دکاندار کے گراہک مسلمان ہیں۔مسلمان ڈرائیور کے کسٹمر ہندو ہیں۔ہندو ہاکر ہے تو اس کے خریدار مسلمان ہیں۔ہمارے کام ایک دوسرے سے جڑے ہیں،ہمارے گھر مکان ایک دوسرے کے محلوں میں ہیں۔ کل جب فساد کی آگ ٹھنڈی ہوگی تو کس منہ سے اپنے پڑوسی اور کاروباری دوستوں سے آنکھ ملاؤگے؟

اس لیے سیاسی لیڈروں کے اکساوے سے بچو۔ اپنے بچوں کو فسادات سے دور رکھو ورنہ لیڈر تو ترقی کر جائے گا تمہارے بچے جیلوں اور کچہریوں کے چکر کاٹتے رہیں گے۔

 

*مظاہرین سے گزارش:*

جو لوگ فسادات کی تاریخ جانتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ فساد میں بالآخر مسلمانوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔انہیں کے مکان اورگاڑیاں جلائی جاتی ہیں،انہیں کی دکانیں لوٹی جاتی ہیں ،انہیں کی لاشیں گرتی ہیں اور اخیر میں انہیں پر مقدمات درج ہوتے ہیں اس لیے براہ کرم کسی کے اکساوے میں نہ آئیں ، صبر کا دامن تھامے رکھیں ، آپ کو بدنام کرنے کے لیے حکومتی مشنری ، اخبار ، میڈیا اور پولیس تیار ہے۔آپ پر ہی ظلم ہوگا اور آپ ہی ظالم کہلاؤگے ۔ اس لئے اس وقت ضبط سے کام لیں۔آپ کی پر امن تحریک عالم گیر سطح پر چرچا میں ہے،امریکی صدر کے عین دہلی دورے پر فساد ہوناایک سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ امریکی صدر کو یہ باور کرایا جاسکے کہ سی اے اے مخالفین جمہوریت میں نہیں تشدد میں یقین رکھتے ہیں۔میڈیا ایسے ہی ویڈیوز دکھائے گا جس سے وہ آپ کو ظالم،فسادی اور جمہوریت مخالف ثابت کر سکے۔پولیس اس وقت مکمل طور پر آپ کے خلاف ہے۔آپ کا کاروبار،دکانیں ایک جھٹکے میں نذر آتش ہوسکتی ہیں۔راہ میں رکشہ چالک،ریڑھی پٹری والے غریب مسلمان ،شرپسندوں کا آسان نشانہ بن سکتے ہیں اس لیے سمجھ بوجھ سے کام لیں اور کسی بھی طرح کے اکساوے اور فساد سے دور رہیں اسی میں ملک اور تحریک کا بھلا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

۲۵فروری۲۰۲۰

 

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے