وہ صرف مسجدوں میں امامت کرنے اور قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کے لائق ہی رہتے ہیں؟ یہ سوالات اپنی جگہ پر مگر اس سے پہلے ضرورت ہے مدرسوں کے نصاب تعلیم اور ان کے مقاصد کو سمجھنے کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مدرسوں کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں ہیں اور خود مسلمان بھی ان غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں؟ حکومت بھی غلط فہمی کی شکار ہے، لہذا وہ بھی مسلسل تجدید کاری کی بات کرتی رہتی ہے، جبکہ مدرسوں کے ذمہ داران سرکاری مداخلت کے نام سے ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو مدرسوں کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور ان کی حالت بھی سرکاری اسکولوں جیسی ہوجائے گی جہاں تعلیم کے بجائے وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس لئے مدرسوں کے سسٹم اور مقصد کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کہاں سے پورے ہوتے ہیں مدرسوں کے اخراجات؟
بھارت میں آج اگر اسلامی تعلیم باقی ہے اور مسجدوں کا وجودقائم ہے تو اس کا سہرا دینی مدرسوں کو جاتا ہے جو بے حد خلوص سے دین کے پاسبان پیدا کر رہے ہیں۔ ان مدرسوں کے ذمہ داران بڑی محنت اور مشقت سے مدرسوں کے ا خراجات پورے کرتے ہیں جو عام طور پر غریب اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کے چندے سے جمع ہوتے ہیں۔ شہری مسلمان اگر رقم دیتے ہیں تو آج بھی دیہی علاقوں کے مسلمان اناج دیتے ہیں اور زمین وغیرہ کے ٹکڑے مدرسوں میں وقف کرتے ہیں تاکہ اس کی آمدنی سے طلباء کی کفالت ہوسکے۔ سبھی مدرسے کسی نہ کسی مسلک یا مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بھی اسی کے مطابق ڈھونڈ لیا ہے۔ مثلاً اہلِ سنت والجماعت(بریلوی) کے مدارس چندے کے لئے عام طور زکوٰۃ و خیرات پر انحصار کرتے ہیں تو اہل حدیث مدارس سعودی عربیہ سے آنے والے پیسے پر چلتے ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کے مدرسوں کا ذریعہ آمدنی عام طور پر چندہ ہوتا ہے۔ شیعہ مدرسوں کا خرچ شیعوں کے بیچ چندے سے چلتا ہے اور بعض اہل مدارس ایران سے بھی پیسے لاتے ہیں۔
بہار اور اتر پردیش سمیت ملک کے کئی حصوں میں ایسے مدرسے ہیں جنھیں سرکاری منظوری ملی ہوئی ہے اور مدرسین کی تنخواہیں سرکار کی طرف سے آجاتی ہے۔ ان مدرسوں کو ایک بڑی سہولت حاصل ہے۔ ان مدرسوں میں سرکار کی طرف سے چلنے والی ’’مڈڈے میل اسکیم‘‘ بھی لاگو ہوتی ہے لہٰذا دوپہر کے کھانے کا انتظام سرکار کی طرف سے ہوجاتا ہے۔انھیں چندے کی ضرورت صرف اپنی عمارت کی تعمیر کے لئے پڑتی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ایسے مدارس بھی ہیں جو سرکار سے مدد لینا پسند نہیں کرتے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سرکار کی پالیسی اور دباؤ کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔
دینی مدارس کا نصاب تعلیم
جس طرح ملک میں چلنے والے مدرسوں کا مسلک الگ الگ ہے اور آمدنی کے ذرائع بھی کچھ الگ ہیں اسی طرح ان مدرسوں کا نصاب تعلیم بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دیوبندی اور بریلوی مدرسوں کے نصاب تعلیم میں بہت زیادہ مناسبت ہے کیونکہ دونوں درس نظامیہ کی تعلیم دیتے ہیں اوردونوں کی فقہی کتابیں بھی ایک ہیں کیونکہ دونوں ہی خودکو حنفی قرار دیتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہ نصاب تعلیم تقریباً تین سو سال قبل ملا نظام الدین نامی ایک ماہر تعلیم نے اس وقت کی ضرورتوں کے مطابق ترتیب دیا تھا۔ اس میں دونوں نے بہت معمولی بدلاؤ کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ۱۸۸۶ء میں اس نصاب کو لاگو کیا تھا اور اس کے بعد سے تمام دیوبندی مدرسوں میں یہ رائج ہوگیا۔ بریلوی مدرسوں میں یونانی فقہ اور منطق پر آج بھی زور دیا جاتا ہے جس کی ضرورت نہ دنیا میں کسی کو پڑتی ہے اورنہ آخرت میں مگر پڑھانے والوں نے یہی پڑھا ہے ، اس کے علاوہ کچھ اور پڑھانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔ جس علم کو خود یونان نے ہزاروں سال پہلے چھوڑدیا تھا اسے یہ ڈھو رہے ہیں۔ اہل حدیث مدرسوں میں حدیث کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ فن اسماء الرجال کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔یہاں کسی خاص مسلک کی فقہ کی کتابیں پڑھانے کے بجائے سیدھے طور پر احادیث سے استفادہ کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سبھی مدرسوں میں جو بات یکسانیت رکھتی ہے وہ یہ کہ تفسیر قرآن اور حدیث کی چھ سب سے معتبر کتابیں جنھیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے پڑھائی جاتی ہیں، البتہ سبھی مدرسین قرآن و احادیث کی تشریح اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں۔ شیعہ مدارس میں جو نصاب چلتا ہے وہ سنی مدرسوں سے بالکل الگ ہوتا ہے ۔ یہاں فقہ جعفریہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور فارسی زبان پر خاص طور پر توجہ دی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کتابوں پر زور دیا جاتا ہے جو اہل بیت اطہار کی محبت کو دل میں راسخ کرتی ہوں۔ سنی مدرسوں کی طرح یہاں بھی قرآن کی تعلیم سب سے بنیادی ہوتی ہے۔
مدرسوں کا مقصد اور کارنامے
دینی مدرسوں میں آج کل انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم لازمی ہے اور ایسا مدرسہ نہیں مل سکتا جہاں ان کی تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ ۔ ندوۃ العلماء (لکھنو)بھی ایسا مدرسہ ہے جہاں سبھی مسلک کے طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ حکومت ہند بھی ان مدرسوں کی سند کو تسلیم کرتی ہے اور فراغت کے بعد یہ طلباء کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ ان مدرسوں کے فارغین میں سے بعض ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، بزنس مین اور اعلیٰ سرکاری افسر بھی ہوئے ہیں۔ وہ کئی یونیور سیٹیوں اور کالجوں میں لکچرر بھی ہیں۔ مگر اس کا انحصار ہوتا ہے مدرسوں سے فراغت کے بعد ان کی محنت اور صلاحیت پر۔ مدرسوں کے نصاب تعلیم میں زور دیا جاتا ہے دینی تعلیم پر ،تاکہ طالبعلم ایک اچھا انسان بنے اور اسلامی تعلیم و ثقافت کا محافظ ہو۔ اس نصاب کا مقصد کہیں بھی مادی دولت کا حصول اور اعلیٰ دنیاوی عہدوں کی طلب نہیں ہوتی ہے۔ اسی لئے عام طور پر فارغین مدارس اعلیٰ دنیاوی عہدوں پر نہیں پہنچتے مگر اچھے انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کے اندر وہ اخلاقی خرابیاں نہیں دیکھی جاتیں جو دوسرے لوگوں میں عموماً پائی جاتی ہیں۔ شراب، جوا، سود جیسی خرابیوں سے وہ پاک ہوتے ہیں۔انسانیت کے احترام کا جذبہ ان کے اندر ہوتا ہے۔ مدرسوں کے طلباء اور کالجوں کے طلباء میں بہت بڑا فرق اخلاقیات کا ہی ہوتا ہے۔ کالجوں میں آئے دن ہنگامے ہوتے ہیں اور سڑکیں جام کی جاتی ہیں اور توڑ پھوڑ جیسی خبریں آتی رہتی ہیں مگر مدرسوں کے طلباء کی جانب سے ایسی خبریں نہیں آتیں کیونکہ انھیں نظم و ضبط کی بہتر تعلیم دیجاتی ہے۔
مدرسوں کی تجدیدکاری کا مسئلہ
سرکار کی طرف سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مدرسوں کی تجدید کاری کی ضرورت ہے۔ مدرسوں کو ماڈرن ہونا چاہئے اور وہاں سے بھی داکٹر، انجینئر نکلنے چاہیئیں۔حالانکہ یہ بات ویسی ہے جیسے کوئی کالجوں اور یونیورسیٹیوں سے یہ مطالبہ کرے کہ وہاں سے عالم دین نکلنے چاہیءں۔ مدرسوں کا مقصد دینی تعلیم اور اسلامی ثقافت کی حفاظت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔سرکار کی جانب سے مداخلت شکوک و شبہات پیدا کرے گی۔ مدرسوں کو کالج اور اسکول بنانے کی کوشش کو مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے اور یہ مدرسوں کے مقصد وجود کے خلاف بھی ہے۔ ویسے اس سلسلے میں سرکار بھی کچھ خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ سابقہ یو پی اے سرکار نے مدرسوں کی تجدید کاری کے لئے ۵۵۰ کروڑ روپئے اپنے بجٹ میں رکھے تھے جو کہیں خرچ نہیں کیا جاتا تھا ،صرف دکھاوے کے لئے ہوتا تھا۔ موجودہ این ڈی اے سرکار نے اسے گھٹا کر صرف سو کروڑ کردیا ہے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ سرکار اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پوری ریاست میں انگلش میڈیم مدرسے کھولیں گی اور انھوں نے اس کی ابتدا ضلع ندیا کے ایک گاؤں پانی نالہ سے کربھی دیا ہے۔ یہاں ایک انگلش میڈیم ہائی مدرسہ کھولا گیا ہے جہاں سی بی ایس سی نصاب تعلیم ہے اور الگ سے عربی کوایک زبان کے طور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں نام کے سوا کچھ بھی مدرسہ والی بات نہیں ہے ۔ بچے ہاف پینٹ اور بچیاں اسکرٹ میں مدرسہ آتی ہیں۔ طلباء وا ساتذہ میں بھی بڑی تعداد ہندووں کی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ اس قسم کے مدرسے مغربی بنگال میں پہلے سے ہی ہیں جہاں دینی تعلیم برائے نام ہوتی ہے اور تمام نصاب اسکولوں کا ہے۔ ان مدرسوں میں ایک آدھ ٹیچر ہی مسلمان ہوتے ہیں اور بیشتر طلبہ بھی غیر مسلم ہوتے ہیں۔ حالانکہ سابقہ کمیونسٹ سرکار کو یہ مدرسے بھی ہضم نہیں ہوئے اور اس نے ان میں سے بیشتر کے نام بھی مدرسہ سے بدل کر اسکول کردیا۔
مدرسے اسلامی تعلیم و ثقافت کے داعی ہیں جب کہ حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔ یہ تب ہی تک ٹھیک چلیں گے جب تک مخلص مسلمان اسے چلاتے رہیں گے۔ سرکاری مداخلت یقینی طور پر انھیں برباد کردے گی اور ا س بات کو مسلمان بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ حکومت کو اگر مسلمانوں کی تعلیم سے تھوڑی سی بھی دلچسپی ہے تو اسے سرکاری اسکولوں کی طرف توجہ دینا چاہئے جہاں ۹۷ فیصد مسلمان جاتے ہیں ۔ مدرسوں میں تو صرف تین فیصد ہی مسلم بچے جاتے ہیں۔ویسے مدرسوں میں اگر بدلاؤ کی ضرورت ہے تو خود اہل مدارس کو ہی عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق بدلاؤ کرنا چاہئے۔ ویسے عام مسلمان بھی مدرسوں کے تعلق سے غلط فہمی کا شکار ہیں انھیں بھی اپنی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔
جواب دیں