انگریزوں کو اپنی حکومت چلانے کے لئے شدت سے ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوی جو انہیں کی زبان انگریزی میں یہ کام کر سکتے تھے . اگر وہ چاہتے تو اس وقت کے نظام تعلیم میں ہی دونوں علوم کو رائج کر سکتے تھے ، مگر عام مسلمان ان سے نفرت کر تا تھا اور انہیں مکار اور قابض قوم سمجھتا تھا اور اس کوشش میں لگا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان کی غلامی سے آزاد ہو جائے . مسلمانوں کو اس بات کا غرور بھی تھا کہ انہوں نے سات سو سال تک ہندستان پر حکومت کی اور اپنی زبان اردو اور فارسی کو فروغ دیا تھا . انگریزوں سے دشمنی انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ انکے عصری علوم کو اپنے مدرسوں میں سکھائیں . یہ ایک قدرتی رد عمل تھا جسے ہم موجودہ دور کے آئینہ میں دیکھ کر رائے قائم نہیں کر سکتے . اْدھر انگریزوں نے ہندستان کو عیسائی بنانے کی مہم شروع کر دیے تھے جس سے مسلمانوں نے بہت بڑا خطرہ محسوس کیا اور اسی کی بنیادپر پہلی مرتبہ تعلیم کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا . ایک دینی تعلیم اور دوسری عصری تعلیم . دینی تعلیم صرف قرآن اور حدیث تک محدود ہو گئی . اسلام کی یہ خوبی ہے کہ بچہ پیدا ہو نے سے لے کر بڑا ہو نے تک اسے گھر میں یا مسجد کی مکتب میں دین کی ابتدائی تعلیم ضرور دی جا تی ہے اور اسکولوں میں عصری تعلیم حاصل کر نے کے باوجود وہ مذہبی علم سے وابسطہ رہتا ہے . ہندستان میں دو تحریکوں کا آغاز ہوا ۔ عصری تعلیم کی تحریک سر سید احمد خان نے کی جبکہ مذہیب تعلیم کی تحریک مولانا نانوتوی نے کی . ایک نے علی گڑھ مسلم یونورسٹی قائم کی تو دوسرے نے دارالعلوم دیو بند قائم کیا . یہ دونوں حضرات دھلی کالج کے استاد مولانا مملوک علی کے شاگرد تھے اور تحریک ولی اللہ کے علمبردار تھے . آج ایک اندازے کے مطابق ہندستان میں مدارس کی تعداد 86 ہزار ہے جہاں بچوں کو دینی ، اخلاقی اور روحانی تعلیم دی جا تی ہے . اسکے علاوہ بے شمار مکاتب بھی ہیں . یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تعلیم کے اسی ایک ذریعہ سے مسلمانوں کی ہمہ جہتی ترقی ممکن نہیں ہے . عصری ی تعلیم بھی یکطرفہ ہو کر رہ گئی ہے . اس عدم توازن کو دور کر نا اور مکمل تعلیم کا نظام قائم کر نا آج کی اہم ترین ضرورت ہے . اب ہمیں اس بات پر غور کر نا ہے کہ اس آزاد ہندستان میں کیا ہم دوبارہ پہلے والے تعلیمی نظام کو قائم کر سکتے ہیں جہان دین بھی ہو اور دنیا بھی ہو . بچہ بارہ سال تک ہلکی پرائمری تعلیم کے ساتھ حافظ قرآن ضرور بن جائے گا اور پھر میٹرک تک عصری اور دینی علوم عمومی (General ) حد تک حاصل کر لے گا . اس کے بعد ایک طرف وہ عالم و فاضل کے جنرل سبجکٹ کے ساتھ سائنس ، کامرس یا آرٹس کے سبجکٹ کی بنیادی معلومات حاصل کر کے گریجویٹ بن سکتا ہے . گرئجوئیٹ بننے کے بعد وہ ماہر بننے (Specialisation) کی طرف توجہ دے سکتا ہے . پھر وہ عالم یا مفتی کا کورس لیکر ماہر بن سکتا ہے یا تاریخ ، معاشیات ، انجنیرئنگ ، میڈیکل اور دیگر کورس لے سکتا ہے . یہ راستے وہ بارھویں جماعت میں پڑھتے ہوے بھی چن سکتا ہے . اس طرح ہر مسلمان دین اور دنیا دونوں علوم سے آراستہ ہو سکتا ہے . یہ طریقہ ہم علی گرھ مسلم یونیورسٹی میں اور الامین کالجوں اور دیگر مسلمانوں کے کالجوں میں بھی رائج کر سکتے ہیں . دارالعلوم دیوبند ، بریلی شریف اور سبیل الرشاد اور دیگر مدرسوں میں بھی رائج کر نے کے متعلق سوچ سکتے ہیں . آج گلی گلی میں دارالعلوم کے ناموں سے مدرسے کھل رہے ہیں جہان کوئی منظم تعلیمی نظام نہیں ہے اور جہاں سے کوئی بھی عالم و فاضل نکل نہیں سکتا . در اصل یہ Self employment schemes ہیں جہاں مدرسوں سے نکلے ہوے بے روزگار نوجوان اس دھندے میں ملوث ہو جا تے ہیں . آج ہمیں ایسے بڑے بڑے مدرسے چاہیے جہاں باقائدہ تعلیمی نظام ہو اور جہان سے فارغ ہو نے والے نوجوانوں کو ملازمت مل سکے اور وہ ایک با وقار زندگی گزار سکیں . اس کے لئے ہر ایسے بڑے مدرسے میں ITIs قائم کر نا چاہیے اور دینی تعلیم کو بھی روزی روٹی اور ملازمت سے جوڑ نا چاہیے . ۔ امریکہ کے شہر آسٹن میں میری ملاقات ایک مسجد کے ایسے امام سے ہوی جنکا نام اسلام مالسی ہے ([email protected] ) آپ کیمیکل انجنیرئنگ میں ماسٹرس ہیں . آپ نے مسجد کی امامت کو چنا تا تاکہ وہ قوم کی خدمت کر سکیں . خود شہر بنگلور میں مولانا محمد اسحاق صاحب کے فرزند عالم بھی ہیں اور انجنیر بھی ہیں ۔ میری ملاقات ایسے بے شمار مذہبی لوگوں سے ہوی ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ یہی لوگ ملت مسلمہ کی صحی رہنمائی کر سکتے ہیں . اگر ہمارے مدارس ایسے نوجوانوں کو پیدا کر سکتے ہیں تو واقعی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور ہمیں ان پر بجا طور پر فخر ہو نا چاہیے. اس کے بر عکس میں اکثر مساجد میں ایسے اماموں کو دیکھتا ہون جو انگریزی تو انگریزی اردو اخبار بھی نہیں پڑھتے اور حالات حاضرہ سے بلکل لا علم رہتے ہیں اور اپنے خطبات میں وہی گھسی پٹی باتیں کر تے ہیں . اس لئے اکثر مسلمان جمعہ کی نماز کو آخری وقت میں آتے ہیں اور بیزاری کا اظہار کر تے ہیں . مسجد کی کمیٹیوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ہر امام اور موزن کے گھر ایک اردو اخبار ڈلوائے اور اماموں کو با شعور بنائے .
مذہبی حضرات سے گزارش ہے کہ وہ یوروپ اور امریکہ اور ہندستان میں اسلام پر لکھی ہوی نئی انگریزی کتابوں کا مطالعہ کرے اور اپنے آپ کو نئی نئی تحقیقات اور حالات حاضرہ سے آراستہ کرے اور ان معلومات کو عوام تک اپنے جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ پہنچائیں . اس سے عام مسلمانوں میں شعور پیدا ہو گا اور وہ موجودہ مسائل کو جان کر صحی راستہ اختیار کر سکیں گے .
جواب دیں