دین میں کوئی جبر نہیں اور لوجہاد کا الزام …. تجزیہ

 

تحریر:محمداورنگزیب مصباحی گڑھوا جھارکھنڈ (رکن:مجلس علمائے جھارکھنڈ)

مکرمی!

        یوں تو پوری دنیا کے مسلمان چہار جانب یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے سازشوں کے نرغے میں ہیں مگر فی الحال ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے، انہیں ستانے ، ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان پر ذہنی دباؤ ڈالنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جارہا ہے اور اس بارے میں شرپسند تنظیموں کے ساتھ مرکزی حکومت بھی برابر کا شریک ہے۔

         کئی سالوں سے ایک خطرناک الزام "لوجہاد "کا مسلمانوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مگر چند مہینوں سے "لو جہاد" کافی چرچے میں ہے اور وجہ اسے مرکزی حکومت کا جبری حقیقت گرداننا ہے اور اس سے متعلق قانون سازی کرنا ہے۔

          اسلام مخالفین کا الزام ہے کہ مسلم لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے نام مخفی رکھ کر معاشقہ کرتے ہیں اس کے بعد ان سے شادی کرتے ہیں پھر جبری مذہب تبدیل کراتے ہیں مگر حقیقت میں اگر بالغ نظری سے دیکھا جائے تو یہ دستور ہند کو تبدیل کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس کا اندازہ پہلے کئی قوانین کی ترمیم میں تبدیلی سے لگایا جا سکتا ہے مثلاً ٹرپل طلاق، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، دفعہ 370 کا ہٹایا جانا، این آر سی، سی اے بی، کسان مخالف بل وغیرہ۔ یہ ایسی ترامیم اور تبدیلیاں ہیں جو دستور ہند کے خاتمے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔اور پھر ملک بھر میں شرپسند تنظیموں کے فتنے، روز بروز بڑھتے فسادات اور چڈی گینگ کا وجود پذیر بھی انہیں سازشوں عملی جامہ ہے۔

         اصل میں دستور ہند کا حصہ یہ بھی ہے کہ ہر مذہب کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ملک میں رہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرے بشرطیکہ زور زبردستی نہ ہو۔ مگر شر پسند تنظیموں اور مرکزی حکومت کو بات ہضم نہیں ہو پا رہی کہ ہندوستانی باشندے دستور ہند کے مطابق ملک میں امن و سکون سے جی سکیں۔حالانکہ اس متعلق قانون سازی آئین ہند کا مذاق بنانا ہے جوکہ ہندوستانی باشندوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

        درحقیقت جو ہم پر الزام لگایا جارہا ہے جبراً مذہب تبدیل کرانے کا اس سے قطع نظر نام نہاد "لو جہاد" کے متعلق قانون بنانا یہ جبر اور تشدد کے مترادف ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے یا کسی اور دھرم میں جاتا ہے تو یہ قانون جو بننے کے کگار پر ہے انہیں سابقہ مذہب کے ساتھ گردانے گا جو کہ ہندوستانی آئین کو (جس میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو ہندوستان میں سکونت پذیر رہنے کا اختیار ہے) پیٹھ پیچھے ڈالنے کے مترادف ہے۔ اور اس کے باشندوں کی رو سے جبروتشدد کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

        دراصل اسلام مخالفین مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم ہی پر بس نہیں کرنا چاہتے بلکہ کہ وہ ہمیں بالکلیہ صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اس طرح کی خطرناک سازشیں رچ رہے ہیں ۔

دین میں کوئی زبردستی نہیں

لو جہاد کے ذریعے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو ملزم ٹھہرا رہے ہیں بلکہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی تاریخ کو بھی مسخ کرنا چاہتے ہیں جو کہ انھوں نے اپنے اسلامی حسن اخلاق اور کردار سے تاریخ رقم کی تھی مگر یہ اسلام مخالفین "لو جہاد" کا نام دے کر نہ صرف اسلام و مسلمین کو دھوکے باز ثابت کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی بڑھتی تعداد کا سبب بھی اسی "لوجہاد" کو گردان رہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے! ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں(البقرہ)  اس کے ساتھ ہی اسلام نے مسلم مرد و عورت سب کو غیر مسلموں سے شادی بیاہ کرنے کو سختی سے منع فرمایا، جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے مسلمان نہ ہو جائیں۔ ایک مسلمان مرد کے نکاح کے لئے عورت میں شرط یہ ہے کہ وہ محرمات ابدیہ میں سے نہ ہو، کافر و مشرک نہ ہو اور کسی شخص کے نکاح میں نہ ہو۔

       حالانکہ"لو جہاد" کے مدعیان کافر و مشرک ہیں ان سے کبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے بغیر کسی زور زبردستی کے مسلمان نہ ہو جائیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے توکوئی بھی مسلمان ملزم ہرگز نہیں، "کیونکہ دین میں کوئی زبردستی نہیں" اور جس کے ساتھ ایسا کیا جائے یعنی زبردستی مذہب تبدیل کرایا جائے اور اسے ہندو سے مسلمان یا برعکس وہ حقیقت میں مسلمان نہیں اور اس کے برعکس اور جو مسلمان نہیں تو اس سے نکاح بھی نہیں۔

        واقعی اگر اسلام مخالفین مدعیان کا حقانیت سے کچھ بھی تعلق ہوتا تو فتح مکہ کے وقت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کفار مکہ کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کر دیا اور جو بچے انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور حکومت میں مسلمان مالی تعلیمی اور معاشی اعتبار سے اس قدر ترقی کر چکے تھے کہ اگر وہ چاہتے تو پوری دنیا کو مسلمان ہونے پر مجبور کر سکتے تھے وہی کام سلطنت عثمانیہ اور دیگر سلطنتیں بھی کر سکتی تھی کیونکہ یہ سلطنتیں اس وقت کے سپر پاورز تھیں، ان کے پاس اقتدار، دولت ،طاقت اور ایمان تھے ،دنیا پر حکومت کر رہے تھے مگر تاریخ گواہ ہے کہ کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ قرآن مقدس کی مخالفت کرتے کہ "دین میں کوئی زبردستی نہیں" ۔

حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے کیونکہ وہ جو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کو گمراہ کر کے جبراً اسلام مخالف قانون سازی کے تو ہم بحیثیت مسلمان خاموش تماشائی نہیں رہیں گے۔

یا ملک کے باشندوں کے مخالف قانون لائے تو ہم بحیثیت باشندۂ ہند خاموش نہیں رہیں گے اور نہ ہی ملک میں امن و سکون رہ پائے گا کیونکہ کوئی بھی مسلمان اپنے اوپر ظلم تو برداشت کر سکتا ہے لیکن اسلام پر ایک حرف بھی آئے تو برداشت نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی آئین ہند میں جبری ترمیم و تنسیخ برداشت کر سکتا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے