اس بھیڑ کی ہوش مندی کا یہ عالم ہے کہ اس نے قیدیوں کے درمیان سے اس شخص کو ڈھونڈھ نکالا جو ناک نقشے سے بھی شمال مشرقی ہند کا ہی لگتا تھا ۔ کئی گھنٹے تک دیماپور کی وحشی بھیڑ شہر میں طوفان مچاتی رہی اور پولیس یا مرکزی دستے کہیں نظر نہیں آ ئے ۔ اس بھیڑ نے ایک ایسے شخص کو جو آسام کے کریم گنج ضلع کے بسولا گاؤں کا ایک قوم پرست ،بنگلہ بولنے والے مسلمان خاندان کا چشم وچراغ تھا ، محض اس بنیاد پر ہر طرح سے ذلیل کر کے مار ڈالا اور پھر اس کی لاش کی بھی بے حرمتی کی جس پر آبرو ریزی کا الزام اس کی بیوی کی ایک رشتہ دار عورت نے لگایا تھا اور ریپ کسی بھی طرح میڈیکل رپورٹ میں ظاہر نہیں ہو سکا تھا ۔ نا کردہ گناہی کی ایسی سزا ہجوم کو دینے کی کھلی چھوٹ صرف یہ بتا تی ہے کہ ناگا لینڈ کے دیماپور میں اندرونی سلامتی کے نام پر جتنے بھی انتظامات کئے گئے ہیں وہ محض آرائشی ، نمائشی اور فضول خرچی ہیں ۔ مرکزی حکومت کو اس پر پھر ایک بار سوچنا چاہئے کہ اگر دیماپور میں چار ہزار لوگ جیل توڑ کر کسی قیدی کو باہر لے جا سکتے ہیں اسے سبھوں کے آنکھ کے سامنے ننگا کر کے بیچ سڑک پر دوڑا سکتے ہیں ، اسے جانوروں سے بھی زیادہ بد تر طریقے سے پیٹ کر ہلاک کر سکتے ہیں اور لاش کی اس طرح بے حرمتی کر سکتے ہیں جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی تو وہاں لا اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیزنہیں ہے ۔ صرف اس واردات پر نا گا لینڈ کی سرکار کو فوری طور پر بر طرف کر کے اس پوری ریاست کو فوج کے حوالے کر دینے کے سو ا اور کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ سرکشی اور شورش پسندی ناگالینڈ میں انسانی جان کو کتے بلی سے بھی زیادہ خوار کرنے پر تلی ہے ۔
دیماپور سینٹرل جیل کے تمام عہدے داروں ، اس کی حفاظت پر تعینیات تمام سلامتی اہلکاروں اور تمام قیدیوں کے ساتھ ان سارے چار ہزار لوگوں پر قتل کا مقدمہ چلنا چا ہئے جنہوں نے محض شبہ کی بنیاد پر گرفتار کئے گئے موٹر پارٹس کی دکان کے مالک ایک بنگالی آسامی مسلمان کو محض یہ کہہ کر مارڈالا کہ وہ آبرو ریزی کا مجرم ہے ۔ ماحول بنانے کے لئے 24فروری سے 5مارچ تک جن لوگوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ وہ بنگلہ دیشی درانداز ہے اور دیما پور میں عورتوں کی آبرو لوٹ رہا ہے وہ بھی اس قتل کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ دوسرے ۔
یہ بات ہمارے ذہن سے محو ہو رہی ہے کہ مودی سرکار کے برسر اقتدار آ نے کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ایک بھیانک تباہی خیز مہم چل پڑی ہے جس کی شدت اور سنگینی ہندی ہارٹ لینڈ میں اس لئے محسوس ہو گئی کہ میڈیا نے بعض وارداتوں کو اچھالا لیکن نفرت کا یہی کاربار یوپی ، بہار ،مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور دہلی جیسے ہندی بولنے والے علاقوں سے باہر بھی شدت سے جا ری رہا اور ہم لوگ اس کی سنگینی کی طرف سے غافل رہے ۔ دیما پور کے سینٹرل جیل کے قیدی فرید الدین خان کا قصور اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ مسلمان تھا ۔ مسلمان ہو نے کے ساتھ وہ ناگا لینڈ کے کسی آدی واسی گروپ کی بجائے آسام سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی زبان بنگلہ تھی ۔ جیسا کہ فریدالدین خان کے بھائی ہندوستانی آرمی کے ایک افسر جمال الدین خان کا کہنا ہے کہ اس سے مقامی ناگا انتہا پسند جبری وصولی کرنا چاہتے تھے اور خود جس عورت نے آبروریزی کا الزام لگا یا ہے وہ فریدالدین خان سے دو لاکھ روپئے کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ وہ اگر خاموشی سے دو لاکھ روپئے اگل دیتا تو کسی طرح کا فساد نہیں تھا ۔ فساد صرف اس لئے پیدا ہوا کہ اس کا مسلمان ، آسامی ، بنگلہ گو ، تجارت پیشہ نوجوان ہونا مقامی آبادی کو نہیں بھا یا ۔ نا گا لینڈ میں آسام کے بنگالیوں کے خلاف نفرت کا کاربار بہت پرانا ہے ۔ جبری وصولی کا سلسلہ بھی ہے ۔ بنگلہ دیشی درانداز کہہ کر کسی کو بھی نشانے پر لینا آسان ہے لیکن نشانہ بنا کر بے آبرو کر نا اور انتہائی بے دردی سے ما رکر کلاک ٹاور سے لٹکا دینا بھی آسان نظر آ تا ہے کیونکہ دیماپور میں امن اور قانون بر قرار رکھنے کی کوئی مشینری نہیں ہے ۔ وہاں مقامی ناگا شورش پسندوں کا راج چل رہا ہے اور اس واقعے کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ ناگا لینڈ میں آئین اور قانون کے تمام ادارے ناکام ہو چکے ہیں ۔ ناگا لینڈ کو فوج کے حوالے کر نے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔
اگر آسام کی ترون گوگوئی حکومت نے مداخلت نہیں کی ہو تی تو فرید الدین خان کی لاش کا ملنا بھی مشکل تھا ۔ یہ تو گو گوئی سرکار کا فرید الدین خان کی فیملی پر احسان ہے کہ اس نے مداخلت کی اور فوجی ہیلی کاپٹر کے ذیعہ فریدالدین کی لاش دیماپور سے آسام لانے کا اہتمام کیا اور پورے احتشام کے ساتھ بسولا گاؤں میں اس کی تدفین عمل میں آ ئی ۔ ہجوم نے سزا دے دی لیکن جرم ابھی بھی ثابت نہیں ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ الزام بھی سوالات کے گھیرے میں ہے ۔ جہاں قانون اتنا کمزور ہو جا ئے وہاں آئین کو اپنی ذمہ داری اٹھا نی چاہئے ۔
جواب دیں