یہاں تک کہ 16دسمبر 2012کو دہلی میں نربھیے گینگ ریپ کے ہولناک کیس کے مجرم بھی عوامی عتاب سے محفوظ ہیں ۔ ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے روہتک میں نربھیے کی طرح کا ہی ایک ہو لناک اجتماعی آبرو ریزی کا کیس ہوا جس کی بر بریت نربھیے گینگ ریپ سے بھی زیادہ سنگین تھی لیکن مجرم پکڑے گئے اور قانون کی حراست میں محفوظ ہیں ۔
فرید الدین خان آبر و ریزی کیس میں نہیں مارا گیا ۔اس کا قتل اجتماعی نفرت کے اظہار کی عکاسی کرتا ہے فرید الدین خان آسام میں ضلع کریم گنج کے بسولا گاؤں میں آباد ایک قوم پرست عزت دار ہندوستانی مسلمان گھرانے کا فرد تھا ۔ اس کا باپ ایئر فورس میں ملازم تھا ۔ اس کے دو بھا ئی انڈین آرمی میں ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اور بھائی تھا جو ہندوستانی فوج میں تھا اور گرگل کی جنگ میں اس نے وطن عزیز پر اپنی جان قربان کر دی اس گھرانے کے فرد کو بنگلہ دیشی درانداز کہہ کر ایسے بھیانک نفرت کے اظہار کا نشانہ بنانا ایک بڑی سوچی سمجھی اور ہوشیاری سے تیار کی گئی سازش کا حصہ ہے ۔ بعض رپورٹوں میں یہ بتا یا گیا ہے کہ فرید خان کے خلاف عوامی غم و غصہ ابھارنے میں جو افراد اور تنظیمیں مصروف تھیں ان میں سے کچھ کا تعلق دہلی ،مہاراشٹر اور ہریانہ سے بھی ہے ۔ یہ اطلاع بہت محدود پیمانے پر آ ئی ہے لیکن اگر شمالی ہند کے لوگ فر ید الدین خان کے خلاف فضا بندی میں شامل تھے تو ظاہری طور پر یہ ہندوتو تنظیموں کا کارنا مہ رہا ہوگا ۔ فرید الدین خان دیماپور میں موٹر پارٹس کی دکان چلاتا تھا ۔ اس نے ایک ناگا عورت سے شادی کر رکھی تھی ۔ اس ناگا عورت کی رشتہ دار ایک عورت یا لڑکی کے ساتھ فرید الدین خان کے نا جائز جسمانی تعلقات بن گئے تھے جس میں لڑکی کی رضا مندی شامل تھی ۔ بیچ میں کچھ پیسوں کا لین دین آیا اور جیسا کہ فرید الدین خان نے دیماپور پولیس کو اپنے تحریری بیان میں بتا یا ہے کہ اس عورت نے اس سے دو لاکھ روپئے مانگے تھے ۔ چونکہ اس نے پیسے دینے سے انکار کیا اس لئے وہ آ بروریزی کا الزام لے کر تھانے پہنچ گئی ۔ اگر یہ رضا اور رغبت سے خود سپردگی کا معاملہ تھا تو آبروریزی کا مقدمہ نہیں بنتا ہے لیکن چونکہ پورے ناگا لینڈ میں غیر آدی واسی باشندوں کو چاہے وہ جس ریاست سے بھی آ ئے ہوں ، غیر قانونی طور پر در اندازی کر کے آ نے والا بنگلہ دیشی کہا جا تا ہے اور ان سے یہ کہہ کر نفرت کا مظاہرہ کیا جا تا ہے کہ وہ ناگا لینڈ کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں ۔ اپنے ہی ملک میں دوسری ریاست سے آ کر بس جا نے والے غیر ناگا باشندوں پر زمین تنگ کر نے والے مقامی لوگ ان سے جبری وصولی بھی کر تے ہیں اور ان پر یہ الزام بھی لگا تے ہیں کہ وہ ان کے زر ،زمین اور زن کو ہڑپ کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب کو ئی شخص کسی جگہ کاروبار کرتا ہے تو وہ اس علاقے کی خدمت بھی کرتا ہے ، وہاں کمایا ہوا پیسہ اسی سماج کو واپس بھی دیتا ہے ، فرید الدین خان نے ایک ناگا عورت سے با ضابطہ شادی کی تھی گویا اس نے ناگا لینڈ میں رہنے کا پورا خراج ادا کیا ہے اور اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے اس کی زندگی میں آ ئی تھی تو یہ زیادہ سے زیادہ اخلاقی جرم یا بد چلنی کے خانے میں جا تا ہے اس سے قانونی گرفت کا جواز نہیں بنتا لیکن چونکہ مہاراشٹر ،دہلی اور ہریانہ سے مسلم دشمن یا اسلام دشمن عناصر بھی دیما پور کی صورت حال کا فائدہ اٹھا نے پہنچ گئے تھے اس لئے انہوں نے اس بظاہر ہر دن ہر جگہ رونما ہو نے والی واردات کو ایک بہت بڑا جرم بنا کر ہجوم سے اس کی بہت بڑی سزا دلانے کا اہتمام کر دیا ۔
4مارچ سے فضا کشیدہ ہو گئی تھی ۔ ضلعی انتظامیہ ،مقامی پولیس ، ریاستی حکومت اور وزارت داخلہ کیا کر رہی تھیں ؟ناگالینڈ کی حکومت نے مرکزی وزیر داخلہ کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں فرید الدین خان پر آبرو ریزی کا الزام نہیں بلکہ یہ اطلاع ہے کہ نا معلوم ناگا عورت اپنی رضا مندی سے فرید الدین خان کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا ئے ہو ئے تھی پھر کیا سبب ہے کہ ایک سماجی ہیجان کو روکنے کے لئے انتظامی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ اس وقت جو گرفتا ریاں عمل میں آ رہی ہیں ان سے ملزم فرید کے کیس کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟کیا ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کو یہ نہیں لگتا کہ ناگا لینڈ کے اندر دوسری ریاستوں کے غیر ناگا باشندوں ، کارکنوں،تاجروں ، طلباء اور دیگر شعبہ جات زندگی کے لوگوں کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس تدبیر کی جا ئے ۔ کیا ناگاؤں کی غیر ناگا دشمنی کا توڑ کر نے کی کوئی انتظامی صورت نہیں ہے ؟
ایسا لگتا ہے کہ پورا شمال مشرق یا تو شورش پسندی کے بل پر چل رہا ہے یا بنگلہ دیشی در اندازوں کے خلاف بنی ہو ئی ذہنیت کے بل پر بنگلہ بولنے والے مسلمانوں پر زمین تنگ کر رہے ہیں ۔ فرید الدین خان اس لئے مار ا گیا کہ وہ مسلمان تھا ۔ مقامی ناگا سماج میں جسمانی تعلقات کا موجودہ چلن اتنا سخت نہیں ہے کہ بغیر شادی کے کسی کے ساتھ تعلق رکھنے کی سزا سزائے موت ہو ۔ ایسا ہندوستا ن میں کہیں نہیں ہوا لیکن اب ہندوستان میں ایسا ہر اس جگہ ہوگا جہاں مسلمان ایسے کسی معاملے میں پھنسے گا یا پھنسایا جا ئے گا کیونکہ سماج میں سوچنے کا ڈھنگ بدلنے کیلئے حیدرآباد ، ہریانہ اور دہلی میں سر گرم ہندو تو عناصر یہ جا ن گئے ہیں کہ وہ صرف شمال میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بہت دور افتادہ شمال مشرقی ہند کی زیادہ لبرل ناگا سو سائٹی میں بھی انسانوں کو ناموس کے نام پر ورغلا کر قتل کر نے کے لئے تیار کر سکتے ہیں ۔
یہ خطرناک صورت حال ہے ۔ ا س کا سدّ باب ضروری ہے ۔ عزت کی زندگی گزارنے کیلئے احتیاط ہمیشہ ضروری تھی ، اب زیادہ ضروری لگ رہی ہے ۔ فرید الدین خان کا قتل مزید سنجیدگی سے اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ ہندوستانی مسلم قیادت کو بیان بازی سے بہت آ گے بڑھ کر بہت سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا ہوگا کہ عام زندگی میں مسلمانوں کی روزی روٹی ، ان کی عزت اور ان کی جان کو لا حق اس نئے خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جا ئے ؟
جواب دیں