دائمی نابیناپن کا علاج جین تھراپی سے ممکن

چھ افراد نے رضاکارانہ بنیادوں پر اِس جینیاتی تحقیق کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ اِن چھ مریضوں میں سے دو کی بصارت سے محروم آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت بیدار ہونے پر محققین نے خاصی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ سرِ دست یہ بینائی کی واپسی بہت بڑی مقدار میں نہیں ہے۔
ریسرچ کے عمل سے گزرنے والے تمام افراد نے کسی قسم کے سائید ایفیکٹ کو محسوس نہ کرنے کا بھی بتایا۔ اس کو بھی معالجین نے مثبت انداز میں لیا ہے۔ ابتدائی ریسرچ میں سائیڈ ایفیکٹ کے پہلو پر خاص طور پر فوکس کیا گیا تھا اور ریسرچرز کے مطابق علاج کے اثرات اصل میں ریسرچ کا ثانوی حصہ ہے۔ بصارت نہ ہونے یا ختم ہو جانے کی مناسبت سے یہ معلوم کیا جا چکا ہے کہ انسانی جسم میں ایک مخصوص جین کی عدم موجودگی اس کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔
جن لوگوں پر جین تھراپی کے ٹیسٹ کیے گئے، یہ وہ لوگ ہیں جن کو بصارت سے محرومی ورثے میں ملی تھی۔ اِس بیماری کو کوروئی ڈرمیا (choroidermia) کہا جاتا ہے اور اب تک یہ لاعلاج تصور کی جاتی ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو مریض رفتہ رفتہ اپنی بینائی کو ختم ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے اور ایک دن وہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو جاتا ہے۔ اب امکان پیدا ہوا ہے کہ جین تھراپی سے کوروئی ڈرمیا کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ بنیادی طور پر انسانی بدن میں اگر پروٹین کی انتہائی زیادہ کمی واقع ہو جائے تو اِس سے بھی یہ بیماری جنم لے سکتی ہے کیونکہ پروٹین کی شدید کمی انسانی آنکھ کے خلیوں کو مردہ کر دیتی ہے۔
بصارت حاصل کرنے کی اِس تحقیق کا عمل مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جاری ہے اور محققین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر رابرٹ میک لارن ہیں۔ ڈاکٹر میک لارن کا کہنا ہے کہ وہ جین تھراپی کی ریسرچ میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے انسانی آنکھ کے مردہ ہو جانے والے خلیوں کو دوبارہ زندہ یا متحرک کیا جائے۔ اِس تحقیق میں نابینا شخص کے بدن میں ٹیکے کے ذریعے ایک ایسا وائرس ڈالا جاتا ہے جو اس پروٹین کا حامل ہوتا ہے، جِس کی عدم موجودگی میں آنکھ کے سیلز یا خلیے مر جاتے ہیں۔ ریسرچرز کے مطابق پروٹین والا وائرس پوری طرح بیضرر ہے۔
کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایان میکڈونلڈ ایسی ہی ریسرچ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر میکڈونلڈ نے اکسفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ کے نتائج کو انتہائی حوصلہ بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت ہی اچھوتے انداز میں پروٹین کو انسانی بدن میں ڈالنے کا سوچا گیا ہے۔ ڈاکٹر میکڈونلڈ کے مطابق ابھی تک یہ جین تھراپی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کے اثرات میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا بصارت کا پیدا ہونا دائمی ہے۔ امریکا کی پینسلوینیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر جین بینیٹ بھی بصارت حاصل کرنے پر ریسرچ میں مصروف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نئی ریسرچ بہت ہی دلچسپ ہے اور انہیں یقین ہے کہ یہ بصارت سے محرومی کے دوسرے امراض کے لیے بھی مفید ہو سکے گی۔

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے