اس پر اپوزیشن پارٹیون کی طرف سے سرکار کو گھیرنے کی کوشش بھی ہوئی کیونکہ اسے سرکار کا یو ٹرن مانا گیا۔ بی جے پی نے اپنے الیکشن مینی فسٹو میں کہا تھا کہ داؤد ابراہیم کو بھارت لایا جائے گا اور اسے کئے کی سزا دی جائے گی۔ادھر این ڈی اے میں
شامل شیوسینا کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکہ نے پاکستان کے اندر داخل ہوکر اسامہ بن لادن کو قتل کیا تھا اسی طرح مودی سرکار کو چاہئے کہ پاکستان کے اندر داخل ہوکر داؤد کو مارڈالے۔ حالانکہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس پر شیو سینا کچھ سوچنے کا تیار نہیں ہے۔ مرکزی سرکار کی طرف سے اس سلسلے میں الگ الگ باتیں کہے جانے کے سبب بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کا موقف کمزور ہوا ہے۔ کہاں تک بھارت اقوام متحدہ سے یہ کہہ رہا تھا کہ داؤد ابراہیم پاکستان میں ہے اوراب کہہ رہا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں وہ کہاں ہے۔اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آئی ہے کہ داؤدابراہیم ۱۹۹۴ء میں خودسپردگی کرنا چاہتا تھا مگر بعض مخصوص حالات کے تحت یہ ممکن نہیں ہوپایا۔حالانکہ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر داؤد ابراہیم کا بھارت لانا ممکن ہوا تو کیا بھارت کے سیاسی لیڈران ، فلمی صنعت سے وابستہ افراد اور صنعت کار اسے یہاں آنے دیں گے؟ اگر وہ آگیا تو کیا سب کی پول نہیں کھول دے گا جن کے تار بہت گہرائی سے داؤد سے جڑے رہے ہیں اور سبھوں نے کہیں نہ کہیں اس کا استعمال کیاہے۔
وہائٹ ہاؤس میں داؤد
داؤد ابراہیم کے بارے میں آج بھرم پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے مگر ایک حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں داؤد کا گھر ’’وہائٹ ہاؤس‘‘کے نام سے مشہور ہے اور جس طرح دلی میں آٹواور ٹیکسی والے راشٹر پتی بھون دکھاتے ہیں اسی طرح کراچی میں داؤد ابراہیم کا گھر دکھایا جاتا ہے۔ حالانکہ جس سڑک پر داؤد رہتا ہے وہ عام لوگوں کے لئے بند کردی گئی ہے اور اسے سخت سیکورٹی زون میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ادھر سے گزرنے والے آٹو والے دور سے سیاحوں کو بتاتے ہیں کہ یہ وہائٹ ہاؤس ہے جہاں داؤد ابراہیم رہتا ہے۔
مودی سرکار کا بدلتا موقف
داؤد ابراہیم پر مودی سرکار کا موقف کئی بار تبدیل ہوچکا ہے اور اب ایک بار پھر وہ کہہ رہی ہے کہ وہ پاکستان میں ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رججو نے کہا کہ، حکومت مانتی ہے کہ وہ پاکستان میں ہی ہے۔ اس سے پہلے ایک دوسرے وزیرمملکت نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ حکومت کو نہیں پتہ کہ داؤد کہاں پر ہے۔رججو نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ، حکومت ہند داؤد کے بارے میں معلومات پاکستان سے اشتراک کر رہی ہے البتہ پاکستانی ایجنسیاں ہندوستان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے لہذا اگر ضروری ہو گا تو حکومت صفائی دے گی۔ میرا کا کہنا ہے کہ حکومت کی منشا پر سوال نہ اٹھائیں۔ حکومت کا رویہ بالکل صاف ہے اور اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔ اس سے پہلے حکومت کے بیان پر پارلیمنٹ میں کافی ہنگامہ ہوا تھا اور اپوزیشن نے حکومت کو اس کا پرانا وعدہ یاد دلاتے ہوئے سوال اٹھائے تھے۔وہیں خفیہ ایجنسیوں کے مطابق داؤد ابراہیم کے تینوں پاسپورٹ کی تفصیلات اور تین پتوں کی معلومات پاکستان سے اشتراک کی جا چکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ موسٹ وانٹیڈ داؤد ابراہیم کے چکر میں مرکزی حکومت خود ہی گول گول گھوم رہی ہے۔ادھر ایک ویب سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ممبئی سیریل بلاسٹ کا ملزم اور انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم پاکستان میں ہی چھپا بیٹھا ہے اور وہیں سے اپنا سیاہ کاروبار چلا رہا ہے۔ داؤد پاکستان کے کراچی میں شاہی ٹھاٹھ کے ساتھ رہ رہا ہے اور پاکستان اور دبئی میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں پیسہ لگا رہا ہے۔اس سائٹ کے مطابق، اس نے چند ماہ قبل داؤد ابراہیم کی موبائل پر ہوئی بات چیت کا ٹیپ
ریکارڈ کیا تھا۔
وزیرداخلہ کا بیان
پاکستان مسلسل یہ دعوی کرتا رہا ہے کہ داؤد ابراہیم اس کے یہاں موجود نہیں ہے۔ گزشتہ ہی ماہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ پڑوسی ملک داؤد ابراہیم کو پناہ دے رہا ہے اور یہ انڈر ورلڈ ڈان پاک افغان سرحد پر رہ رہا ہے۔ بھارت زور دے کر کہہ چکا ہے کہ پاکستان کو انتہائی مطلوب ڈان بھارت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ 1993 کے ممبئی سیریل بلاسٹ اور دوسرے کئی معاملات میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کو داؤد ابراہیم کی تلاش ہے۔ملک میں دہشت گردی کو اسپانسر کرنے کے لئے پاکستان کو مجرم ٹھہراتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ پڑوسی ملک داؤد ابراہیم کو پناہ دے رہا ہے اور یہ انڈر ورلڈ ڈان پاک۔ افغان سرحد پر رہ رہا ہے۔داؤد ابراہیم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں رہ رہا ہے اور بھارت کے اصرار کے باوجود پاکستان ہمیں سونپ نہیں رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم ہندوستان آئے تھے تو ہمارے وزیر اعظم نے ان سے داؤد کو سونپنے کو کہاتھا۔
داؤد ابراہیم خودسپردگی کرنا چاہتا تھا؟
ان دنوں میڈیا میں یہ خبر گرم ہے کہ ممبئی میں 1993 میں ہوئے سیریل بم دھماکوں کا اہم ملزم اور انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم واقعہ کے 15 ماہ بعد پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنا چاہتا تھا اور اسی سلسلے میں اس نے اس وقت کے سی بی آئی کے ڈی آئی جی نیرج کمار سے تین بار بات بھی کی تھی۔ اگرچہ کسی وجوہات کی بنا پر مرکزی جانچ ایجنسی نے داؤد کی اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیاتھا۔سی بی آئی کے اس وقت کے ڈی آئی جی نیرج کمار نے اپنی کتاب کے سلسلے میں ایک انگریزی اخبار سے بات چیت کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ ممبئی میں دھماکے کے تقریبا 15 ماہ کے بعد داؤد نے ان سے تین مرتبہ فون پر بات کی تھی۔آگے نیرج کمار نے کہا کہ دھماکے کے بعد داؤد ہتھیار ڈالنا چاہتا تھا، لیکن اسے دشمنوں کا ڈر تھا۔ داؤد کو اس بات کا ڈر تھا کہ اگر وہ بھارت آیا تو اس کے دشمن گینگ اسے ختم کر دیں گے۔غور طلب ہے کہ جولائی 2013 میں دہلی پولیس کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے کمار ممبئی بم بلاسٹ میں 12 مارچ 1993 سے 2002 تک سی بی آئی جانچ کی قیادت کر رہے تھے۔ممبئی میں ایک کے بعد ایک سلسلہ وار دھماکوں میں 257 لوگوں کی جان گئی تھی اور 700 افراد زخمی ہوئے تھے۔اطلاعات کے مطابق سی بی آئی کے ڈی آئی جی نیرج کمار اور انڈر ورلڈ سرغنہ داؤد ابراہیم کے درمیان رابطہ منیش لالہ نے کرایا تھاجس نے داؤد کے لئے قانونی حکمت عملی تیار کی تھی۔ کمار نے بتایا کہ لالہ کے پاس کوئی قانونی ڈگری نہیں تھی،مگر اس کے پاس قانون کی سمجھ غضب کی تھی۔انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ لالہ سے ان کی ملاقات ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں ہوئی تھی۔ تب لالہ نے داؤد کی خودسپردگی کی خواہش کا انکشاف کیا تھا۔اس نے کہا تھاکہ داؤد ممبئی کے سیریل دھماکوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے اس انکشاف سے میں چونک گیا تھا کیونکہ پولیس کے پاس داؤد کے خلاف کافی ثبوت موجود تھے۔ ممبئی پولیس کے بعد سی بی آئی کو اس معاملے کی تحقیقات سونپی گئی تھی۔نیرج کمار نے بتایا کہ یہ باتیں منیش لالہ نے مجھے اس لئے بتائی تھیں کیونکہ وہ پہلی ہی ملاقات میں میرے مہذب رویے کا قائل ہو گیا تھا۔ جب وہ مجھ سے ملا تو میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ تب لالہ نے مجھ سے کہا کہ
پہلی بار کسی پولیس افسر نے اسے کرسی پر بیٹھنے کو کہا ہے۔تاہم، بات آگے نہیں بڑھ سکی اور 4 جون 1998 کو داؤد کے دشمن چھوٹا راجن کے گرگو ں نے اسے قتل کر دیا۔غورطلب ہے کہ اسی سے ملتا جلتا دعویٰ معروف قانون داں رام جیٹھ ملانی کی طرف سے بھی سامنے آیا ہے۔
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
نیرج کمار کے دعوے میں کتنی سچائی ہے؟ یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ داؤدابراہیم اگر کبھی بھارت آیا یا کسی جانچ ایجنسی کے ہاتھ لگا تو بہت سے سفیدپوشوں کی پول کھل جائے گی۔ملک کے بڑے بڑے نیتاؤں سے اس کے تعلقات رہے ہیں اور مہاراشٹر کے کئی سیاست دانوں کو وہ نہ صرف فنڈنگ کرتا تھا بلکہ باقاعدہ ان کے لئے انتخابی مہم بھی چلاتا تھا۔ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے ان میں سے کچھ نیتاؤں نے اس کاا ستعمال بھی کیا تھا۔ اسی طرح فلم انڈسٹری اورسٹہ بازار میں بھی داؤد کا پیسہ چلتا رہا ہے نیز ریئیل اسٹیٹ کے دھندے میں بھی اس خوب پیسے کمائے ہیں۔ ملک کے معروف صنعت کاروں سے داؤد کے تعلقات رہے ہیں اور اگر کسی سے اس نے سپاری لی ہے تو کسی کے بزنس میں پیسہ لگایا ہے۔ ایسے میں کوئی نہیں چاہتا کہ داؤد واپس بھارت آئے یا کسی جانچ ایجنسی کی گرفت میں آئے۔ظاہر ہے اگر نیرج کمار کا دعویٰ درست ہے کہ وہ خودسپردگی کرنا چاہتا تھا تو بھی اس ملک کے اہل اقتدار اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ (
جواب دیں