دعوتِ اسلام: دنیوی امن اور اخروی فلاح کی ضامن

عبد السلام پتیگے

ہر مسلمان نوعِ انسانی کا ایک فرد ہے ہے اور اس اعتبار سے وہ اس انسانی معاشرے کے ہر فرد کے لیے اپنے دل میں محبت، ہمدردی اور صلہ رحمی کا جذبہ رکھتا ہے۔ وہ بلا تفریق ذات، مذہب، نسل، رنگ، زبان وقومیت سارے انسانوں کا بہی خواہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ انہیں وہ راہ بھی بتائیے جو انہیں دائمی نجات کی طرف لے جانے والی اور عذاب دائمی سے بچانے والی ہے۔
اس عوامی عقیدے کے برخلاف جو بہت سے معاشروں میں پایا جاتا ہے کہ ہر مذہب جنت کی طرف لے جانے والا ہے، ایک مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور اسی پر چلنے سے جنت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو اللہ نے خود انسانوں کو دکھایا ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان سب گمراہ لوگوں پر، جو یہ سمجھتے ہیں کہ سبھی ٹیڑھے میڑھے راستے جنت کی طرف لے جاتے ہیں، اصل حقیقت کو بیان کرے۔
اللہ، جس نے یہ راستہ دکھایا ہے، وہ کسی ایک گروہ، فرقے یا قوم کا مالک نہیں ہے، بلکہ وہ ساری انسانیت کا مالک ہے۔ اس لئے مسلمان اپنے دین اور اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام پر اجارہ داری کا دعوی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ پیغام اللہ نے ساری نوع انسانی کی فلاح کے لئے بھیجا ہے۔
اسلام اپنی فطرت کے لحاظ سے آفاقی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور سارے انسانوں کا خالق اور رب یعنی پالنہار ہے۔ چونکہ قرا?ن مجید اللہ تعالی کے نازل کردہ ا?خری کتاب ہدایت ہے اور اسے ربِ کائنات نے نازل کیا ہے، اس لیے قدرتی طور پر اس کا پیغام آفاقی ہے۔ یہ کتاب ساری انسانیت سے خطاب کرتی ہے اس لیے وہ ساری انسانیت سے سروکار رکھتی ہے۔ ہدایت کے لیے بھیجے گئے آخری پیغمبر ایک ایسے پیغام کے ساتھ اور ایسے مشن کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے تھے جو سراسر آفاقی ہے۔ یہ پیغام یہ مشن ہرگز کسی مخصوص قوم یا فرقے یا کسی مخصوص وقت کے لیے نہیں تھا۔
ان خصوصیات سے قطع نظر، اگر ملت اسلامیہ کے مزاج پر غور کیا جائے تو اس میں بھی اس  امت اور گروہ انسانی کے بنیادی خصوصیت ا?فاقیت ہی نظر ا?ئے گی۔ امت مسلمہ مختلف نسلی گروہوں، مختلف زبانیں بولنے والوں اور تہذیب و تمدن اور قومیت کے حامل گروہوں پر مشتمل ہے۔ ان کا مشترکہ عقیدہ توحید یا خدائے واحد اور اس کے ا?خری پیغام پر ایمان ہی ہے جو ان سب مختلف عناصر کو یکجا کرتا اور ایک واضح تشخص عطا کرتا ہے جسے اسلام کا آجاتا ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوں، اور وہ اپنی صفوں میں ان تمام لوگوں کو جو اس میں داخل ہونا چاہتے ہو، داخلہ کی اجازت ہی نہ دے بلکہ خوش ا?مدید کہے۔ کوئی شخص اسلام کے سرتاپا رحمت وشفقت اصولوں کو قبول کر کے ان سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا اعلان کرتا ہے اسے ا?فاقی اسلامی ملت کا رکن بننے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں پر اپنے دروازے بند کر دینے کا کوئی حق نھیں ہے بلکہ اس کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ نوع انسانی کے سامنے پیغامِ حق کی شہادت پیش کرے۔ اپنے قول و عمل سے اسلام کا پیغام سارے انسانوں تک پہنچائے۔ دراصل اسلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے کام کو قرا?ن میں امت مسلمہ کی بنیادی خصوصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ایک ایسا بھی وقت تھا جب مکہ میں بمشکل درجن بھر مسلمان ہونگے۔ کسی اور جگہ مسلمانوں کا وجود تک نہ تھا۔ مکہ معظمہ میں مٹھی بھر مسلمانوں کو ذلیل کیا جاتا اور طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے۔ دشمنان اسلام بڑے وثوق سے پیشن گوئی کرتے کہ اسلامی تحریک جلد ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ لیکن ا?ج چودہ سو سال گزرنے کے بعد دنیا میں ایک ارب سے بھی زیادہ مسلمان پائے جاتے ہیں۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کا اتنی بڑی تعداد میں پایا جانا دورِ قدیم کے ان مسلمانوں کی بدولت ہے جنہوں نے اسلام کی صداقت کو دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ خلوص ومحبت، سخت محنت اور اعلی درجے کے اخلاق و کردار اور ان تھک کوششوں کی بدولت دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والوں سے اسلام کے تعارف اور تبلیغ کو ممکن بنا سکے۔ اسلام کی فطری قوت اور کشش سے قطع نظر، جو لوگوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں جوک در جوک قبول اسلام پر آمادہ کرتی ہے، ہر دور کے اسلامی مبلغین کا بھی اس صورتحال کے پیدا کرنے میں بڑا دخل ہے۔
ہم میں سے بیشتر افراد ا?ج صرف اس لئے مسلمان ہے کہ ہمارے آباو اجداد میں سے کسی نہ کسی تک اسلام کی تعلیم پہنچائی گئی تھی۔ اگر ہمارے اس بزرگ کو اسلام کی دولت ہاتھ نہ آئی ہوتی تو یقینی بات ہے کہ اس کا خاتمہ اسلام پر ہوتا اس صورتحال میں ہم بھی غیر مسلم ہی رہ گئے ہوتے۔ یہ حقیقت ہمیں اپنے اس فرض کی یاددہانی کراتی ہے کہ ہم ان سعید ہستیوں کے عظیم ورثے کو ا?گے بڑھائیں جنہوں نے خدائی پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے میں ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کیں اور ہمارے ا?باو? اجداد کو اسلام سے روشناس کرایا۔
دعوت یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف بلانے کی پشت پر اصل مقصد رضائے الہی کا حصول ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی کا جذبہ اور مقصد نہ صرف دعوت اسلامی پیش کرتے وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، بلکہ ایک سچے مومن کے ہر شعوری عمل میں اسی جذبے کا کارفرما ہونا ضروری ہے۔
اسلام اس دور میں سب سے زیادہ غلط فہمیوں کا شکار دین ہے اور مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ غلط فہمیوں کی شکار قوم ہے۔ غلط معلومات کی اشاعت اور غلط بیانیوں کے ذریعے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دین اسلام اور اس کے پیروں کے خلاف الزام تراشی کی جاتی رہی ہے۔ اگر ہمارے پاس سچائی کو پیش کرنے کا کوئی موثر لائحہ عمل نہ ہو، اگر ہم دین کی صحیح شبیہ پیش کرنے سے قاصر ہوں، اگر ہم درست معلومات فراہم نہ کرسکے اور معاندانہ پروپگنڈے کا سدباب کرنے سے حاصل ہو تو ایسی صورت میں جھوٹی باتوں کا لوگوں میں عام طور پر پھیل جانا بالکل فطری ہوگا۔ اس صورتحال میں لوگ فنکاری سے پیش کئے ہوئے جھوٹ کو سچ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔
اگر یہ اذیت ناک صورتحال بھی مسلمان قوم کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہے تو پھر کون سی قوت انہیں جگائے گی؟ یہ صورتحال واضح طور پر مسلمانوں پر یہ لازم قرار دیتی ہے کہ وہ پوری قوت لگا کر ایک فیصلہ کن جدوجہد کے ساتھ حق کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور باطل کے پروپیگنڈے کا دوٹوک جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اب ان کے لیے صرف ایک ہی راہ کھلی ہے کہ وہ اسلام کو پھیلانے اور اسے ہر دلعزیز بنانے کے لیے سخت محنت کریں اور لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کی مسخ شدہ تصویر کو پونچھنے کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ حقیقی تصویر پیش کریں۔
دنیا کے بہت سے ملکوں میں مسلمان اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ کئی ملکوں میں وہ مذہبی اقلیتیوں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کا ہمیشہ خوشگوار رہنا مشکل ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں فسادات پھوٹ پڑنے کے تجربات لوگوں کو بار بار ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں بیشتر مواقع پر اس کے نتائج مسلمانوں کو ہی عزت و ناموس اور جان و مال کے نقصانات کی شکل میں بھگتنے پڑتے ہیں۔ایسے معاشروں میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے ساتھ رہنے بسنے والوں کے سامنے حق و صداقت کو پیش کرنے کی طرف فوری توجہ دیں۔
ایسا کرنے پر وہ لوگوں کو آپسی شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں سے باہر نکال کر، اور ساتھ مل کر پْرامن اور ہم آہنگ زندگی گزارنے کی طرف راغب کرکے اپنے معاشرے کی عظیم الشان خدمت انجام دیں گے۔ ساتھ ہی وہ خود اپنے لیے عدم تحفظ اور عدم اعتماد کے پرتناؤ ماحول سے نجات کا راستہ نکالنے میں مدد حاصل کریں گے۔
آج دنیا بھر میں انسانی معاشرے میں کی قسم کئی برائیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلاً غربت و افلاس، جہالت، مزدوری اطفال، اخلاقی زوال، عصمت فروشی و زنابالجبر، بچوں کا جنسی استحصال، مضرت رساں ادویات اور منشیات، دولت کی تقسیم میں حد درجہ تفاوت، کئی طرح کے خوفناک امراض، ماحولیاتی آلودگی وغیرہ۔ خود ساختہ اور ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں پر عمل کرکے ہی انسان اس بحران میں مبتلا ہوگیا ہے۔ انسان کے لئے وہ واحد راہ جس پر چل کر وہ اس بحران سے نکل سکتا ہے، اپنے خالق کی ہدایت کی پیروی ہے۔ اس ہدایت کا نام اسلام ہے، جس سے ایک بالکل ہی مختلف عالمی نظام کے برپا ہونے کی توقع ہے۔ ایسا عالمی نظام جس میں مستقل امن اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔
اگر کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے تو پھر اسے اس بات پر ا?مادہ ہوجانا چاہیے کہ وہ موجودہ بحران زدہ دنیا کے سامنے اسلام کو بطور حل پیش کرنے کی تحریک میں شامل ہوجائے۔ وقت آگیا ہے اسلام کو، جو اللہ تعالی کا پیغام ہے، اپنے اصل پاکیزہ شکل میں انسان کے سامنے ا?خری علاج کے طور پر رکھا جائے۔ اس خدائی نظام کے ساتھ انسان کی گہری وابستگی ہی اس کی دنیا کو بقیہ کائنات کے ساتھ ہم ا?ہنگ کر سکتی ہے ہے جو ہمیشہ سے خدائی ضابطوں کی پابند رہی ہے۔
دعوت یا دوسرے الفاظ میں اسلام کی نشرو اشاعت نے ہر دور میں اہلِ اسلام کو تقویت بخشنے میں اہم کردار، کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے ادا کیا ہے۔ دعوت کے نتیجے میں ایسے افراد اور ایسی اقوام امت اسلامیہ کی صفوں میں داخل ہوئیں جو نہ صرف غیرمسلم تھیں بلکہ اسلام کی کھلی دشمن تھیں۔ ہر ایسے واقعے سے اس امت کے انضباط اور 
اعتماد نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس امت کی شریانوں میں تازہ خون داخل ہوتا ہے اور کارکردگی حیات میں تیزی آتی ہے۔
جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے داعیانہ پہلو سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ ہم ا?پ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کا تعلق براہ راست اس مشن سے ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور جو رسول خدا کی حیثیت سے گزاری ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے پورے ۲۳ سال پر محیط ہے۔ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمام دوسرے کاموں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی اسی خصوصیت کو اپنانا ہوگا۔ یہ اْن ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو ا?پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے امت کے کاندھوں پر ڈالی تھی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
12نومبر2019(فکروخبر

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے