دعوتِ دین کی کوششیں اور اس کا منہج

(افادات حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم)
(ترتیب: محمد سمعان خلیفہ ندوی)

(بشکریہ: پیامِ عرفات، رائے بریلی شمارہ جون ۲۰۲۱)

اس وقت امت اسلامیہ اور بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کے جو حالات ہیں ان میں مختلف سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، کرونا کے نتیجے میں جہاں ایک طرف خوف اور دہشت کا ماحول بنا وہیں دوسری طرف ان حالات میں مسلمانوں نے انسانیت کی جو خدمت انجام دی اس سے ایک اچھا تاثر قائم ہوا، ضرورت ہے کہ مسلمان اس کو باقی رکھیں اور مختلف سطحوں پر دعوت کا فرض انجام دینے کے لیے سامنے آئیں۔
بعض جگہوں پر غیر مسلم برادران وطن کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان حالات میں معبودانِ باطل سے مایوس ہوکر انھوں نے ان کے بت بھی یہ کہہ کر توڑے کہ ان بتوں نے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور اس وبا کی ہلاکت سے نہیں بچایا، ایسے موقع پر جہاں ایک طرف ان تک توحید کے صحیح پیغام اور اللہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت اور اسلامی عقائد کی حقانیت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے، اب مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہوتا جارہا ہے کہ وہ ظاہری طور پر جو عبادت کرتے ہیں، وہ دنیاوی لحاظ سے ان کے لیے مفید ہیں، ان سے دنیاوی فائدہ ملے اور نقصانات سے بچاؤ ہو، گویا دنیا میں جب فائدہ نہیں پہنچا اور نقصان سے بچاؤ نہیں ہوا تو ان کی عبادت سے کیا فائدہ؟ یہ ایک مادی خیال ہے جو مسلمانوں میں رائج ہورہا ہے، دراصل ضروری یہ ہے کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اللہ کی عبادت کریں، کسی مادی منفعت کے حصول یا مادی نقصان سے بچاؤ کے خیال سے عبادت کرنے سے یہ ناقص خیال پیدا ہوتا ہے اور ایمان کے لیے اس کا بڑا نقصان سامنے آتا ہے۔
آج جب ہم نکل کر امت کے حالات کا جائزہ لیں تو ایک بڑی تعداد ہمیں ایسی نظر آتی ہے جن کو کلمے کا علم بھی نہیں اور وہ صرف برائے نام مسلمان ہیں، کلمے اور نماز کی اصلاح کی جو محنت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی نے شروع کی تھی اس کا حقیقی مقصد یہی تھا اور آج بھی اس کی شدید ضرورت ہے کہ امت میں چل پھر کر اس کی محنت کی جائے، ان کا مقصد یہی تھا کہ بنیاد پر محنت کرنے سے تمام دینی اعمال کا وجود میں آنا آسان ہوگا۔ ان کی محنت میوات کے خطے سے شروع ہوئی اور پھر اللہ تعالی نے ان کے اخلاص کی بدولت پوری دنیا میں اس کو پہنچایا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کے اثرات محسوس کیے گئے اور اس سے لوگوں کی زندگیوں میں واضح تبدیلی نظر آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد اور اعمال کی اصلاح کی دعوت لے کر امت کے افراد تک پہنچا جائے، نیز اصلاح معاشرہ کی کوشش کی جائے اور امت میں جو خرافات اور غلط باتیں رواج پارہی ہیں ان سے روکا جائے۔ 
دعوت کا ایک بنیادی مرحلہ یہ ہے کہ آدمی دعوت اور اصلاح کی شروعات اپنے گھر اور اپنے محلے سے کرے، اسی طرح آگے بڑھتا جائے، اور ایک مثالی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے، اپنی سیرت اور اخلاق کو مثالی بنانے کی کوشش کی جائے، ہم سب کے لیے اس معاملے میں نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے کہ آپ جیسا کامل انسان اور مثالی نمونہ نہ آج تک پیدا ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا، اس لیے ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چل کر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کی کوشش کریں۔
غیر مسلم برادران وطن تک دعوت پہنچانا بھی ہم سب کا فریضہ ہے مگر اس کے لیے ہمیں حکمت اختیار کرنے کی ضرورت ہے، پہلے اخلاقیات کے حوالے سے انھیں مانوس کیا جائے، دین اسلام اور سیرت رسول میں انسانیت اور اخلاقیات کا جو پیغام موجود ہے ان پہلوؤں کو خاص طور پر سامنے لایا جائے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے برادران وطن کے دلوں تک ہم پہنچ سکیں اور ان پر اثر انداز ہوسکیں، پھر جب وہ ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر ہمارے قریب پہنچیں تو ہم انھیں دین اسلام کا تعارف کرائیں اور اس طرح کرنے سے اس بات کی امید ہے کہ ان کے ذہن کھلیں گے اور وہ متاثر ہوں گے، اور خود عملی طور پر اس میدان میں کام کرنے والوں کو اس کا اچھا تجربہ ہے اور ان کے سامنے اس کے مثبت نتائج موجود ہیں، کیوں کہ ہمارے پاس اسلام کا جو اخلاقی نظام ہے اس میں زبردست قوت اور بھرپور تاثیر موجود ہے اور اس سے برادران وطن محروم ہیں، ان کے پاس ایسا جامع اخلاقی نظام موجود نہیں ہے، ان کے پاس مثالی زندگی کا کوئی کامل نمونہ موجود نہیں ہے، اس لیے جب وہ اس سے مانوس ہوں گے تو امید ہے کہ ان کے سامنے ہدایت کا دروازہ کھل جائے۔
اس کام کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے کیوں کہ انسان چاہے جتنا گیا گزرا ہو مگر بہرحال وہ انسان ہوتا ہے اور اس کے دل میں انسان کا دل ہوتا ہے، جانور کا دل ایسا نہیں ہوتا۔ جب ہم انسانی بنیاد پر اسلام کے اخلاقی پہلوؤں کو اختیار کرکے ان تک پہنچیں گے تو ان کے دلوں میں داخلہ ہمارے لیے آسان ہوگا۔ آج اس ملک میں اس چیز کی بہت ضرورت ہے کہ ہم اس میدان میں سامنے آئیں، اور اس طرح دشمنوں نے ہماری جو شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی ہے اس کو درست کرنے میں بھی مدد ملے گی اور اسلام کا صحیح پیغام ان تک پہنچے گا، لاک ڈاؤن کے ان حالات میں جہاں جہاں مسلمانوں نے مختلف انداز میں انسانیت کی خدمت کی ہے وہ قابل قدر بھی ہے اور اس سے ان کو بہت فائدہ بھی پہنچا ہے، اب ان کاموں کو اور اچھے انداز میں اور وسیع پیمانے پر اختیار کیا جائے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی اخلاق کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور اس کے کیے اخلاقی لٹریچر بھی تیار کیا جائے اور قرآن وحدیث سے اخلاقیات کی ان باتوں کو اخذ کرکے ان کو عام کیا جائے  تو امید ہے کہ اس ملک کے حالات تبدیل ہوں اور دعوت وہدایت کا راستہ ہموار ہو۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

08 ؍ جون 2021

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے