( مفتی)شفیع احمد قاسمی خادم التدریس جامعہ ابن عباس احمد آباد
اس وقت ملک میں ارتداد کی ایک لہر چل پڑی ہے، بلکہ الحاد و دھریت کا سیلاب امنڈ آیا ہے، ہر صبح اس ارتدادی فتنہ کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہے، ہر دن اسلام کی عزت مآب بیٹیاں بھگوا لب ٹریپ کی شکار ہورہی ہیں، زعفرانی بریگیڈ کے جھانسے میں چلی جارہی ہیں، فرقہ پرست تنظیمیں منظم طریقے پر اس کام کو انجام دے رہی ہیں، خبروں کے مطابق اس کے لیے باضابطہ ٹرینینگ دی جارہی ہے، انہیں اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ کیسے کسی مسلم خاتون کو اپنے لب میں پھانس کر اس سے شادی رچائی جاسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے جب پہلی ملاقات ہو، تو اس کا نام معلوم کریں، اس نام کی تعریف کریں، اس کے سامنے مذہب اسلام کی توہین نہ کریں، بلکہ اسلام کی تعریف و توصیف کریں، اس کے نقاب کی تعریف کریں اور یہ بتائیں، کہ مجھے مذہب اسلام سے دیرینہ لگاؤ اور تعلق ہے، پھر چند دنوں کے بعد انہیں بتائیں، کہ مجھے اسلام قبول کرنا ہے آپ میرا تعاون کریں، لیکن اس وقت اسے صیغہ راز میں رکھیں، پھر آپ جب بھی ملیں، ان کی تعریف کرنا نہ بھولیں، مثلاً آپ نقاب میں بہت خوب صورت لگتی ہیں، یہ کپڑا آپ کے جسم پر خوب جچتا ہے، کاش کہ آپ جیسی میری کوئی رفیقِ حیات ہوتی، غرضیکہ ان کے سامنے ایسے میٹھے بول بولیں ، کہ وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، اور وہ آپ کی گرویدہ و شیدائی بن جائیں ،اور ان کے دل ودماغ میں آپ کی محبت گھر کر جائے، پھر کسی موقع پر پیار بھرے لہجہ میں پوچھیں، کہ کیا آپ تلوار کے سایہ میں زندگی بسر کرنا پسند کرتی ہیں، جب شوہر چاہے طلاق دے دے، کیا آپ کو یہ پسند ہے، جب شوہر چاہے دو تین شادیاں اور کرلے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ نقاب نے آپ کی آزادی چھین لی ہے، اور اسلام نے کھلی فضا میں جینے کا حق سلب کر لیا ہے، خلاصہ یہ کہ اس طرح رفتہ رفتہ انہیں اسلام اور اسلامی کلچر سے برگشتہ کر دیا جاتاہے، بالآخر وہ اسے زندگی کا ہم سفر منتخب کر لیتی ہے، اور اپنے گلے سے اسلام کا پٹہ نکال دیتی ہے، فیا اسفا
فتنۂ ارتداد کوئی نیا نہیں ہے
تعجب اس پر نہیں ہے، کہ ارتداد و الحاد کا یہ خوفناک فتنہ نمودار ہوا ہے ، اس لیے کہ ارتداد کا یہ فتنہ دور نبوی سے متصل دور صدیقی میں نمودار ہو چکا ہے، اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں اسے کچل دیا تھا ،پھر اس ہندوستان میں آزادی سے قبل قریباً 1922/23میں تحریک شدھی کرن کے نام سے اس ارتدادی فتنہ نے سر ابھارا ، تو وقت کے علمائے ربانیین نے پوری جرات و بہادری کے ساتھ اس کی سر کوبی کی، ایک طرف کھلے منچ پر ان سے مناظرے کئے، اور دنداں شکن جواب دیکر انہیں ان کے بلوں میں پہونچا دیا، دوسری طرف اصلاحی دورے کئے، اور لوگوں کو ان کے دین پر واپس لایا، اب آزادی کے 75/ 76 سال بعد پھر ایک مرتبہ اس الحادی فتنہ نے سر ابھارا ہے، اس وقت ارتداد کے اس سیلاب سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پوری طاقت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے،
فتنۂ ارتداد کے اسباب و عوامل
اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی نسلوں کی صحیح تربیت نہیں کی، انہیں اسلامی فکر اسلامی کلچر سے روشناس نہیں کرایا، انہیں یہ سمجھانے میں ہم ناکام رہے ،کہ اس دھرتی پر سب سے بہتر مذہب اسلام ہے، اصل کامیابی وکامرانی اس امر میں مضمر ہے کہ اس ملک میں ہم اپنے تشخصات و امتیازات کے ساتھ زندہ رہیں، اور موت آئے تو اسلام پر ہی موت آئے، کیا ہم نے اپنی نسلوں کو یہ بتایا کہ اس دھرتی پر اسلام سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کوئی اور نعمت نہیں ہے، کیا ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہمارے اسلاف و اکابر نے اسلام کے تحفظ و بقا کے لئے کیسی جان توڑ محنتیں کیں، اور اسلام پر زندہ رہنے کیلئے کس قدر جانفشانیاں اور مجاہدات کئے، اور جب یہ سب کچھ نہیں کیا تو پھر ہم ان سے کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ارتدادی طوفان میں اس کے ایمانی قدم میں لڑکھڑا ہٹ نہیں آئیگی،
دوسرا سبب مخلوط تعلیم ہے،
جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جس سے ہمیں کوئی عار نہیں ہے، یہ بے غیرتی کی حد ہے، اسلام کب اس کی اجازت دیتا ہے، اور جب کہ صورت حال یہ ہے کہ وہاں صرف مسلم لڑکے ہی نہیں ہوتے، بلکہ غیر مسلم اور ہندوتوا ذہنیت کے لڑکے بھی زیر تعلیم ہوتے ہیں، تو اس کی سنگینی کا کیا پوچھنا، اور شریعت تو اس کی بھی روا دار نہیں ہے کہ مسلم لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ مخلوط تعلیم حاصل کریں، چہ جائیکہ غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کیا جائے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ تعلیم کے نام پر اپنی اولاد کے ایمان کا سودا کرنے پر بھی راضی ہیں، ایمان کتنی عظیم دولت ہے ہمیں اس کا احساس نہیں، تبھی ہم یہ سب گوارہ کئے لیتے ہیں، خدا را اس دولتِ بے بہا کی حفاظت کیجئے،
کیا ہم اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ نہ کریں
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بچیوں کو تعلیم سے نابلد رکھیں، بلکہ انہیں اعلی تعلیم سے آراستہ کریں، انہیں بلند وبالا ڈگری دلائیں، لیکن ایمان و اسلام کی بقاء و سلامتی شرط اول ہے، یہ وقت کا تقاضا اور اس کی ضرورت ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں، عموماً بھگوا لب ٹریپ کی شکار ہونے والی وہ بچیاں ہوتی ہیں، جو کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، یا تعلیم کے لئے کوچنگ سینٹر میں ان کی آمد و رفت ہوتی ہے، کیا ہم اس قابل نہیں ہے کہ کوچنگ سینٹرز چلا سکیں، کیا اس قوم کے پاس اتنا مال نہیں ہے، جس سے خواتین اسلام کیلئے حجاب کے ساتھ تعلیم کا نظم کر سکیں، اگر واقعی ہماری اقتصادی حالت اس سطح کی ہے، کہ ہم اس کا انتظام و انصرام نہیں کرسکتے ، تو سوال یہ ہے کہ ملت کے تحفظ کے لئے مجموعی طور پر ہم نے کیا سعی کی، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،
تیسرا اور بڑا سبب اپنی بچیوں کے ہاتھوں میں اینڈرائڈ موبائل تھما دینا ہے،
ظاہر ہے کہ اس میں کیا کچھ نہیں ہے، اور اس سے کیا نہیں ہوسکتا ہے، بچی جس سے چاہے کونٹیکٹ کرسکتی ہے، جو چاہے اس میں دیکھ سکتی ہے، اس دور میں موبائل یقینا ایک ضرورت کی چیز ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن اسے ضرورت بھر ہی استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، اور پھر اس کی مکمل نگرانی رکھنی چاہیے ، وہ کب بات کررہی ہے، کس سے بات چیت ہو رہی ہے، اور وہ کیا باتیں کر رہی ہے، اس کے واٹساپ وغیرہ چیک کیے جائیں، وہ کسے میسیج کرتی ہے، کہیں سہیلیوں کے نام پر کسی اور سے تو بات نہیں ہورہی
ہے،
ایک تازہ اور سچا واقعہ
ڑرکی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھگوا لب ٹریپ کیسی کیسی شکلوں میں نمودار ہورہا ہے، اور ہندوتوا ٹولہ اس وقت اسلام کی شہزادیوں کو اپنی محبت کے جھانسے میں پھانسنے کیلئے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر رہے ہیں، مکیش نامی ایک غیر مسلم لڑکے نے اپنا نام ارمان بتایا ، اور ایک مسلم لڑکی کو اپنی محبت کی جال میں پھانس لیا، اس سے بے تحاشا محبت کا اظہار کرنے لگا، چند مہینوں کا عرصہ اسی طرح گذرا ، بالآخر اس سے جسمانی تعلقات بنایا ، اور کورٹ میرج کے لئے دونوں آمادہ ہوگئے، جب کورٹ میں پہونچے، اور لڑکے نے اپنا نام مکیش بتایا ، تب اس مسلم خاتون کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی، خاتون نے کچھ شش و پنج کا اظہار کیا، اور شادی رچانے سے وہ انکار کر دی، لڑکے نے اسے بڑی منت سماجت کے بعد اعتماد میں لیا، اور کہا ،کہ تم پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنا، اور ہم اپنے دھرم پر عمل پیرا ہونگے، تمہیں کبھی ہم اپنے دھرم میں داخلہ پر دباؤ نہیں ڈالیں گے، خاتون نے مطمئن ہوکر اس سے شادی رچالی، ٹھیک ایک سال بعد بچہ کی ولادت ہوئی ، پھر لڑکا اور اس کے گھر والوں نے اسے ہندو دھرم میں داخل ہونے پر زور دیا، اور کہا کہ اب تمہیں تمہارے گھر والے نہیں اپنا سکتے، اور یہاں رہنا ہے تو تمہیں ہندو ریتی رواج پر رہنا ہوگا، خاتون نے اس دھرم کو اپنانے سے انکار کیا، اب لڑکا سمیت اس کے گھر والے اسے دھمکانے لگے، اگر اس مذہب کو تم نے نہیں اپنایا تو تمہیں زندگی سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گا، یہ سن کر لڑکی ایک دم سے سہم گئی ، اور موقعہ پاکر گھر سے فرار اختیار کر لی ، اور اب وہ اپنی ماں کے یہاں آکر پناہ لی ہے، ملت ٹائمز نے اسے اپنے یوٹیوب پر پورے واقعہ کو بتایا ہے،
غیر مسلم لڑکے کا اعترا ف
نیوز نائن کے ایک رپورٹر نے اس لڑکے سے سوال کیا، تم لڑکی کو دھرم پرورتن کرنے پر مجبور کر رہے تھے ،اس نے غیر مبہم الفاظ میں جواب دیا ،جی ہاں ،رپورٹر نے دوسرا سوال داغا ، کہ تم نے اسے جو محبت کے جال میں پھانسا ہے، یہ کسی کے کہنے پر یا تشدد پسند تنظیم کے انعام کے لالچ میں آکر ایسا کیا ہے ، اس نے اس کا جواب تو نفی میں دیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے ، کہ اسے اس لڑکی سے حقیقی پیار ہوتا ،اور اس سے کوئی دوسری غرض و لالچ نہ ہوتی ،تو قطعاً اسے دھمکا کر دھرم پرورتن کرنے پر زور نہ دیتا ، اسلئے کہ انسان کو اگر واقعی کسی سے محبت ہوتی ہے، تو محبوب کا وہ غلام بن کر رہتا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی لالچ سے متاثر ہو کر ہی اس نے یہ اقدام کیا ہے، اسلام کی شہزادیوں کو خدا اپنے حفظ و امان میں رکھے ، آمین
فتنۂ ارتداد کوئی نیا نہیں ہے
تعجب اس پر نہیں ہے، کہ ارتداد و الحاد کا یہ خوفناک فتنہ نمودار ہوا ہے ، اس لیے کہ ارتداد کا یہ فتنہ دور نبوی سے متصل دور صدیقی میں نمودار ہو چکا ہے، اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں اسے کچل دیا تھا ،پھر اس ہندوستان میں آزادی سے قبل قریباً 1922/23میں تحریک شدھی کرن کے نام سے اس ارتدادی فتنہ نے سر ابھارا ، تو وقت کے علمائے ربانیین نے پوری جرات و بہادری کے ساتھ اس کی سر کوبی کی، ایک طرف کھلے منچ پر ان سے مناظرے کئے، اور دنداں شکن جواب دیکر انہیں ان کے بلوں میں پہونچا دیا، دوسری طرف اصلاحی دورے کئے، اور لوگوں کو ان کے دین پر واپس لایا، اب آزادی کے 75/ 76 سال بعد پھر ایک مرتبہ اس الحادی فتنہ نے سر ابھارا ہے، اس وقت ارتداد کے اس سیلاب سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پوری طاقت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے،
فتنۂ ارتداد کے اسباب و عوامل
اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی نسلوں کی صحیح تربیت نہیں کی، انہیں اسلامی فکر اسلامی کلچر سے روشناس نہیں کرایا، انہیں یہ سمجھانے میں ہم ناکام رہے ،کہ اس دھرتی پر سب سے بہتر مذہب اسلام ہے، اصل کامیابی وکامرانی اس امر میں مضمر ہے کہ اس ملک میں ہم اپنے تشخصات و امتیازات کے ساتھ زندہ رہیں، اور موت آئے تو اسلام پر ہی موت آئے، کیا ہم نے اپنی نسلوں کو یہ بتایا کہ اس دھرتی پر اسلام سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کوئی اور نعمت نہیں ہے، کیا ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہمارے اسلاف و اکابر نے اسلام کے تحفظ و بقا کے لئے کیسی جان توڑ محنتیں کیں، اور اسلام پر زندہ رہنے کیلئے کس قدر جانفشانیاں اور مجاہدات کئے، اور جب یہ سب کچھ نہیں کیا تو پھر ہم ان سے کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ارتدادی طوفان میں اس کے ایمانی قدم میں لڑکھڑا ہٹ نہیں آئیگی،
دوسرا سبب مخلوط تعلیم ہے،
جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جس سے ہمیں کوئی عار نہیں ہے، یہ بے غیرتی کی حد ہے، اسلام کب اس کی اجازت دیتا ہے، اور جب کہ صورت حال یہ ہے کہ وہاں صرف مسلم لڑکے ہی نہیں ہوتے، بلکہ غیر مسلم اور ہندوتوا ذہنیت کے لڑکے بھی زیر تعلیم ہوتے ہیں، تو اس کی سنگینی کا کیا پوچھنا، اور شریعت تو اس کی بھی روا دار نہیں ہے کہ مسلم لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ مخلوط تعلیم حاصل کریں، چہ جائیکہ غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کیا جائے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ تعلیم کے نام پر اپنی اولاد کے ایمان کا سودا کرنے پر بھی راضی ہیں، ایمان کتنی عظیم دولت ہے ہمیں اس کا احساس نہیں، تبھی ہم یہ سب گوارہ کئے لیتے ہیں، خدا را اس دولتِ بے بہا کی حفاظت کیجئے،
کیا ہم اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ نہ کریں
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بچیوں کو تعلیم سے نابلد رکھیں، بلکہ انہیں اعلی تعلیم سے آراستہ کریں، انہیں بلند وبالا ڈگری دلائیں، لیکن ایمان و اسلام کی بقاء و سلامتی شرط اول ہے، یہ وقت کا تقاضا اور اس کی ضرورت ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں، عموماً بھگوا لب ٹریپ کی شکار ہونے والی وہ بچیاں ہوتی ہیں، جو کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، یا تعلیم کے لئے کوچنگ سینٹر میں ان کی آمد و رفت ہوتی ہے، کیا ہم اس قابل نہیں ہے کہ کوچنگ سینٹرز چلا سکیں، کیا اس قوم کے پاس اتنا مال نہیں ہے، جس سے خواتین اسلام کیلئے حجاب کے ساتھ تعلیم کا نظم کر سکیں، اگر واقعی ہماری اقتصادی حالت اس سطح کی ہے، کہ ہم اس کا انتظام و انصرام نہیں کرسکتے ، تو سوال یہ ہے کہ ملت کے تحفظ کے لئے مجموعی طور پر ہم نے کیا سعی کی، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،
تیسرا اور بڑا سبب اپنی بچیوں کے ہاتھوں میں اینڈرائڈ موبائل تھما دینا ہے،
ظاہر ہے کہ اس میں کیا کچھ نہیں ہے، اور اس سے کیا نہیں ہوسکتا ہے، بچی جس سے چاہے کونٹیکٹ کرسکتی ہے، جو چاہے اس میں دیکھ سکتی ہے، اس دور میں موبائل یقینا ایک ضرورت کی چیز ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن اسے ضرورت بھر ہی استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، اور پھر اس کی مکمل نگرانی رکھنی چاہیے ، وہ کب بات کررہی ہے، کس سے بات چیت ہو رہی ہے، اور وہ کیا باتیں کر رہی ہے، اس کے واٹساپ وغیرہ چیک کیے جائیں، وہ کسے میسیج کرتی ہے، کہیں سہیلیوں کے نام پر کسی اور سے تو بات نہیں ہورہی
ہے،
ایک تازہ اور سچا واقعہ
ڑرکی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھگوا لب ٹریپ کیسی کیسی شکلوں میں نمودار ہورہا ہے، اور ہندوتوا ٹولہ اس وقت اسلام کی شہزادیوں کو اپنی محبت کے جھانسے میں پھانسنے کیلئے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر رہے ہیں، مکیش نامی ایک غیر مسلم لڑکے نے اپنا نام ارمان بتایا ، اور ایک مسلم لڑکی کو اپنی محبت کی جال میں پھانس لیا، اس سے بے تحاشا محبت کا اظہار کرنے لگا، چند مہینوں کا عرصہ اسی طرح گذرا ، بالآخر اس سے جسمانی تعلقات بنایا ، اور کورٹ میرج کے لئے دونوں آمادہ ہوگئے، جب کورٹ میں پہونچے، اور لڑکے نے اپنا نام مکیش بتایا ، تب اس مسلم خاتون کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی، خاتون نے کچھ شش و پنج کا اظہار کیا، اور شادی رچانے سے وہ انکار کر دی، لڑکے نے اسے بڑی منت سماجت کے بعد اعتماد میں لیا، اور کہا ،کہ تم پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنا، اور ہم اپنے دھرم پر عمل پیرا ہونگے، تمہیں کبھی ہم اپنے دھرم میں داخلہ پر دباؤ نہیں ڈالیں گے، خاتون نے مطمئن ہوکر اس سے شادی رچالی، ٹھیک ایک سال بعد بچہ کی ولادت ہوئی ، پھر لڑکا اور اس کے گھر والوں نے اسے ہندو دھرم میں داخل ہونے پر زور دیا، اور کہا کہ اب تمہیں تمہارے گھر والے نہیں اپنا سکتے، اور یہاں رہنا ہے تو تمہیں ہندو ریتی رواج پر رہنا ہوگا، خاتون نے اس دھرم کو اپنانے سے انکار کیا، اب لڑکا سمیت اس کے گھر والے اسے دھمکانے لگے، اگر اس مذہب کو تم نے نہیں اپنایا تو تمہیں زندگی سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گا، یہ سن کر لڑکی ایک دم سے سہم گئی ، اور موقعہ پاکر گھر سے فرار اختیار کر لی ، اور اب وہ اپنی ماں کے یہاں آکر پناہ لی ہے، ملت ٹائمز نے اسے اپنے یوٹیوب پر پورے واقعہ کو بتایا ہے،
غیر مسلم لڑکے کا اعترا ف
نیوز نائن کے ایک رپورٹر نے اس لڑکے سے سوال کیا، تم لڑکی کو دھرم پرورتن کرنے پر مجبور کر رہے تھے ،اس نے غیر مبہم الفاظ میں جواب دیا ،جی ہاں ،رپورٹر نے دوسرا سوال داغا ، کہ تم نے اسے جو محبت کے جال میں پھانسا ہے، یہ کسی کے کہنے پر یا تشدد پسند تنظیم کے انعام کے لالچ میں آکر ایسا کیا ہے ، اس نے اس کا جواب تو نفی میں دیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے ، کہ اسے اس لڑکی سے حقیقی پیار ہوتا ،اور اس سے کوئی دوسری غرض و لالچ نہ ہوتی ،تو قطعاً اسے دھمکا کر دھرم پرورتن کرنے پر زور نہ دیتا ، اسلئے کہ انسان کو اگر واقعی کسی سے محبت ہوتی ہے، تو محبوب کا وہ غلام بن کر رہتا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی لالچ سے متاثر ہو کر ہی اس نے یہ اقدام کیا ہے، اسلام کی شہزادیوں کو خدا اپنے حفظ و امان میں رکھے ، آمین
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں