دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پس ماندہ ملکوں کا بنیادی مسئلہ

عارف عزیز(بھوپال)

آج دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افراد کے پاس جہاں ایک طرف مجموعی آبادی سے بھی زیادہ دولت ہے وہیں دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اکثریت کے پاس اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلوانے اور ادویات کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اِس وقت دنیا میں چار کروڑ ۰۷ لاکھ ایسے افرد ہیں جن کی دولت سات لاکھ ۸۹ ہزار ڈالر یا اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے افراد میں سب سے زیادہ ایک کروڑ ۰۸ لاکھ امریکہ میں رہتے ہیں۔ امیر ترین ممالک ہر سال غریب ممالک کو ۰۳۱  ارب ڈالرز امداد کی صورت میں دیتے ہیں لیکن اِس کے بدلے میں بڑی بڑی کمپنیاں غریب ممالک سے ۰۰۹ بلین ڈالرز مہنگی اشیاء بیچ کر یہ رقم واپس کھینچ لیتی ہیں۔ دوسری جانب غریب ممالک ہر سال ۰۰۶ ارب ڈالرز کی لی جانے والی امدد پر رقم سود کی صورت میں امیر ممالک کو دیتے ہیں۔ ایشیاء پیسیفک کے خطے پر اگر نگاہ ڈالیں تو اس خطے میں کروڑ اور ارب پتی افراد کی تعداد کے اعتبار سے جاپان سرفہرست ہے۔ جاپان میں قریباً ۳ء۱ ملین کروڑ پتی ہیں، ان افراد کے پاس مجموعی دولت ۳۲ء۵۱ کھرب ڈالر ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی قوت چین چھ لاکھ ۴۵ ہزار کروڑ پتی افراد کا گھر ہے۔ ایشیاء میں امیر افراد کی فہرست میں بھی چین دوسرے نمبر پر ہے۔ ان افراد کے پاس مجموعی سرمایہ ۵۲ء۷۱ کھرب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ ارب پتی افراد کی تعدد کے لحاظ سے چین ایشیاء میں پہلے نمبر پر ہے۔ تاہم چین میں فی کس آمدنی صرف ساڑھے ۲۱ ہزار ۸ سو ڈالر ہے جو اس شعبے میں اُسے خطے میں ساتویں نمبر پر پہنچا دیتی ہے۔ آسٹریلیا میں قریب دو لاکھ نوے ہزار افراد کروڑ پتی ہیں۔ تاہم انفرادی امارات کے اعتبار سے یہ خطے میں سب سے آگے ہے۔ اسی طرح فی کس آمدنی کے اعتبار سے بھی آسٹریلیا خطے کے دیگر ممالک پر سبقت لئے ہوئے ہے۔ خطے میں امیر افراد کی تعداد کے اعتبار سے ہندوستان چوتھے نمبر پر ہے جہاں دو لاکھ ۶۳ ہزار کروڑ پتی رہتے ہیں۔ تاہم فی کس کے اعتبار سے خطے میں ہندوستان انتہائی کم سطح کے ممالک میں سے تیسرے نمبر پر ہے، جہاں یہ صرف پاکستان اور ویتنام سے بہتر ہے۔ پانچ ملین کی کل آبادی کے ملک سنگاپور میں دو لاکھ ۴۴۲ ہزار کروڑ پتی ہیں، یعنی ہندوستان سے صرف ۲۱ ہزار کم، یہاں فی کس آمدنی بھی ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۰۰۳ ڈالر ہے۔ خطے میں فی کس آمدنی کے اعتبار سے سنگاپور آسٹریلیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ہانگ کانگ میں کروڑ پتی افراد کی تعدد دو لاکھ ۵۱ ہزار ہے۔ ارب پتی افراد کے لحاظ سے ہانگ کانگ کا نمبر چین، جاپان اور ہندوستان کے بعد چوتھا ہے۔ جنوبی کوریا میں کروڑ پتی افراد کی تعدد سوا لاکھ ہے اور یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اگلے دس برس میں جنوبی کوریا میں کروڑ پتی افراد کی تعدد میں پچاس فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ ساڑھے چار ملین آبادی کے ملک نیوزی لینڈ میں کروڑ پتی افراد کی تعدد ۹۸ ہزار ہے، فی کس آمدنی کے اعتبار سے خطے میں نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور سنگاپور کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔
  انڈونیشیا میں ساڑھے ۸۴ ہزار کروڑ پتی افراد آباد ہیں اور ۰۰۰۲ء سے اب تک یہاں بھی کروڑ پتی افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ چین اور ہندوستان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ انسانی ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آج بھوک و افلاس مٹانے کی بجائے جنگ کی تباہ کاریوں کو دعوت کیوں دی جارہی ہے؟ دنیا میں ایک طرف اسلحے کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں۔ دنیا کی تقریباً سات ارب کی آبادی ۴ء۱ ارب لوگ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ متوسط طبقہ کے افراد صرف ایک ڈالر کی روزانہ آمدنی سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ ۰۰۰۲۲ بچے روزانہ بھوک اور افلاس کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔امریکہ اور یورپی یونین کی کل آبادی سے زیادہ لوگ تقریباً ۰۷۸ ملین کے پاس خوراک نہیں ے۔ کئی ممالک جنگ و جدل کے باعث قدرتی وسائل کے باوجود انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ جن میں کانگو، لائبیریا، زمباوے، برونڈی، اری ٹیریا، سنٹرل افریقین ریپبلک، نائیجیر، سری الیون، ملاوی، ٹوگو، مڈگاسکر، افغانستان اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ اس لئے ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اگر واقعی خطے میں قیام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کرکے پسماندہ علاقوں اور ملکوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

25اگست2019(فکروخبر)

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے