دستورِ ہندایک معروضی مطالعہ

یوم جمہوریہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر

جمع وترتیب:عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

    کسی بھی ملک اوراجتماعی نظام کو چلانے،نظم و نسق کو برقرار رکھنے اورپرامن بقائے باہمی کوفروغ دینے کے لیے مضبوط ومستحکم آئین کی ضروررت ہے،یہی آئین کسی بھی مملکت کی بنیادو اساس ہوتاہے؛جس کاتحفظ پورے نظام کو انتشارسے بچانے اور حق دار تک اس کا حق پہونچانے میں ممدو معاون بنتاہے،اسی کے ذریعہ بنیادی نظریات وتصورات،اندورنی نظم ونسق کے اہم اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ا ن کے فرائض و اختیارات کی حدبندی وتعیین ہوتی ہے۔ شہری،سیاسی اورانسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہردورمیں محسوس کی گئی جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔ ملک کے لیے جو بھی قوانین وضع کیے جائیں گے وہ اسی دستور کی روشنی اوردائرہ میں ہوں گے۔ ہمارے ملک کے دستور کا نام 'بھارت کاآئین' ہے،جیساکہ دستور کی دفعہ 393میں اس کا ذکرملتا ہے۔ 
    پندرہ اگست 1947ء کوہماراملک انگریزوں کے پنجہئ استبداد سے آزادہوااورآزادی کے تقریباً ڈھائی سال بعد آئین کا نفاذ عمل میں آیا،اس کے بعد سے ہندوستان ایک مکمل خود مختار جمہوری ملک بن گیا جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا اور جس کی آبیاری کے واسطے جام شہادت نوش کیا تھا، اس واقعے کواب 70سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے؛جو ہمیں آئین پرعمل آوری کے حوالے سے دعوت احتساب دے رہاہے۔
 اس طے شدہ دستور کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں وہ انتہائی چشم کشا اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاحظہ ہو:”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیئ خیال، اظہار رائے، آزادیئ عقیدہ و مذہب و عبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔“
آئین ہند:
    26/نومبر1949 ؁ء کو سات رکنی کمیٹی (جس کے چئیر مین ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر تھے) نے آئین کا مسودہ حکومت کو سونپا،جس کا نفاذ 26/جنوری 1950 ؁ء سے عمل میں آیا۔اب تک اس آئین میں تقریباً92/ترامیم ہو چکی ہیں۔ آئین سازی کے عمل میں دوسرے اراکین کے ساتھ ساتھ مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا۔جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبدالغفار خاں، محمد سعداللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی کے نام شامل ہیں۔ اس دستاویز پر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کیے۔ اسمبلی کا آخری اجلاس24/دسمبر 1949ء کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیاگیا۔بھارت کے آئین کی ایک خصوصیت یہ  ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل آئین ہے؛جس میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق جمہوریہ ہند کا دستور کچھ اس طرح سے ہے۔
 دستور ہند میں 395 /دفعات (articles)،22/ابواب(chapters)،12/ضمیمے(schedus)،اور 02/تتمے(appndix)ہیں۔ ملک کا یہ دستوراپنی بہت سی خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود دنیا کے بہترین دستور میں شما ر کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جس قدر پامالی و بے حرمتی دستو ر ہندکی کی گئی شاید ہی دنیا کے کسی دستور کی کی گئی ہو۔اور جتنا اس دستور کے ا لفاظ ومعانی،مطالب ونتائج سے کھلواڑ کیا گیا دنیا کے کسی ملک کے دستورکیساتھ نہیں کیا گیا۔حکمراں طبقہ نے عوام کو آئین کی طاقت اور اس کی اہمیت سے واقفیت ہی نہیں ہونے دیا اور عوام نے بھی کبھی دستور کے مکمل نفاذ کے بارے میں کوئی پرزور تحریک نہیں چلائی،خصوصاََ مسلمانوں نے تواس سلسلہ میں کافی کوتاہی برتی۔بھارت میں ثقافتی فاشزم کوسیکولرزم کے سانچے میں ڈھالاگیااور ایک مذہب کے عقائد کو ملک کے استحکام ویک جہتی کے نام پر جبراََ مسلط کیا گیا۔ اب تو ملک میں آر ایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی حکومت کررہی ہے۔این آرسی اور شہریت ترمیمی قانون کے تناظر
میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں کس طرح کا دستور اور قانون نافذ کرنا چاہتی ہے۔ 
ہمارے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی مختلف دفعات کے باوجود بڑے پیمانے پروطن عزیزمیں انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہور ہی ہے،کہیں بولنے پر پابندی ہے تو کہیں کھانے اور لباس پر پابندی ہے۔کبھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کاہوّا کھڑا کیاجارہاہے،تو کبھی مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے۔غرض وطن عزیز میں اقلیتوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکاہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی حکومت کو جمہوری حکومت اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ انصاف،آزادی،مساوات،اور اخوت کے تقاضوں کو پوار کر سکے؛جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
انصاف:اس میں سماجی،معاشی،سیاسی انصاف شامل ہیں۔
آزادی:اس ضمن میں خیالات،اظہار رائے،عقیدہ،ایمان اور عبادت کی آزادی شامل ہے۔
اخوت:اس کے تحت ہرشہری کا وقاراور ملک کی سالمیت کے لیے ممکنہ کوششیں شامل ہیں۔
اب ہم ان نکات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آزاد ی ہند کے بعد سے آج تک حکمران جماعتوں نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ دستوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کبھی ایماندارنہ کوشش نہیں کیں۔مسلمانوں کے سماجی انصاف کی بات کی جائے تو آج بھی تقسیم ہند کا جواز دیتے ہوئے سب سے بڑی اقلیت کو اس کا مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ1857کے غدر میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے خون بہایااور آزاد بھارت کے لیے اپنی جان و مال تک کو نچھاور کردیا۔لاکھوں علماء کرام،صحافیوں اور دانشوروں کو انگریزوں نے شہید کیا اس کے برعکس زعفرانی طاقتیں انگریزی حکومت کی دلالی کرتی رہیں۔
باشندگانِ وطن کے بنیادی حقوق:
    آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے، اس کے دستوروآئین کے کچھ اہم امتیازات ہیں، یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے اور یہاں عوام ہی کوسرچشمہئ اقتدار و اختیار مانا جاتاہے، اس طرح تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ”ایک مشترکہ جمہوریت“کااٹوٹ حصہ ہیں۔ 
ذیل میں شہریوں کے چند اہم اور بنیادی حقوق قدرے تفصیل کے ساتھ درج کیے جارہے ہیں؛جن کے بہ غور مطالعہ سے یہ بات پایہئ ثبوت کوپہونچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اور مذہبی آزادی کا علم بردار ہے۔
حق مساوات: 
    ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اورآئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ، ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین واضح طور پر مساویانہ حقوق کا پاسدار ہے جیسا کہ آئین کی دفعہ 15

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے