از ـ محمود احمد خاں دریابادی چند دنوں قبل مسلم پرسنل لاء کے بارے میں ایک مختصر تحریر لکھی تھی اور جلد ہی یکساں سول کوڈ پر لکھنے کا وعدہ کیا تھا ـ جب لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ پہلے ہندوستان کے دستور پر کچھ مختصر لکھ دیا جائے، دستور کو سمجھنے […]
چند دنوں قبل مسلم پرسنل لاء کے بارے میں ایک مختصر تحریر لکھی تھی اور جلد ہی یکساں سول کوڈ پر لکھنے کا وعدہ کیا تھا ـ جب لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ پہلے ہندوستان کے دستور پر کچھ مختصر لکھ دیا جائے، دستور کو سمجھنے کے بعد ہی یونیفارم سول کوڈ کی دستوری وقانونی حیثیت واضح ہوسکے گی ـ
ہندوستان کا ایک جامع دستور ہے، جس کو ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی صدارات میں بنی دستور ساز اسمبلی نے ترتیب دیا ہے اس دستور میں تقریبا 400 کے قریب آرٹیکل یعنی دفعات ہیں، بعض آرٹیکلس کی ذیلی دفعات بھی ہیں ـ ابتدا میں ایک مختصر سی تمہید ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم ہندوستانی باشندے اپنے ملک کو عوامی سیکولر جمہوریہ بنانے اور یہاں کے تمام باشندوں کو مکمل انصاف و مساوات دینے کا عہد کرتے ہوئے اس دستور کو اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں ـ یہ دستور 26 نومبر 1949ء کو مکمل ہوا اور 26 جنوری 1950 سے اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ـ
اس دستور کی دفعہ 1 سے لیکر دفعہ 11 تک تعارفی تشریحی دفعات ہیں، ان میں ملک کا نام، اس کی حدود، یہاں کا شہری کون اور کس کو کہا جائے گا وغیرہ کا ذکر ہے ـ ………… دفعہ 12 سے دفعہ 35 تک جو دفعات ہیں ان میں یہاں کے باشندوں کے بنیادی حقوق کو بیان کیا گیا ہے، ان کو (Fundamental rights) بھی کہا جاتاہے ـ ان ہی بنیادی حقوق کی دفعہ 12 کے تحت صراحت کی گئی ہے کہ ان بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت کی پارلیمنٹ، اسمبلیاں، میونسپلٹاں، پنچائتیں وغیرہ ان بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بناسکتیں، عدالتیں ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتیں، کوئی آرڈینس بھی نہیں لایا جاسکتا، ( اگر دستور ان دفعات میں ترمیم کرنا ہے تو اُس کا ایک لمبا طریقہ کار ہے، دستور کی دفعہ 368 میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ لوک سبھا راجیہ سبھا کی دوتہائی اکثرت اور ملک کی نصف ریاستوں کے اسمبلی ممبران کی دوتہائی اکثریت اگر متفق ہوتی ہے تبھی ان میں ترمیم ہوسکتی ہے، ظاہر ہے ایسا ہونا آسان نہیں ہے ـ )
ان ہی بنیادی حقوق کی دفعات میں دفعہ 14 اور 15 ہیں جن میں تمام باشندوں کو برابری کے حقوق دئے گئے ہیں اور ہر طرح کی تفریق کی مخالفت کی گئی ہے ـ دفعہ 19 میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تمام باشندوں کو بولنے لکھنے اور اپنے خیالات ظاہر کرنے کی آزادی ہے، اسی طرح ملک میں کہیں بھی آنے جانے، رہنے اور کاروبار کی آزادی ہے ـ دفعہ 21 میں دستور ہر شہری کو اس کی جان مال کی حفاظت کی گارنٹی دیتا ہے ـ ………….. آگے دفعہ 25 ـ 26 ہر شہری کو اپنے پسند کے مذہب، مسلک، نظرئے ( پرسنل لاء) پر عمل اور اس کی تبلیغ کی آزادی دیتی ہیں ـ دفعہ 28، 29، 30 تمام باشندوں کو اپنی عبادت گاہیں، ادارے، مدرسے اسکول قائم کرنے اور اُن کا انتظام انصرام کرنے کی اجازت دیتی ہیں ـ ………… یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی دستور ہند ہر باشندے کو گارنٹی دیتا ہے
آگے دستور میں دفعہ 36 سے 51 تک رہنما اصول ہیں جن کو (Directive Principles) بھی کہتے ہیں ـ ان رہنما اصولوں کی حیثیت بنیادی حقوق جیسی نہیں ہے بلکہ ان میں دستور سازوں نے حکومت کو یہ ہدایت دی ہے کہ آپ کا فرض ہے کہ آپ ملک کو ہمارے خوابوں کے مطابق بنانے کی کوشش کریں ـ مثلا دفعہ 38 میں کہا گیا ہے کہ حکومت کوشش کرے کہ ملک میں سب کو روزگار ملے اور سماجی نابرابری کا خاتمہ ہو، دفعہ 39 میں کہا گیا ہے کہ سب کو مفت قانونی امداد اور مفت انصاف ملنا چاہیئے، دفعہ 40 میں ہے کہ حکومت کوشش کرے کے سب کو مفت میں علاج و معالجہ کی سہولت ہو،ہر باشندے کو صحت کا حق ملے، مکمل نشہ بندی ہو، اسی طرح دفعہ 47 میں ہے کہ ہر باشندے کے لئے مکان ہو،ضعیفوں،معذوروں اور کمزورں کے لئے خصوصی امداد کا بندوبست ہو ـ ان ہی رہنما اصولوں کی دفعہ 44 میں یکساں سول کوڈ کی بات بھی کی گئی ہے کہ حکومت کوشش کرے کہ پورے ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بن سکے ـ………….. یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ ان رہنما اصولوں کو زور زبردستی اور عدالتی حکم کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا، دفعہ 37 میں اس کی صراحت کردی گئی ہے ـ بلکہ دستور سازوں کا مقصد یہ تھا کہ حکومت تمام فریقوں سےآپسی گفتگو، افہام وتفہیم کے ذریعے ایسا ماحول بنائے اُن کے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں ـ
اس کے بعد دستور کی دفعہ52 سے 243تک حکومت سازی، صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، پارلیمنٹ، آڈیٹر جنرل، ریاستوں کے گورنر، وزیر اعلی، اسمبلیاں،پنچائتیں، مرکزی، ریاستی،ضلعی عدالتیں،وغیرہ کی تفصیلات ہیں، 244 میں مرکزی علاقے یونین ٹیرٹریز کی تفصیلات ہیں، 245 کےبعد مرکز اور ریاستوں کے تعلقات، اختیارات، آمدنی کی تقسیم، سرکاری ملازمتیں، رزرویشن وغیرہ کا ذکر ہے ـ ………… دفعہ 352 سے 360 تک ملک میں ایمرجنسی کی ضرورت اور نفاذ کے طریقہ کار پر گفتگو ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ 1975 میں اندرا گاندھی نے جو ایمرجنسی لگائی تھی وہ دستور کے مطابق تھی ـ آگے 351 سے 395 تک متفرقات ہیں ـ مثلا 368 دستور میں ترمیم سے متعلق ہے، ………. 370 جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے، یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ اس دفعہ کے بارے میں مشہور کردیا گیا ہے کہ مودی حکومت نے اس کو ختم کردیا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس دفعہ کی بعض ذیلی دفعات کو ختم کیا گیا ہے جیسے اب جموں کشمیر میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کا باشندہ زمین خرید سکتا ہے، وہاں الگ جھنڈا ہوتا تھا اب نہیں ہےـ بہرحال یہ دفعہ کمزور ضرور ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی ـ اسی طرح دفعہ 371 شمال مشرقی ریاستوں، ناگالینڈ،منی پور، اروناچل وغیرہ کی خصوصی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے ہے ـ
اس کے بعد دستور میں کئی ضمیمے شامل کئے گئے ہیں جن میں انتظامی تعلق سے متفرق امور کو شامل کیا گیا ہے ـ
آج کی گفتگو یہیں تک ـ اگلی بار انشااللہ یکساں سول کوڈ پر لکھا جائے گا، دستور ہند کی یہ تفصیلات جاننے کے بعد یکساں سول کوڈ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ـ
محمود احمد خاں دریابادی 4 جولائی 2023 ایک بجے شب
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں