مختلف مسجدو ںمیں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اتنے دنوں میں قرآن مکمل کر لیا جائے گا۔ دس دنوں میں بھی مکمل ہوتا ہے، پندرہ دنوں میں بھی اور ۳۲ اور ۷۲ دنوں میں بھی۔ بہت سے کاروباری لوگ ایسی مسجدیں تلاش کرتے ہیں جہاں کم سے کم شب میں قرآن مکمل ہو جائے۔ دہلی میں لال قلعہ کے دامن میں ایک مسجد میں پہلے تین شب میں قرآن مکمل ہو جاتا تھا، ممکن ہے اب بھی ہوتا ہو۔ وہاں ہم نے کئی سال قبل دیکھا ہے کہ لوگوں کی زبردست بھیڑ ہوتی ہے اور خاص طور پر کاروں سے لوگ وہاں پہنچتے ہیں اور تین شب میں قرآن سن کر باقی دنوں میں نماز تراویح تو چھوڑیے عشا کی نماز سے بھی رخصت کا پروانہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کچھ مسجدیں ایسی بھی ملیں گی جہاں الگ الگ فلور پر الگ الگ تراویح کا اہتمام ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جلد از جلد قرآن سن لیں۔ اب قرآن کیسے سنایا جاتا ہے اور کیسے سنا جاتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت سے حافظ قرآن اس تیزی سے قرآن پڑھتے ہیں کہ ان کی زبان سے صرف یعلمون تعلمون ہی سنائی دیتا ہے اور وہ بھی ع کی جگہ پر الف کے ساتھ یعنی یالمون، تالمون۔ نہ تو حافظ کو اس کی پروا ہوتی ہے کہ وہ قرآن کی قرآت کا حق ادا کرے اور نہ ہی سامعین کو اس سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ قرآن کو صحیح طریقے سے سنیں۔ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ ثواب حاصل نہیں کر رہے ہیں بلکہ گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ بہت سے مسلمانوں کے نزدیک فرض نمازوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ہاں تراویح کے لیے زبردست دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یا رمضان میں نماز کی ادائیگی کا اہتمام تو کرتے ہیں اور رمضان ختم ہوتے ہی مسجدیں پھر مرثیہ خوانی کرنے لگتی ہیں۔ تمام موسمی نمازی غائب ہو جاتے ہیں۔ گویا بقول علامہ اقبال وہ لوگ عنقا ہو جاتے ہیں جنھیں صاحب اوصاف حجازی کہا جا سکے۔
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب وغیرہ پر ایسی بہت سی کلپس موجود ہیں جن میں نماز تراویح کی بھی ریکارڈنگ ہے۔ ابھی حال ہی میں انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کی ایک مسجد میں دس منٹ میں نماز تراویح کی کلپ پوسٹ کی گئی ہے۔ وہ اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں تعارف کے طور پر لکھا ہوا ہے کہ دس منٹ میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پوری ہو رہی ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں ہندوستان میں کم از کم یالمون تالمون سمجھ میں آتا ہے اس میں صرف اللہ اکبر، اللہ اکبر ہی سمجھ میں آتا ہے اور کچھ نہیں۔ بس دو دو سکنڈ میں رکوع و سجود مکمل ہو جاتے ہیں۔ برق رفتاری کے ساتھ اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ کوئی معمر شخص وہ نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اسی لیے اس میں زیادہ تر نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کلپ میں بعض نمازی اور امام بھی نیوز رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ اب زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم کی وجہ سے یہ تو نہیں معلوم ہو سکا کہ امام صاحب نے اس کی توجیہ کیسے کی اور دس منٹ میں صلوٰة تراویح کی ادائیگی کا کیا جواز پیش کیا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یہ کہا ہو کہ آج کی مصروف زندگی میں کسی کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس لیے دس منٹ میں تراویح مکمل ہونے سے لوگوں کا وقت بچتا ہے۔ اگر انھوں نے یہی دلیل دی ہوگی تو ان کو بھی اور مصلیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا قرآن کو غلط پڑھنا اور سننا گناہ نہیں ہے۔ جب تک کہ اس کے ایک ایک حرف کی ادائیگی پورے مخرج کے ساتھ نہ کی جائے قرآن کا حق ادا نہیں ہوتا۔ گویا اس طرح سے پڑھنا قرآن کی حق تلفی کرنا ہے۔ حق تلفی کتنا بڑا گناہ ہے اس سے شاید ہر مسلمان واقف ہوگا۔ اور اگر قرآن کی حق تلفی کی جائے، اس کی، جو اللہ رب العزت کا کلام ہے، تو گویا ہم نے اللہ کی حق تلفی کی۔ یہ کتنے بڑے گناہ کا موجب ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جاوا میں جس طرح دس منٹ میں صلوة تراویح مکمل کی جا رہی ہے یا کی گئی ہے وہ عبرت کا مقام ہے۔ ابھی تک تو یہی دیکھا گیا تھا کہ ایک گھنٹے میں، سوا گھنٹے میں یا ڈیڑھ گھنٹے میں صلوة تراویح مکمل ہو رہی ہے۔ ایک گھنٹے یا اس سے کم میں جو حافظ مکمل کر لیتے ہیں ان کو یہاں 148حافظ ریل147 یا 148حافظ بلٹ147 کہا جاتا ہے۔ لیکن اس انڈونیشیائی امام کے آگے تو حافظ ریل اور حافظ بلٹ بھی فیل ہیں۔ ان کو حافظ راکٹ کہا جائے یا کہا جائے۔
ایک مسئلہ اور ہے اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ یعنی اجرت لے کر قرآن سنانا۔ اس کی یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ چونکہ حافظ کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں اور اگر وہ قرآن نہ سناتا تو دیگر ذرائع سے یافت کی کوشش کرتا۔ ا س لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مختلف مسجدو ںمیں قرآن مکمل ہونے سے قبل یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ آپ حضرات حافظ صاحب کو جو دے سکیں فلاں تاریخ تک دے دیں۔ کیا اس سے ہم حافظ صاحب کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ اگر ان کو کچھ دینا ہی ہے تو مسجد کے ذمہ دار حضرات خاموشی سے دے دیں۔ اعلان کر کے چندہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حافظ صاحب کے لیے الگ سے اور مسجد کے مستقل امام صاحب کے لیے الگ سے اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم دونوں کی عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ لیکن حافظ صاحب کو بھی اس پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی امام صاحب کو۔ اگر ہوتی تو وہ لوگ اس طرح مانگنے سے روک دیتے۔
بس ایک اور بات۔ وہ یہ کہ کچھ نیوز چینلوں پر پورے مہینے رمضان کے سلسلے میں پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان پروگراموں کے ذریعے ارادتاً یا بلا ارادہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ رمضان کا مہینہ 148ماہ ریاضت و عبادت147 نہیں بلکہ 148ماہ ضیافت147 ہے۔ ان پروگراموں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں اللہ تعالی کی جانب سے خورد و نوش کی کتنی قسمیں مہیا کر دی جاتی ہیں اور آپ چاہے جتنا کھائیں نقصان نہیں ہوتا۔ افطار میں بھی انواع و اقسام کی چیزیں دکھائی جاتی ہیں اور سحری میں بھی۔ بلکہ سحری میں بطور خاص بہت زیادہ چیزیں دکھائی جاتی ہیں۔ جتنا کھانا کوئی عام دنوں میں بھی نہیں کھا سکتا اس سے کہیں زیادہ کھانا سحری میں پروسا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ افطاری کے بعد خورد و نوش کا سلسلہ شروع ہو جانے کے باوجود کوئی اتنا کھانا سحری میں کیسے کھا سکتا ہے۔ جبکہ سحری کا فلسفہ یہ ہے کہ کچھ تھوڑا بہت کھا لیا جائے تاکہ دن میں زیادہ ضعف کا احساس نہ ہو۔ ان چینلوں کے رپورٹر مختلف شہروں میں روزہ داروں کے گھروں میں جاتے ہیں اور بارہوں بینجن پکانے اور کھانے کے مناظر دکھاتے ہیں۔ لوگوں کے انٹرویوزبھی کرتے ہیں جن میں لوگ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ رمضان میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ انھوں نے کون کون سی ڈش کھائی۔ کون زیادہ اچھی تھی کون کم۔ حیدرآباد سے متعلق ایک پروگرام میں دکھایا گیا کہ لوگ رمضان کے مہینے میں فلاں ہوٹل پر کھانے کے لیے بطور خاص جاتے ہیں اور رمضان میں جیسی لذت ملتی ہے ویسی کبھی اور نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ بازاروں کی رونق بھی دکھائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عید مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے اور اس کو خوب دھوم دھام سے منایا جانا چاہیے۔ لیکن جس طرح ملبوسات اور زیورات کی خریداری دکھائی جاتی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ بس کھانے پینے اور خریداری کرنے کے لیے ہی آیا ہے۔ ان پروگراموں میں اس بات پر زور نہیں دیا جاتا کہ اس مبارک ماہ میں عبادت کا ثواب کس طرح بڑھا دیا جاتا ہے۔ مسجدوں میں اوراد و وظائف اور عبادت و ریاضت اور تلاوت میں مصروف مسلمانوں کمی نہیں ہوتی لیکن ان کے کیمروں کا فوکس ا س جانب نہیں ہوتا۔ ان چینلوں کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
جواب دیں