از: مولانا شرف عالم صاحب قاسمی کریمی
أعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ تعالی فی کلامہ المجید..
''فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طآئفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم إذا رجعوا إلیھم لعلھم یحذرون''
عین حق ہے جو تجھے علم کا دریا کہ دوں
یہ بھی سچ ہے کہ تجہے گلشن تقوی کہ دوں
تو نے پیدا کیے محمود واشرف وانور
زیب دیتا ہے انہیں جس قدر اچھا کہ دوں
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ھو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفاں
الہامی وعالمی مثالی واسلامی ملی وقومی ادارہ، أم المدارس دارالعلوم دیوبند اللہ تعالی کے پسندیدہ ونمائندہ اور ابدی وسرمدی دین اسلام کا ترجمان ہے۔ دارالعلوم دیوبند محسن اعظم ورسول أکرم، حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانی وعرفانی، پاکیزہ وروحانی،سنت وشریعت کا پاسبان ہے۔
دارالعلوم دیوبند علوم قرآن وفنون حدیث کا روشن مینارہ،علم وعمل،فکروفن اور اعلی اخلاق وادب کا گہوارہ، فقہ وفتاوی، اصلاح وتبلیغ،تاریخ وتحقیق اور تصنیف وتالیف کا صرف شہ پارہ ہی نہیں بلکہ امام عالی مقام اور قائد عالی شان ہے۔
دارالعلوم دیوبند توحید خالص کا پر خلوص داعی،ختم نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا فدائی وشیدائی اور اسلام کا سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے شاندار وپربہار ماضی وعظمت رفتہ کا نشان ہے۔
15/ محرم الحرام 1283ھ میں علم وعمل کے خوشبودار پھول، اللہ کے کچھ مقبول بندوں کے مبارک ہاتھوں وجودِ بامسعود میں آنے والا ادارہ ''دارالعلوم دیوبند'' 31/ مئی 1866 عیسوی کے بعد قائم ہونے اور وجود پانے والے اکثر مدارس دینیہ مراکز اسلامیہ ومکاتب قرآنیہ نیز اصلاحی وفلاحی تحریکات،تبلیغی وسیاسی خصوصا ملک کی آزادی کے تعلق سے قائم ہونے والی تمام تنظیمات کی بنیاد واساس اور روح وجان ہے۔
دارالعلوم دیوبند حق وناحق، سچ وجھوٹ، صحیح وغلط اور کھریوکھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی ومیزان ہے۔
دارالعلوم دیوبند صرف ھند وپاک، بنگلہ دیش وافغانستان، سری لنکا،برماونیپال ہی نہیں بلکہ دنیا میں سرمایہ ملت ومایہ امت کا نگہبان ہے۔امریکہ، افریقہ وچین،جاپان، انگلینڈ، ترکی،جرمنی انڈونیشیا، ملیشیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور تمام دنیا کے مختلف ملکوں وعلاقوں میں دین کی نشر واشاعت، خدمت وحفاظت اور دعوت وتبلیغ کی نقل وحرکت میں جو لوگ جان کھپارہے ہیں، دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، اور کرونا کی آفت ولاک ڈاؤن کی مصبت میں جن پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ان پیچاروں، بے سہاروں اور حالات کے ماروں کی اکثریت، علمائے دیوبند، اور دارالعلوم دیوبندکے وابستگان وفیض یافتگان کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند جلیل القدر وعظیم المرتبت، صحابء رسول، علم وعمل اورفقہ وفتاوی کے سدا بہار پھول''حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ'' ائمہ اربعہ کے سرتاج، تقوی وفتوی کی لاج، حضرت امام ابو حنیفہ ساکن کوفہ،حضرت اقدس خواجہ معین الدین چشتی،حضرت نظام الدین اولیاء دہلوی،امام طحاوی، صاحب ھدایہ،صاحب عین الباری، علامہ شامی، شجرہ طوبی شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرھندی، مجدد الف ثانی، امام ربانی حضرت گنگو ھی، خصوصا مرد حقانی، اللہ کی قدرت کی نشانی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی، (علیہم الرحمۃ والرضوان) کے علوم وافکار کا امین ونقیب ہے۔(جن پر اسکا تن، من، دھن، سب کچھ ہی قربان ہے)
دارالعلوم دیوبند کا ایک اھم وعظیم مقصد دین کا بول بالا، حق وانصاف کا اجالا، ایمان وایقان کو دو بالا، قوت عشق سے ہر پست کو بالا، باطل کو تہ وبالا، اور شیطان مردود وبے سود کا منھ کالا کرنا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا اصل امتیاز تعلیم وتعلم سے زیادہ تقوی وطہارت، اخلاص وللّٰہیت، توبہ وانابت، صدق وصفا،اور خلوص وفا کی پاکیزہ صفات سے مالا مال ونہال کرنا ہے۔ چنانچہ نامور محقق اور مشہور مصنف، حضرت مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں…..
”دارالعلوم دیوبند و مظاھرعلوم سھارنپور کی وہ نمایاں خصوصیت، جس نے ان اداروں کو دنیا بھر کی تعلیم گاہوں میں زبردست امتیاز عطا کیا ہے، یہی تھی کہ یہاں کے طلبہ کو علم کا صرف خول نہیں دیا جاتا تھا، بلکہ ان میں عمل صالح، انابت و تقوی، طریقت وسنت اور اخلاقِ فاضلہ کی روح بھی بھری جاتی تھی“
(نقوش رفتگاں صفحہ139)
دارالعلوم دیوبند کے فضلاء وطلباء، مدرسین وخطباء، قاری نظر آتے ہیں مگرحقیقت میں قرآن ہیں۔ ان کے کردار وگفتار، میں اللہ کی برھان ہے۔ہر لحظہ ان کی نئی آن ونئی شان ہے۔ قہاری وغفاری، قدوسی وجبروتی، عناصروں سے مرکب وہ مسلمان ہیں۔ اور اچہے سچے مفید انسان ہیں۔گویاکہ ''خیر الناس من ینفع الناس'' کے مصداق ہیں۔ بقول علامہ ڈاکٹر محمد اقبال
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
دارالعلوم دیوبند نے علم وعمل، تفسیر وحدیث، جہاد وآزادی، ملک وقوم کی خوشحالی، مناظرہ ومقابلہ، تصنیف وتحقیق، صحافت وثقافت، دعوت وعزیمت، تحریر وخطابت، سیاسی وسماجی، فقہی وخانقاہی، ہر ہر میدان میں نمایاں وبلند پایہ خدمت انجام دی ہے۔ اور ایسے قابل صد رشک، مثالی افراد پیدا کرنے کا شرف حاصل کیا ہے، جن کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ اکابر دارالعلوم کی مخلصانہ، مجتہدانہ وسرفروشانہ، قربانی کی وجہ سے بے پناہ وبے حساب لوگ اسلام پر بحال رہے، لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اسلام کی دولت سے مالا مال ونہال ہوئے، جسکا بخوبی اندازہ دارالعلوم کی زبان اور پوری دنیا میں اسکے ترجمان، حضرت مفتی تقی عثمانی کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے
”مولانا شمش الحق افغانی کی مؤثرجدوجہد کے نتیجے میں ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے، ہزاروں لوگوں کو ارتداد سے نجات ملی، اور جن کو اسلام کی تو فیق ہوئی، ان کی کٹی ہوئی چوٹیوں کے بال سیروں کے حساب سے بطور یادگار دارالعلوم روانہ کیے گئے
جس کارنامے پر علامہ کشمیری، وعلامہ عثمانی، نے دارالعلوم کی طرف سے منعقد ایک جلسے میں ان کو داد تحسین پیش کی، اور دلی دعائیں دی،“
(نقوش رفتگاں)
دارالعلوم دیوبند نے لاکہوں قابل رشک وفخرسپوت پیدا کیے، جن میں چار ایسے صاحب فضل وکمال ہیں، کہ اگر ان کے علاوہ دارالعلوم کچھ بھی نہیں کرتا تو بھی اسکی کامیابی ونیک نامی کیلیے کافی،شافی، اور وافی تھا،۔
(1) تحریک آزادی کے عظیم قائد، فخر دیوبندوھند، حضرت شیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی علیہ الرحمہ
(2) مجدد زمانہ، تصوف،وسلوک کے مرد قوی، میدان خطابت وتصنیف وتالیف کے عظیم شہسوار، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
(3) علم کے بحر ناپید کنار، علم حدیث میں بے مثال، حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
(4) بانی عالمی تبلیغی حرکت، باعث صد خیر وبر کت، حضرت مولانا الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ
ان بزرگوں، اور اللہ کے نیک بندوں، نے دینی حمیت، اسلامی عزت، وغیرت. سیاسی نصرت وبصیرت پیدا کرنے میں قائدانہ رول ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم کی شان، اور ساری دنیا میں اسکی زبان، شیخ الإسلام حضرت مفتی تقی عثمانی اپنے بہار آفریں، انداز میں تحریر فرماتے ہیں ”دارالعلوم دیوبند قرآن وسنت کی اس تعبیر کا نام ہے، جو صحابہ کرام، تابعین عظام، اور اسلاف امت، کے ذریعہ ہم تک پہونچی ہے۔ یہ سیرت وکردار، کی اس خوشبو کا نام ہے جو صحابہ وتابعین کی سیرتوں سے پھوٹی ہے۔ یہ اس عہد وعمل کا نام ہے، جس کا سہرا بدر و احد کے میدانوں تک پہونچتا ہے۔ (جہاں دیدہ صفحہ511)
درس وتدریس، تزکی، نفس اور تصفی، قلوب، تعلیم وتعلم، جہادوجنگ آزادی،اور شریعت و طریقت کے میدان میں مجتہدانہ ومجددانہ اور مخلصانہ وقائدانہ رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ، مذاہب باطلہ اور فرق ضالہ، خصوصا آریہ سماج،شدھی تحریک کے زیراثر فتن، ارتداد، فتن، منکرین حدیث، ختم نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سب سے بڑی و خطرناک بغاوت فتنہ قادیانیت اورابھی ماضی قریب میں روسی حکومت کے غرور کو خاک میں ملانے کے تعلق سے دارالعلوم کے فرزندوں نے جو مجاہدانہ و دلیرانہ، بے نطیر و عظیم قربانیاں دی ہیں اس نے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید اور دارالعلوم دیوبند کو رہتی دنیا تک کے لیے نیک نام و روشن چراغ، نیز علامہ اقبال کے ان اشعار جہاد شعار کا مصداق بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو ہم بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
اللہ تا قیا مت اس کو زندہ وتابندہ رکھے! اور یہ سدا، حق وصداقت کا نمایندہ رہے!
شادباش وشاذ ری اے سر زمین دیو بند!
ھند میں تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند!
ملت بیضاء کی عزت کو لگائے چار چاند!
حکمت بطحا کی قیمت کو کیا تو نے دو چند!
(مولانا ظفرعلی خاں)
،،اللہ کرے زورترقی اور زیادہ ہو
اکابر دارالعلوم پر رحمت خداوندی بے اندازہ ہو
اور ان کا علم وقلم ہمیشہ تروتازہ رہے
ترتیب و پیشکش: محمد اکبر علی (ممبئی،مہاراشٹرا)
مضمون نگار المعہد الاسلامی العربی لعموم الہند کے خادم وبانی ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
07جون 2020(فکروخبربھٹکل)
جواب دیں