اس دوران دارالعلوم ندوۃالعلماء کو قریب سے دیکھنے اور طلبہ کی سرگرمیوں کابراہ راست مشاہدہ کرنے کا انہیں موقع ملا، دارالعلوم ندوۃالعلماء کی جن خوبیوں سے یہ حضرات بہت متاثر ہوئے، ان میں سے چند ’’تعمیر حیات ‘‘کے صفحات میں بغرض استفادہ پیش کی جارہی ہیں ۔ [ادارہ]
۱-ندوۃالعلماء کی ممتاز خوبی یہ ہے کہ یہاں ہر طرف علمی ماحول ہے ۔ درس کے اوقات صبح ۴۰:۷سے دوپہر ۲۰:۱تک ہیں ۔ اسکے بعد نماز ظہر ہوتی ہے طلبہ کا کھانا دونوں وقت کمروں میں پہنچایا جاتا ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر کچھ طلبہ تھوڑی دیر قیلولہ کر لیتے ہیں ، ورنہ اکثر لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں ، یا دیگر تعلیمی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں ۔
۲-ندوہ میں جملہ دس ہاسٹل ہیں ہر ہاسٹل میں ایک ایک دارالمطالعہ ہے، جہاں رسائل و اخبارات کے علاوہ امہات الکتب کا قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے طلبہ ظہر بعد ، عصر بعد مغرب بعد اور عشاء بعد پابندی کے سا تھ ان کتب خانوں سے استفادہ کرتے ہیں ، البتہ مغرب بعد سے عشاء تک کی بیٹھک درسیات کے اعادے اور دوسرے دن کے درس کی تیاری کے لیے مخصوص ہوتی ہے ۔ مرکزی لائبریری ’’ علامہ شبلی نعمانی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے ۔ تعلیمی اوقات میں بھی یہ لائبریری باقاعدہ پابندی کے ساتھ کھلتی ہے ۔ خالی گھنٹوں میں طلبہ وقت ضائع کئے بغیر لا ئبریری پہنچ جاتے ہیں اور فارغ اوقات میں رات گیارہ بجے تک ان سے مستفید ہو تے ہیں ہم نے سنا کہ امتحانات کے ایام میں رات بارہ بجے تک لائبریری کھلی رہتی ہے۔
۳-طلبہ ندوہ میں وقت ضائع کرنے اور کھیل کود میں لگے رہنے کا رجحان ہم نے بالکل نہیں دیکھا ندوہ کے کیمپس میں ایک چھوٹاسا میدان ہے ، جہاں عصر بعد چھوٹی جماعتوں کے کچھ طلبہ کھیلتے ہیں ، کیمپس ہی میں ایک ’’ورزش خانہ‘‘( GYM) جملہ ضروری سازو سامان کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، اس سے متعین اوقات میں بڑی جماعت کے طلبہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور اس کے بعد وہ بھی لکھنے پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ ویسے طلبہ کی اکثریت کتاب و قلم ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ طلبہ کا شہر میں جانا یہاں معیوب سمجھاجاتاہے ۔ ضرورت کی ساری چیزیں کیمپس ہی میں دستیاب ہیں۔
۴-ندوہ میں ایک طالب علم سید سیف اللہ (ویزاک ) سے ملاقات ہوئی، جو جامعہ داراسلام میں دو سال تعلیم حاصل کر چکے ہیں ، ان کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہاسٹل کے جملہ کتب خانوں کے ذمہ دار ایسے طلبہ ہیں جو مطالعہ کا بڑا شوق رکھتے ہیں اس کا مثبت اثر دیگر طلبہ پر اچھا خاصا ہے۔ یہاں ماحول ہی ایسا ہے کہ کسی خارجی دباؤ کے بغیر طلبہ لکھنے پڑھنے میں لگ جاتے ہیں البتہ اساتذہ ، طلبہ کو صلاحیت مند بننے اور علمی میدان میں ترقی کرنے پر ابھارتے ہیں۔ غیر علمی مصروفیتوں اور غیر اخلاقی کاموں میں لگنے کا موقع ہی طلبہ کو نہیں ملتا اورنہ ماحول ہی اس معاملے میں ان کا ساتھ دیتاہے ۔درس کی تیاری درسگاہ جانے سے پہلے کرنے کا مزاج طلبہ ندوہ میں عام ہے۔ اساتذہ کا عمومی برتاؤ طلبہ کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ اور ناصحانہ ہوتاہے۔طلبہ کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں ذہنی یا جسمانی سزا دینے کی فضابالکل نہیں ہے اور نہ اس کی نوبت ہی یہاں آتی ہے ۔
۵ -ہم نے مغرب بعد طلبہ کے کمروں کا جائزہ لیا ، صاف ستھرے کمرے اور دروازوں کے پاس سلیقے سے رکھے گئے چپل اور جوتے طلبہ کے حسنِ ذوق اور سلیقہ مندی کا ثبوت دے رہے تھے۔ ہر کمرے میں خوبصورت پردے لگے ہوئے تھے ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ طلبہ اپنے کمروں کی کھڑکیوں وغیرہ کے پردوں کا انتظام خود کر لیتے ہیں ۔ ہم یہ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے کہ بلا مبالغہ ، ہر طالب علم کا بستر علمی کتابوں سے مزین تھا ، چھوٹی بڑی کتابوں میں سے کچھ تو دارالعلوم کی تھیں ، اور اکثر کتابیں طلبہ کی ذاتی اور ان کی خریدی ہوئی تھیں۔
۶-ندوہ کے نائب مہتمم مولانا عبدالعزیز صاحب ندوی بھٹکلی بڑے فعال اور متحرک ہیں۔ طلبہ کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں نہایت فکر مند رہتے ہیں ۔ تعلیم و تربیت کا یہ انداز ہمیں بہت پسند آیا کہ وہ دونوں وقت کے کھانے میں اپنے دسترخوان پر کچھ ایسے طلبہ کو مدعو کرلیتے ہیں جنہیں تربیتی نقطۂ نظر سے کسی بات کی طرف متوجہ کرنا ہوتاہے۔ انہوں نے ذاتی کوششوں سے کئی لاکھ روپے اپنے مختلف احباب کے تعاون سے جمع کرکے ہر فن کا مراجع کی مختلف کتابیں خرید کر ہاسٹل کے تمام کتب خانوں میں رکھوائی ہیں۔ ان کی جمع کی ہوئی تفسیر ، حدیث،فقہ ، عربی زبان و ادب اور لغت کی امہات الکتب دیکھ کر حیرت ہوئی ، ہر کتاب کے چارچار ، پانچ پانچ نسخے ہر دارالمطالعے میں رکھوائے ہیں ۔ طلبہ مغرب کے بعدسے عشاء تک لازماً پابندی کے ساتھ ان کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ہم نے دیکھا ان عربی مصادر کا مطالعہ طلبہ یکسوئی کے ساتھ کر رہے تھے ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عا لمیت کے طلبہ ہیں ۔
۷-تعلیم کے علاوہ ندوہ کا تربیتی نظام بھی قابل رشک ہے، زبان کی شائستگی تو یہاں کی مشہور ہے ہی ، سبھی طلبہ صاف ستھرے کرتے پاجامے میں ملبوس، شرعی آداب لباس اور وضع قطع کے پابند نظر آئے ۔ غیر مہذب اور غیر طالب علمانہ لباس اور وضع قطع میں ہم نے کسی طالب علم کو نہیں دیکھا ۔
۸-نمازوں میں طلبہ کی حاضری بھی قابل رشک رہی ، مغرب سے پہلے طلبہ کی اکثر یت مسجد میں حاضر ہو کر تلاوت، اذکار و اوراد اور دعاؤں میں مصروف ہو جاتی ہے ۔ مغرب کی نماز میں تو اقامت کے وقت ہم نے پوری مسجد کو بھری پایا۔
۹-یہاں کے ایک سابق معتمد مولانا محمد معین اللہ صاحب مرحوم نے اپنے دور میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ مسجد تلاوت سے کبھی خالی نہ رہے ، اس سعی مشکور کے خوش گوارا اثرات ہم نے بھی دیکھے ، درسی اوقات میں حفظ کے طلبہ پابندی سے اور غیر درسی اوقات میں ان کے ساتھ عربی درجات کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد مصروف تلاوت رہتی ہے ۔ فجر سے پہلے ہی ہم نے طلبہ کی ایک بڑی جماعت کو مسجد میں تلاوت قران کرتے پایا، یہ سلسلہ اقامت تک جاری رہتا ہے ، اور فجر بعد بھی مختلف عبادتوں کے اہتمام میں ایک بڑی تعداد منہمک ہو جاتی ہے۔ طلبہ کے ہجوم میں اساتذہ بھی دیکھے گئے ۔ خصوصاً دارالعلوم کے بزرگ مہتمم مولانا سعید الرحمن صاحب اعظمی اور بعض نوجوان اساتذہ کو ہمیشہ پہلی صف میں دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوئے۔
۱۰-تعلیم و تعلم کی فضا ندوہ میں اس قدر عام ہے کہ غیر درسی اوقات میں بعض طلبہ خود سے حفظ کرتے ہیں ، بعض تجوید و قرأت کی مشق کرتے ہیں اور بعض اپنے اساتذہ سے عربی اور انگریزی وغیرہ میں مہارت حاصل کرتے ہیں ، جن طلبہ کو مضمون نویسی اور انشاء و ترجمے سے دلچسپی ہوتی ہے ، وہ اس کے ماہر اساتذہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اساتذہ بھی خوش دلی سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
۱۱-ایک جواں سال استاذ مولانا اختر ندوی نے بتایا کہ درسیات کے سلسلہ میں اساتذۂ ندوہ طلبہ سے زیادہ محنت کرتے ہیں ۔ مثلاً مجموعی طور پر طلبہ اگر چند تفسیروں کا مطالعہ کر کے آتے ہیں تو اساتذہ لازماًان سے زیادہ تفسیریں دیکھنی پڑتی ہیں اور اس معاملہ میں وہ سینئر اساتذہ سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ ورنہ طلبہ کے سامنے انکی سبکی یقینی ہے ، اس وجہ سے کئی اساتذہ کم عمری ہی میں کافی منجھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی دلچسپی کے فن میں اچھی خاصی مہارت پیدا کرلی ہے۔
۱۲-اساتذۂ ندوہ میں مولانا عبدالعزیز صاحب کی یہ بات ہمیں بہت پسند آئی کہ وہ اپنے شاگردوں اور جونیئر اساتذہ کی ہمت افزائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، ان کی ایسی ہمت افزائی کرتے ہیں کہ متعلقہ شخص اپنے اندر ایک نئی توانائی ، حرکت و عمل کی امنگ اور جوش و ولولہ پاتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے دلوں میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہے۔
۱۳-ندوۃالعلماء میں طلبہ کی تعداد تقریباً تین ہزار ہیں ۔ ایک کلاس میں سو ڈیڑھ سو سے زائد طلبہ ہیں۔ اس وجہ سے مختلف سیکشنوں میں ایک ایک بار کئی کئی اساتذہ پڑھاتے ہیں ۔ صحیح بخاری کا درس آٹھ اساتذہ دیتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا درس دوسرے اساتذہ سے بہتر ہو ۔ اس کے لیے وہ بڑی محنت کرتے ہیں اور اپنے طلبہ کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔
۱۴-دارالعلوم کی جانب سے متعین نصاب کی تکمیل ہر حال میں تمام اساتذہ پر لازم ہے۔ اس معاملہ میں سینئر اور جونیئر سب برابر ہیں اور سارے ہی اساتذہ جناب مہتمم صاحب کے پاس جواب دہ ہیں ۔ جو اساتذہ دعوتی اسفار میں ہوتے ہیں وہ اپنے نصاب کے تکمیل کے پابند ہوتے ہیں دیگر اوقات میں آکر وہ اپنا نصاب مکمل کر ہی لیتے ہیں اس وجہ سے تقریباً سبھی اساتذہ کا نصاب ہر سال مکمل ہو جاتا ہے۔
۱۵-درس و تدریس کے ساتھ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کا مشغلہ تصنیف و تالیف اور مضمون نویسی ہے ۔ اساتذہ کا زیادہ وقت کتابوں کے درمیان گزرتا ہے۔ اس وجہ سے ایک ایک استاد کئی کئی علمی اور تحقیقی کتابوں کا مصنف ہے۔ اساتذہ کا علم پروری اور کتاب دوستی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں ایک جواں سال استاذمولوی محمد فیصل ندوی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ان کا گھر رہائش گاہ کی بجائے کتب خانہ لگ رہا تھا۔ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں۔ مزید حیرت اس وقت ہوئی، جب یہ معلوم ہوا کہ اکثر کتابیں ان کی ذاتی ہیں جنہیں انہوں نے بڑی محنت اور خرچ کر کے جمع کیا ہے۔ خود نائب مہتمم صاحب کا کمرہ بھی اچھا خاصہ مکتبہ معلوم ہوا ۔
۱۶-جوطلبہ اساتذہ سے علمی رہنمائی چاہتے ہیں، اساتذہ ان کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اس وجہ سے یہاں طلبہ میں کسی نہ کسی استاد سے لگے رہنے کا مزاج عام ہے۔
۱۷-طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تعلقات مضبوط اور نہایت خوشگوار ہیں۔ اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ترقی کہ سلسلہ میں فکرمند رہتے ہیں ، مغرب بعد اور عشاء بعد بھی بعض اساتذہ کو اپنے طور پر طلبہ کی علمی رہنمائی کی خاطر ہاسٹلوں کا رخ کرتے ہوئے ہم نے دیکھا۔ اس وجہ سے طلبہ کے دلوں میں اساتذہ کا حد درجہ احترام پایا جاتا ہے۔
۱۸-طلبہ سے ذاتی کام لینے اور خدمت کرانے کا مزاج اساتذہ ندوہ میں بالکل نہیں پایا جاتا، ہر استاذ اپنا کام عام طور پر خود ہی انجام دے لیتا ہے۔ اس کے باوجود بعض سعادت مند طلبہ اساتذہ کی خدمت میں بچھے رہتے ہیں ۔ مولانا عبدالعزیز صاحب کے سلسلہ میں یہ معلوم کرکہ حیرت ہوئی کہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور جسمانی عوراض کے باوجود اپنے کپڑے خود دھو لیتے ہیں۔ البتہ انتظامی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی غرض سے ادارے کے کاموں میں طلبہ بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ دارالاقاموں کی ساری ہی لائبریریاں، قلمی رسالے اور انجمنیں طلبہ کی نگرانی میں چلتی ہیں۔ اس کہ علاوہ دیگر امور میں بھی طلبہ پیش پیش رہتے ہیں ۔
۱۹-ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ماضی قریب کے فارغین ندوہ کی اچھی خاصی تعداد دین و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ مدارس و مکاتب اور منبر و محراب سے بھی وہ جڑے ہوئے ہیں ۔ بعض فارغین ایسے بھی ہیں جو عصری تقاضوں کے پیش نظر انگلش میڈیم اسکولس قائم کرنے اور ان کے معیاری دینی نصاب کی تیاری وغیرہ جیسے اہم کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ بعض ندوی حضرات انگلش میڈیم اسکولس کے طرز پر عربی میڈیم اسکولس کا تجربہ بھی کر رہے ہیں۔
۲۰-طلبہ کے جملہ نشاط کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوا کہ ندوہ میں علمی ماحول بنانے میں جملہ اساتذہ مل جل کر مخلصانہ کوششیں کی ہیں اور یہ ماحول چند ایک دنوں کی محنت سے نہیں بلکہ برسوں کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔
(ماخوذ: تعمیر حیات )
جواب دیں