عدالت نے ایک اہم فیصلہ یہ بھی دیا ہے کہ تیسری پارٹی کسی مسئلہ پر فتویٰ نہیں لے سکتی صرف متاثر افراد ہی اپنے مسائل پر فتوے لے سکتے ہیں۔ اب تک فتوؤں کو بدنام کرنے کے لئے بے تکے اور بے ہودہ سوالات پوچھ کر فتویٰ لیا جاتا تھا اور بعد میں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا سپریم کورٹ نے اس روش پر پابندی لگادی ہے۔ اب دارالافتاء کو چاہئے کہ وہ صرف متاثر افراد کے سوالوں کا فتویٰ دے اور پوچھنے والے کی نیت اور فطرت کو ضرور مد نظر رکھے۔
جسٹس سی کے۔ پرساد کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ مذہبی عدالتیں ایسے حکم جاری نہیں کر سکتیں، جن سے کسی شخص کی درخواست پر کسی دوسرے شخص یا کسی متاثرہ شخص کے آئین ہند میں دےئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔عدالت نے کہا کہ شرعی عدالتیں صرف فرمان جاری کر سکتی ہیں اور وہ بھی کسی متاثرہ کے درخواست کرنے پر ہی۔سپریم کورٹ نے شریعت عدالتوں پر لگام کسنے سے متعلق ایک درخواست کا نمٹارا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی عدالتیں ملک کی انصاف کے نظام کے متوازی کام کر رہی ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شریعت عدالتوں کو قانونی منظوری نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف فتوی جاری نہیں کیا جا سکتا اگر اس سے اس شخص کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔کورٹ کا کہنا تھا کہ دارالقضا کسی شخص کے خلاف تب تک کوئی فتوی جاری نہ کریں جب تک کہ اس شخص نے خود اس کے بارے میں مطالبہ نہ کیا ہو۔ دراصل ان عدالتوں کی کاروائی پر شیو لوچن مدن کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ شریعت عدالتیں غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ متوازی کورٹ کے طور پر کام کرتی ہیں اور ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے سماجی اور مذہبی آزادی سے متعلق معاملات پر فیصلے لیتی رہتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی بنیادی حقوق پر کسی قاضی، مفتی یا مذہبی تنظیم کے ذریعے روک نہیں لگائی جا سکتی۔ شیو لوچن مدن نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک عورت کو ایک فتوے کے بعد اپنے شوہر کو چھوڑ کر سسر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ دارالقضا یا کوئی مفتی نہ تو فتوی جاری کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی اس شخص پر جبراً نافذ کرسکتا ہے جس نے شرعی قانون کا مطالبہ نہیں کیا ہو۔ عدالت کا خیال تھا کہ مذہب یا اعتقاد کا استعمال کسی بے گناہ کو تنگ کرنے کے لئے نہیں کیا جاسکتا ۔ عدالت کی واضح رائے تھی کہ کسی بھی قانون میں فتوی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ کوئی بھی دارالقضا کسی بھی شخص کے حقوق پر اپنی رائے نہیں دے سکتا جب تک کہ وہ شخص رائے طلب نہ کرے۔ کسی تیسرے فریق کی اپیل پر یہ شرعی عدالتیں نہ تو کوئی فتوی جاری کرسکتی ہیں اور نہ ہی ان فتووں کو ماننا ضروری ہے ۔ وہ صرف رائے دے سکتی ہیں ۔ وہ متوازی قانونی نظام نہیں چلاسکتیں۔اس معاملے کے دوران مرکز نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان شرعی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ان کے ذریعہ جاری کردہ حکم اور فتاووں کی پابندی کرنا ضروری نہیں ہے۔جب کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دارالعلوم دیوبند نے اس مفاد عامہ کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ متوازی نظام قانون نہیں ہے ۔ یہ صرف باہمی تنازعات کو حل کرنے کا ذریعہ ہے اور ان کے فتاوں کی نوعیت صرف مشورے کی ہوتی ہے جس کا ماننا یا نہ ماننا فتوی طلب کرنے والوں پر منحصر کرتا ہے۔
دارلقضا اور اور دارالافتا جیسے اداروں کی متوازی شرعی عدالتوں پر پابندی لگانے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے یہ واضح طور پر کہا کہ فتووں کو معصوم لوگوں کو سزا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے کہا: ’اسلام سمیت کوئی بھی مذہب ایسے ضابطوں سے معصوم افراد کو سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا جنھیں قانونی طورپر منظوری حاصل نہ ہو۔‘عدالت عظمیٰ کی ایک بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اتر پریش کی ایک خاتون عمرانہ کے کیس کا حوالہ دیا جس کا اس کے سسر نے ریپ کیا تھا۔ایک مفتی نے ریپ کے بعد عمرانہ کو اپنے شوہر سے طلاق لینے اوراپنے سسر یا خسر سے نکاح پڑھانے کا فتویٰ دیا تھا۔ حالانکہ اس فتوے کی چوطرفہ مذمت ہوئی تھی۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ’شرعی عدالتیں اور دارا لقضا کو آئینی منظوری حاصل نہیں ہے اور وہ ایسے کوئی فیصلے اور فتوے نہیں دے سکتے جن سے فرد کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اس طرح کے فیصلے اور فتوے کالعدم اور غیر قانونی ہونگے۔‘
کسی مسلم تنظیم یا ادارہ نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ شرعی عدالتوں دارالقضا کے فیصلے تسلیم کرنا لازمی ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے فیصلوں کو نافذ کرانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے وہ تو بس صلح صفائی کے ذریعہ معاملات کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کا ذریعہ ہیں اگر کوئی فریق شرعی قانون کو نظر انداز کرکے ملکی قانون کے تحت فیصلہ چاہتا ہے تو شرعی عدالت کا رخ نہ کرنے کو آزاد ہوگا۔ دراصل سپریم کورٹ نے صورت حال واضح کرکے ان عناصر کو خاموش کردیا ہے جو دارالقضا پر متوازی عدالتی نظام چلانے کا الزام لگاتے رہے ہیں اس کے ساتھ ہی ہر کس وناکس کو فتویٰ دینے اور فتویٰ لینے سے روک کر بھی عدالت نے قابل تحسین کام کیا ہے فیصلہ میں مین میخ نکالنے کے بجائے اس کی روح اور جذبے کی ستائش کی جانی چاہئے۔
جواب دیں