دردمندانہ اپیل

حفیظ نعمانی

پروردگار کے کرم سے بابری مسجد مقدمہ کی سماعت پوری ہوگئی اس کے لئے ربّ کریم کا جتنا شکر بھی ادا کیا جائے کم ہے۔ اب سب سے اہم مسئلہ یعنی فیصلہ باقی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نومبر کے دوسرے ہفتہ میں آسکتا ہے۔ جس وقت سے بحث ختم ہوئی ہے مسلمانوں کی طرف سے نہ جانے کتنے بیان آچکے ہیں اور آرہے ہیں کہ فیصلہ انشاء اللہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ فیصلہ آنے سے پہلے قیاس آرائی کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ جو حضرات یہ پیشین گوئیاں کررہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ جج صاحبان کس کس چیز کو دیکھتے ہیں؟
جو مسلمان بیان دے رہے ہیں انہوں نے مقدمہ کی روداد یا اخبار میں پڑھی ہے یا ٹی وی میں سنی ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر پانچ ججوں میں سے تین جج صاحبان یہ مان لیں کہ آستھا بھی ایک حقیقت ہے اور کروڑوں ہندوؤں کی آستھا ہے کہ بھگوان رام وہیں پیدا ہوئے تھے جہاں بتائے جارہے ہیں تو یہی فیصلہ ہوجائے گا۔
ہر مسلمان کو صرف پروردگار سے دعا کرنا چاہئے اور کسی طرح کے بھی بیان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور جس دن کے بارے میں بتایا جائے کہ فیصلہ آئے گا اس دن اپنے گھروں میں رہنا چاہئے خاص طور پر ان مسلمانوں کو جن کے چہرے نورانی ہوں اور ان بہنوں کو جو برقع کا پردہ کرتی ہوں۔ اپنے گھروں یا مسجد میں قادر مطلق کے نام کی تسبیح پڑھنا چاہئے کلام پاک کی تلاوت اور نفل نمازیں اور یہ دعا کہ جو ہم ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ہو وہ فیصلہ کرادے۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ قلم اور ہاتھ چاہے جس کا ہو لیکن لکھا وہ جائے گا جو اللہ رب کریم چاہے گا۔ سوال اس کا نہیں ہے کہ کون جیتا یا کون ہارا۔ سوال اس کا ہے کہ حالات بگڑنے نہ پائیں اور اگر مسلمان یہ فیصلہ کرلیں کہ مقدمہ کا فیصلہ جس کے حق میں بھی ہو وہ نہ غم منائیں گے اور نہ خوشی۔ بس اسی بات پر قائم رہیں کہ ہم عدالت کے فیصلہ کو قبول کریں گے۔ انشاء اللہ مسلمان چپ رہیں گے تو دوسرا فریق بھی چپ رہے گا اس لئے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
میری طبیعت 02  اگست سے خراب چل رہی ہے۔ درمیان میں کئی دن میں آرام ہی کرتا رہا۔ پھر طبیعت سنبھلی تو جو ہو سکا اور جیسا ہوسکا لکھ دیا۔ پچھلے ایک ہفتہ سے تین الگ الگ تکالیف ہوگئی ہیں جن کا نہ ایک دوسرے سے کوئی تعلق ہے اور نہ دل سے۔ پیس میکر لگنے کے بعد 28  سال سے جو دوائیں روز کھائی جارہی ہیں ان کے بارے میں تو ڈاکٹر دویدی نے کہہ دیا ہے کہ یہ اس وقت تک چلیں گی جب تک سانس چلے گی۔ اور یہ بھی جو ڈاکٹر اس سے ایک دوا بھی کم کردے آپ بے تکلف اس کا علاج کرالیں۔ اب ان دواؤں اور ٹانگ کی دواؤں کے بعد ہر تکلیف کی دوائیں الگ کھاتے کھاتے عاجز آچکا ہوں۔ اب جو نئی تکلیف ہے اس کا تعلق عمر سے ہے اور عمر میں پیوند نہیں لگایا جاسکتا۔ جس چیز سے لکھنے میں تکلیف ہوتی ہے وہ داہنے ہاتھ کی کہنی سے شانہ تک اور داہنے ہاتھ کے ہی انگوٹھے اور انگلیوں کی وہ تکلیف ہے کہ تھوڑاسا لکھ کر کئی منٹ تک ہاتھ کو دبانا پڑتا ہے اور ہر رات کو سینک کر تیل نہ لگوایا جائے تو تھوڑاسا کھانے کے بعد چمچ بھی بھاری لگنے لگتا ہے اور قلم کھرپی محسوس ہونے لگتا ہے۔
میں علاج کے بارے میں بہت سنجیدہ رہتا ہوں اور جو ڈاکٹر کہیں اس کی پابندی ایسی ہی کرتا ہوں جیسا خط غلامی لکھنے کے بعد کی جاتی ہے۔ اور یہ اس کا ہی اثر ہے کہ جتنی طبیعت بگڑتی ہے اتنی ہی سنبھل بھی جاتی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ شاید میں پابندی سے ہر دن نہ لکھ سکوں لیکن دوسرے تیسرے کوشش کروں گا کہ ضرور لکھوں اس لئے کہ اخبار کی محبت صاحب اخبار کا پیارا تعلق اور قارئین کرام کی اتنی زیادہ ہمت افزائی کے ساتھ اپنے دماغ کا بوجھ بھی ہلکا کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ مجھے بہت دعائیں ملتی ہیں۔ اور مجھے اس عمر میں اب دعاؤں کی ہی ضرورت ہے خدا اس محبت بھرے رشتہ کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتا رہے۔

 

«
»

فلسطین، مسلم ممالک اور مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہے

رام،رامائن، دسہرہ اور ہند۔اسلامی تہذیب کے نقوش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے