بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: ۔ محمد نعمان اکرمی ندوی ( رفیقِ فکر وخبر بھٹکل)
جناب دامودی سعید صاحب جوماہِ جنوری کے تیسرے روز بعدِ نماز ظہر مرحومین میں شامل ہوئے، ان سے ہمارے مراسم اگرچہ بہت گہرے نہ تھے مگر استوار ضرور تھے، ہمارے اور ان کے تعلقات کی داستان بھی عجیب داستان ہے۔ نہ اس کے آغاز کا پتہ نہ انجام کی خبر۔ ہماری ملاقاتیں خالص دینی ،دامی، درمی، سخنی تعاون پر مشتمل تھی، خلاصہ یہ کہ ہمارے بڑوں کے حکم کی تعمیل میں ان کے دفتر النوائط جانا ہوا۔ ایک طرف وہ اپنے متفکرانہ مزاج میں اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے تو دوسری طرف ان کے برادر نسبتی جناب عبد الحمید صاحب دامودی جو اپنے مخصوص اسلوب میں چند اہل مدارس سے محوِ گفتگو تھے۔ سعید صاحب ہماری پہلے ہی ناوکِ نظر کے شکار ہو گئے، یا ہمیں شکار کر دیا ،خود ہم تذبذب میں پڑ گئے۔سنجیدہ اور مصلحانہ مزاج ، گداز جاں اور تیز طرار تاجرانہ ذہن ودماغ کے خد وخال چہرے بشرے سے عیاں ہو رہے تھے۔وہ چراغِ بزمِ سیاست تھے نہ محرمِ اسرارِ شریعت، باکمال پیکرِ مسیحائی تھے نہ روشن مشعلِ راہنمائی، ماہرِ اسلامیات تھے نہ فلاسفرِ معاشیات، عالمِ دینیات تھے نہ حاملِ فکرِ انقلاب ونظریات، قائدانہ کردار تھا اور نہ عوامی راہنمایانِ قوم و وطن میں شمار۔ ہاں اگر وہ تھے تو ایک متوالے مشرقی تہذیب وتمدن کے، وہ تھے تو شناسے اردو زبان و ادب کے، وہ تھے تو شائق شعر وسخن کے، وہ تھے تو محبِّ علم و علماء، بہر حال "
جواب دیں