قائد الاحرار اور مفکر اسلام کے خلاف گودی میڈیا کا غلط پروپیگنڈہ!
از قلم: محمدفرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر مجلس احرار اسلام بنگلور)
ہندوستان کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھی ظالم حکومت کی جانب سے ہندوستان کی اقلیت اور یہاں کے اصل باشندوں کو ہندوستان کے دوسرے درجے کا شہری بنانے اور انکی شہریت کو چھین کر ڈیٹنشن کیمپ بھیجنے کے منصوبے اور سازشیں رچی جارہی ہیں۔اسی کے پیش نظر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو نافذ کیا گیا، اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کی کاروائی یکم اپریل سے شروع ہونے والی ہے۔ یہ تمام چیزیں قومی شہری رجسٹر (این آر سی) کو لانے کی تیاریاں ہے بلکہ اسی کا ایک حصہ ہے۔اس درمیان ایک طرف جہاں فرقہ پرست طاقتوں نے اس مسئلے کو ہندو مسلم بنانے کی ناکام کوشش کی وہیں ملک کی گودی میڈیا بھی اس میں ناکام ثابت ہوئی۔ ملک کی میڈیا نے روز اول ہی سے مظلومین خصوصاً مسلم برادری کے ساتھ سوتیلا سلوک اپنایا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔ لیکن ملک کے موجودہ نازک حالات میں بھی میڈیا کی دوغلی پالیسی کو دیکھ کر یہ واضح طور پر کہا جاسکتا ہیکہ وطن عزیز کی جمہوریت کو خطرہ اس وجہ سے بھی لاحق ہوا ہے کہ اسکے چوتھے ستون میڈیا نے اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر محض اپنی ٹی آر پی اور باطل کے پھینکے ہوئے چند ٹکڑوں کیلئے اپنے ضمیر کو فروخت کردیا۔ یہی وجہ ہیکہ آج ملک کی میڈیا کو ”دلال میڈیا“ یا ”گودی میڈیا“ کہا جارہا ہے۔
میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ میڈیا کا مطلب ہوتا ہے عوام تک حقائق پہونچانا۔ صحیح معلومات فراہم کرنا اور سچائی پر مبنی خبروں کو نشر کرنا۔ لیکن موجودہ دور میں جس انداز سے میڈیا اہلکار کام کررہے ہیں اس نے اس پیشہ پر ہی سوال کھڑا کردیا ہے۔ میڈیا کی اہمیت مشکوک کردی ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کے تئیں عوام میں شک و شبہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ میڈیا نے اب اپنا مقصد جھوٹ کی تشہیر، غلط پروپیگنڈہ کرنا، سچ کے بجائے جھوٹی خبروں کو نشر کرنا بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی نیشنل میڈیا ہر آئے دن مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرتی اور فرقہ پرست طاقتوں کی ترجمان بنتی نظر آتی ہے۔ جو نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
صحافی ہوگیا مرحوم، صحافت مرگئی کب کی
قلم اب جرأت اظہار رائے کو ترستا ہے
پچھلے دنوں مجلس احرار اسلام ہند کے قومی صدر اور پنجاب کے شاہی امام حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ نے ملک کی موجودہ صورتحال خصوصاً سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے پیش نظر اور دہلی فساد کے مدنظر اپنے خطبہ ئجمعہ کے ذریعے امت مسلمہ میں بیداری پیدا کرتے ہوئے انہیں آئین مخالف مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف آواز بلند کرنے اور احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی اپیل کی۔ اور فرمایا کہ ”اس ملک میں یہ ہماری آخری لڑائی ہے، یہ ہمارے وجود کی لڑائی ہے، اگر آج بھی ہم بیدار نہیں ہوئے تو کل ہمارے وجود کو ختم کردیا جائے گا، اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری ماں اور بہنوں کی عزت و آبرو کو لوٹا جائے گا اور ہمارا وہی حال کیا جائے گا جو 70 سال سے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہم بیدار ہوجائیں۔“ قائد الاحرار کا مذکورہ مکمل بیان یوٹیوب پر بآسانی دستیاب ہے۔ انہوں نے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے جسکی اجازت خود آئین ہند کی دفعہ 19/ دیتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ملک کی بکاؤ اور گودی میڈیا خصوصاً انڈیا ٹی وی (IndiaTV) نے ”بھڑکاؤ مولانا“ کے نام سے ایک شو چلائی اور قائد الاحرار کے آدھے گھنٹے کے بیان کو کاٹ چھاٹ کر محض 30 سکینڈ کی کلپ پیش کرتے ہوئے اسے متنازع ثابت کرنے کی بھرپور اور ناکام کوشش کی اور ان پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے غلط پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا۔ قائدالاحرار اپنی حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے پورے عالم خصوصاًملک ہند میں نہ صرف مشہور و معروف ہیں بلکہ کافی مقبول بھی ہیں۔آپ کا شمار برصغیر کے ان اکابرین و قائدین میں ہوتا ہے جن کانام انگلیوں پر گنا جاتا ہے۔آپ کی ایک آواز پر جہاں ملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ لبیک کہتا ہے وہیں دشمن پر آپکا رعب اس طرح ہیکہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔یہی وجہ ہیکہ جب آپنے امت مسلمہ کو بیدار ہونے کی تلقین کی تو باطل طاقتوں میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ الغرض گودی اور دلال میڈیا کا روح رواں انڈیا ٹی وی صرف قائد الاحرار کے خلاف غلط پروپیگنڈہ تک ہی نہیں رکی بلکہ اس نے قائد الاحرار کو مرکزی درجہ دیتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب مدظلہ، مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ،مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ، مولانا توقیر رضا خان صاحب بریلوی، مولانا عبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی، وغیرہ پر بھی بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ گودی میڈیا کی مکاری تو دیکھیے کہ اس شو سے پہلے خود انڈیا ٹی وی کے اہل کار نے ان تمام حضرات سے ملاقات کرکے انٹرویو بھی لیا تھا اور مذکورہ بیانات پر وضاحت بھی طلب کی تھی۔ قائد الاحرار نے اپنے انٹرویو میں بڑی جرأت اور بے باکی کے ساتھ دوٹوک اور واضح طور اپنے نظریات کو پیش کیا لیکن انڈیا ٹی وی کو مذکورہ انٹرویو سے اپنی کشتی ڈوپتی نظر آئی تو اسنے اس انٹرویو کو اپنے شو میں جگہ ہی نہیں دی بلکہ اسے دفنا کر رکھ دیا، یہ تو بھلا ہوا کہ کسی صاحب نے اسے موبائل پر رکاڈ کرلیا تھا جسے بعد میں یوٹیوب پر اپلوڈ بھی کر دیا گیا ہے۔ جبکہ انڈیا ٹی وی نے دیگر کچھ علماء کو ڈرا کر اپنے مزاج کے مطابق بیان رکاڈ کروایا اور بطور رجوع انکے انٹرویو کو اپنے شو میں جگہ دی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہیکہ گودی میڈیا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ دیکھنا چاہتی ہے، اور غلط خبریں چلانا، غلط پروپیگنڈہ کرنا اور غلط الزامات لگانا انکا پیشہ بن چکا ہے۔جبکہ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے رہنما کپیل مشرا، انوراگ ٹھاکر، یوگی ادتیاناتھ وغیرہ کے متنازع بیانات کے ذریعے دہلی میں ہوئے فسادات کیلئے ان نے سوالات کرنا تو دور انکا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کے برعکس بعض معصوم لوگوں کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ انہیں جبراً اسکا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ اور دہلی میں ہوئے فسادات میں دنگایوں کے ساتھ پیش پیش رہنے والے وہاں کے پولیس اہلکاروں پر بھی گودی میڈیا نے خاموشی بنائی رکھی۔ اور پر امن احتجاجی مظاہروں کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ دہلی فساد کے اصل ذمہ داربی جے پی رہنما کپیل مشرا پر پولیس نے مقدمہ تک درج نہیں کیا بلکہ اسکے برعکس اسکی حفاظت کیلئے حکومت نے Y سیکورٹی فراہم کی ہے۔ افسوس کا مرحلہ ہیکہ آج ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ وہ اپنے رب کی بات سے زیادہ میڈیا کی بات پر یقین رکھتے ہیں، گویا کہ انہوں نے میڈیا پر بھی ایمان لایا ہو۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیسہ کے سوا گودی میڈیا کا کوئی دین ومذہب نہیں اور دنیا میں شیطانی طاقتوں کا ایک آلہ کار یہی میڈیا ہے۔
الغرض یہ تمام چیزیں اس لئے رونما ہورہی ہیں کیونکہ آج میڈیا پر اغیار کا قبضہ ہے۔ وہ جس خبر کو جس طرح چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں اور ایک جھوٹ کو سو بار دکھا کر اسے دل و دماغ میں بطور سچ بٹھا دیتے ہیں۔اغیار میڈیا ہی کے ذریعے آج اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے اور تو اور مسلمان کا ایک طبقہ متأثر ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ ہم مسلمانوں نے اس طرف ابھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی، ہم اپنے بچوں کو صحافت کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے بارے میں تصور بھی نہیں کرتے۔ہماری بدقسمتی کا عالم تو یہ ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر ہم نے سرے سے ہی کوئی توجہ نہ دی اور ملک میں 25 /کروڑ سے زائد ہماری آبادی ہونے کے باوجود آج تک ہمارا کوئی ذاتی ایک میڈیا ہاؤس بھی نہیں ہے، جسکی وجہ سے ناجانے ہمیں کیسے کیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی وقت ہیکہ ہم اس پر توجہ دیں اور ہماری نسلوں میں ایسے لوگوں کو تیار کریں جو جمہوریت کے چوتھے ستون کے محافظ بنیں اور کسی کی دلالی کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں۔ ورنہ مستقبل میں ہمیں مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ ہوں یا مفکر اسلام حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب مدظلہ ہوں، یہ حضرات ہمارے اکابر علماء ہیں، جو ملک کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات یا ان کے سلسلے میں پھیلائے گئے غلط پروپیگنڈے سے نہ تو انکے مقام و مرتبہ میں کوئی کمی آسکتی ہے اور نہ ہی انکی شان و شوکت پر آنچ آسکتی ہے۔ بلکہ ان بے بنیاد الزامات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہیکہ وہ راہ حق کے مسافر ہیں، اور راہ حق کے مسافروں پر باطل طاقتوں کا برسنا لازمی ہے۔ لیکن ہمارے اکابرین کے خلاف کوئی غلط پروپیگنڈہ کرے اسے ہم برداشت نہیں کرینگے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ایسے گودی میڈیا کا بائیکاٹ کریں اور ایک عزت دار شہری کی عزت سے کھلواڑ کرنے، انکے جذبات سے کھیلنے اور انہیں بدنام کرنے کیلئے دلال میڈیا پر مقدمہ درج کروائیں تاکہ کوئی دوسرے انکا شکار نہ بنیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اکابرین کی ہر طرح کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائے اور انکا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم و دائم فرمائے۔آمین
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں