کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں اور کبھی نہ ختم ہونے والے کھیل تماشے اور کسی مطلب و مقصد اور حرص و طمع سے ماورا یہ تعلقات اپنی محبت و الفت اورچاہت و پیارسے انسانوں کوماضی کی یادوں میں اس طرح باندھ دیتے ہیں پھر وہ انسان چاہے بھی تو کبھی ان سے نجات حاصل نہیں کرپاتا بلکہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان یادوں کی لذت سوزن میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور یاد ماضی انسان کا بہت قیمتی اثاثہ بن جاتی ہے۔وقت اپنی رفتار سے بڑھتارہتاہے اور بہت جلد حسین یادوں کا یہ دور ختم ہوکر تو انسانوں کے درمیان جدائیاں ڈال دیتاہے،کسی کو قسمت ،کسی کو رزق،کسی کو مجبوریاں اور کسی کو پیا گھراپنے بچپن سے بہت دور بہت دور لے جاتے ہیں۔اب دوستوں کی یادیں اور خاص طور اس وقت کے دوستوں کی یادیں جب دوستی کا تعلق صرف خلوص و محبت پر ہی مبنی ہوتاتھابہت ستاتی ہیں پس یہیں سے انسانی جذبات شروع ہوتے ہیں اور پھر خطوط کی ترسیل کاکام کیاجاتا ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں کی خیریت وعافیت سے آگاہی حاصل کی جاسکے۔
خطوط کے اجراکا دوسرا مقصداحکامات کی بروقت ترسیل بھی ہے،ریاستیں بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ رقبہ گھیر لیتی ہیں اورایک اعلان کے ذریعے سب لوگوں تک اطلاعات پہنچانا ممکن نہیں رہتااور پھر ایسی اطلاعات بھی تو ہوتی ہیں جنہیں ہر کس و ناکس تک پہنچانا مقصود بھی نہیں ہوتاتب کسی مخصوص فرد تک اس سے متعلق اطلاع ایک بند لفافے میں لکھی ہوئی چٹھی ہی پہنچاسکتی ہے جہاں سے ڈاک کا عمل شروع ہوتا ہے۔کسی کی تعیناتی،کسی کی برخواستگی اور کسی کی ترقی اور کسی کی تنزلی ان سب امورکی اطلاع کسی چٹھی کے ذریعے ہی پہنچائی جاتی ہے تاکہ اسناد کا باقی رہنا ممکن ہو سکے اور یہاں پھرڈاک کی ضرورت پڑتی ہے ایک جگہ کے خطوط دوسرے جگہ متعلقہ فرد تک پہنچانے کاکام یہی محکمہ کرتاہے۔بعض اوقات ایک ادارہ دوسرے ادارے سے دفتری تعلقات استوارکرتاہے اور دو ادارے یا دو دفاتریادومحکمے اپنی جملہ خط و کتابت کے لیے اگرچہ اپنے ہرکارے بھی تعینات کرتے ہیں لیکن جب کام اس قدر بڑھ جائے کہ ہرکاروں کے بس سے باہر ہوجائے تو پھر محکمہ ڈاک کی ضرورت پڑتی ہے جو اس طرح کے امور کی نگرانی کرتاہے اور پوری ذمہ داری اور تندہی سے ایک جگہ کی تحریری اطلاعات دوسری جگہ پہنچاتاہے اور اس کے بدلے ایک مناسب عوضانہ بھی وصول کرتا ہے جسے بخوشی اداکر دیاجاتاہے۔
ہم کہ سکتے ہیں پیغام رسانی کے لیے سب سے پہلے اﷲ تعالی نے جبریل کا انتخاب کیا جو آسمان سے اطلاعات زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں اﷲ تعالی کے برگزیدہ بندوں تک پہنچایاکرتاتھا۔گویا محکمہ ڈاک کی تاسیس وحی کے مقدس فریضے سے ہوئی ۔حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت تو اﷲ تعالی نے براہ راست وحی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کوچیزوں کے نام سکھائے لیکن بعد کے آنے والے دنوں میں اﷲ تعالی اپنا پیغام جبریل کے ذریعے سے اپنے انبیاء علیھم السلام تک پہنچاتا تھا۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کام میں جبریل اکیلا نہیں تھا بلکہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی جو ان فرائض کی بجاآوری میں جبریل کا ساتھ دیتی تھی گویا آسمان پر اﷲ تعالی نے ایک محکمہ بنایا تھا جس کے نگران جبریل علیہ السلام تھے اور ان کی سربراہی میں دیگر بہت سے فرشتے تھے جو اس کام میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔کبھی یہ پیغام رسانی زبانی ہوتی تھی اور جبریل اﷲ تعالی کا پیغام انبیاء کے قلب مبارک میں ڈال دیتاتھا اور کبھی کبھی تحریری پیغام رسانی بھی ہوا کرتی تھی جیسے حضرت موسی علیہ السلام پر توریت کے تحریری نسخے نازل کیے گئے تھے۔
پیغام رسانی کا سلسلہ ابنیاء علیھم نے بھی جاری رکھااور حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ذریعے اپنے والد بزرگوارحضرت یعقوب علیہ السلام کواپنی قمیص بھجوائی،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسمائیل علیہ السلام کے درمیان بھی پیغام رسانی کی اطلاعات ملتی ہیں۔آخری نبی ﷺنے بھی خطوط رسانی کے سلسلے کو جاری رکھا،ریاست مدینہ کی تاسیس کے بعد پورے عرب سے عام طور پر اور مکہ مکرمہ سے خاص طور پرخفیہ اطلاعات کی ترسیل کے لیے پورا ایک نظام وضع کیاگیاتھا،اس نظام کے تحت پل پل کی خبریں تحریری اور زبانی طور پر آپ ﷺ کے گوشگزار کی جاتی تھیں ۔دوسرے ممالک سے رابطے کے لیے آپﷺ نے ایک صحابی کومنتخب فرمایا،حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ تعالی عنہ سفیر رسول ﷺ تھے اور بادشاہوں کے دربار میں محسن انسانیت ﷺ کے پیغامات و خطوط لے کر جاتے تھے۔خاتم الانبیاﷺ نے خفیہ خطوط کے طریقے کو بھی رائج کیااور اصحاب رسول کے بعض گروہوں کو ایک بند لفافے میں احکامات دیے جاتے اور انہیں کہاجاتا کہ اتنی دور فلاں سمت میں پہنچ جانے کے بعد اسے کھول کر پڑھنا اور لکھی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا۔فتح مکہ کے لیے روانگی کے بعد ایک عورت سے غداری کاخط بھی حضرت علی اور انکے ساتھیوں نے پکڑا تھا۔اسی طرح جب فتح مکہ کے بعد حضرت ابوبکر کو امیر الحج بناکر بھیجا تو بعد میں حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے ہاتھوں ایک پیغام ارسال فرمایا جس میں مسجد حرام سے متعلق نازل ہونے والے چند احکامات کا اعلان مقصود تھا۔
بعد کے ادوار میں محکمہ برید کے نام سے باقائدہ ایک سرکاری محکمہ بنایا گیاجو لوگوں کے خطوط اورسرکاری چٹھیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کاکام کرتا تھا،امیرالمومنین حضرت عمر نے اس کام پر خصوصی توجہ دی اور بعد کی دنیاکے ایک ہزار سالہ اسلامی دور حکومت میں ڈاک کی ترسیل کا تیزترین نظام کام کرتا رہا تیزرفتار ہرکارے اپنے گھوڑوں پر تیاررہتے تھے ،خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی گئی تھیں جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار باش ہوتا اور ڈاک کا تھیلا بہت سبک رفتاری سے اس طرح اپنی منزل کی طرف بغیر کسی توقف کے اور بغیر کسی تاخیر کے تیزگام رہتااور بہت لمبے لمبے فاصلے دنوں دنوں میں طے کر لیے جاتے،کم و بیش اسی طرح کا نظام سمندروں اور دریائی علاقوں کے اندر بھی اپنا کام بہت تیزرفتاری سے سرانجام دیتاتھا۔بعض لوگ انفرادی طور پر سدھائے ہوئے کبوتروں س بھی یہ کام لیتے تھے لیکن اس طرح پیغام ضائع ہونے کا اندیشہ بھی رہتاتھا چنانچہ لکھاہوا پیغام کبوتر کی ٹانگ پر باندھ دیاجاتا اور اسے منزل مقصود کی طرف اڑا دیا جاتا،شکاری پرندوں اور موسموں کی شدت سے بچ جانے کی صورت میں یہ پرندہ اپنے مقام پر بہت جلد پہنچ جاتا تھا اور یوں پیغام رسانی مکمل ہو جاتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ ڈاک کا نظام انسانی معاشر کا جزو لازم بن گیا اور ماضی قریب میں خطوط کا بہت زیادہ رواج ہو گیا حتی کی طالب علموں کو ان کی نصابات میں باقائدہ سے سکھایا جاتا تھا کہ خط کس طرح لکھتے ہیں اور خط میں مخاطبت کے کیاکیا آداب ہیں ۔کسی بڑے کو خط لکھنے میں کس آغاز کرنا ہے،چھوٹے کو لکھتے ہوئے کس طرح مخاطب کرنا ہے،خط کے شروع میں کیا لکھنا ہے اور خط کے آخر میں کیا لکھنا ہے اور خط کااختتام کن کن الفاظ پر کرنا ہے وغیرہ اور بے تکلف دوستوں کو کس طرح خط لکھنااور پرتکلف دوستوں کو کیاکیا لکھنا ہے وغیرہ۔اردو معلی کی تاریخ میں تو خط باقائدہ سے ایک صنف ادب کی صورت میں سامنے آیا اور اردو کے مشاہیرنے جو خطوط لکھے انہیں کتابی شکل میں جمع کیاگیا،شائع کیاگیااور ایک دنیا نے انہیں پڑھا اور انکے اسلوب کو اپنے خطوط میں اختیار کیا۔یہ وہ دور تھا جب خط اپنی سرکاری حیثیت سے نجی حیثیت کی طرف گامزن تھااور اشرافیہ سے عوام الناس میں بھی قبولیت اختیار کررہاتھا۔
ماضی قریب میں رابطوں کے تیزرفتار سلسلوں نے خط کی اہمیت کو ماند کر دیا ہے،اب خط لکھناایک تکلف سمجھاجاتاہے اور گفتگوکرنا ظاہر ہے کہ آسان ہو گیاہے اورعوام الناس آسانی کی طرف زیادہ مائل ہو گئے ہیں لیکن اس ک باوجود بھی ڈاک کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ڈاکیاآج بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے ،دروازے پر ڈاکیے کا انتظار آج بھی افسانوں اور ناولوں اور حتی کہ بعض نظموں اور غزلوں کا بھی عنوان بن جاتا ہے ۔وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاک کی اہمیت ایک بار پھر دوبالا ہوگی اور یہ خدمت نت نئے رنگوں سے انسانی زندگی کے خالی خانوں کو قوس قزع کی مانند حسن و زیبائش سے آشنا کر دے گی۔
جواب دیں