دائرے کے کنارے، پانچواں دور اور سکڑتاوقت!

 

از۔محمدقمرانجم قادری فیضی

 

 

ہم جانتے ہیں کہ دائرے کا کنارہ نہیں ہوتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر دائرے میں چلنا شروع کریں اور دُور چلے جائیں۔ خواہ بائیں طرف سے یا پھر دائیں طرف سے تو ہم ایک ہی جگہ پر پہنچیں گے۔ یہ وہ سمت ہے جس پر ہم آج چل رہے ہیں۔

 

رفتہ رفتہ شدت پسندی ہر جگہ پر بڑھ رہی ہے۔ سیاست، قانون، مذہب، اقتصادیات، تعلیمی نظام، ایتھکس یا کوئی بھی اور شعبہ ہو، دنیا بھر میں یہ رجحان واضح ہے۔ اس کے بڑھنے کے وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، وہ مختصر اور سطحی پیغامات ہیں۔ اس وقت ہمیں انفارمیشن کے سیلاب کا سامنا ہے اور ان کا سامنا کرنے اور پراسس کرنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ الیکٹرانک ذریعے سے آئے پیغامات کو پرکھنے اور سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ٹویٹر، واٹس ایپ، فیس بُک کے ذریعے پہنچنے والے مقبول ترین پیغامات میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔ یہ مختصر ہوتے ہیں۔ ایک سطر میں صرف انتہاپسند ہی اپنا پیغام ٹھیک سے پہنچا سکتا ہے۔دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ انتہاپسندی کے دو کنارے ہوتے ہیں۔ دائیں بازو کی سیاست اور بائیں بازو کی سیاست کے انتہاپسند۔ ایک مذہبی فکر بمقابلہ دوسری مذہبی فکر کے انتہاپسند۔ اخلاقیات کی پرواہ کئے بغیر بائیولوجی کی تحقیق کے حق میں سے لے کر بائیولوجی کو مکمل طور پر جکڑ دینے کا زور لگانے والے انتہاپسند یا پھر درجنوں دوسری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔یہ دو الگ کنارے صرف دیکھنے میں ہی الگ لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہاپسند اصل میں ایک ہی جگہ پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔ 

ہٹلر اور سٹالن، فکری اعتبار سے بالکل متضاد تھے لیکن ایک ہی جگہ پر آ کھڑے ہوئے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے نظریے کی بالادستئ کے لئے کئی ملین افراد قتل کروائے اور دوستی کا معاہدہ کر لیا (1939 کا ہٹلر سٹالن پیکٹ)۔ اسی طرح اگر کوئی صفر فیصد انکم ٹیکس کے حق میں ہے یا سو فیصد انکم ٹیکس کے حق میں۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے یعنی کوئی ٹیکس اکٹھا نہیں ہو گا۔ (یہ اقتصادیات میں لیفر کرو ہے)۔ یہ اقتصادی انتہاپسندوں کا ملنے کا مقام ہو گا۔

معاشرے جو شہریوں کی برابری کو اولین مقصد بنا لیتے ہیں، جلد ہی بدترین معاشی ناہمواری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ری نیو ایبل توانائی کے جنونی جو کسی بھی حل کے لئے ملنے کو تیار نہیں ہوتے اور ہر قسم کے درمیانی قدم کی مخالفت کرتے ہیں، ماحول کو اتنا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جتنا ماحول کی بالکل بھی پرواہ نہ کرنے والے۔ جانوروں کا بائیولوجی کی ریسرچ میں بے جا اور غلط استعمال کرنے والے اور جانوروں کے حقوق کے جنونی ایک ہی جتنے نقصان دہ ہیں۔ قومیت پرست ہوں یا پھر کسی بھی رائے اور کسی بھی تقسیم کے طرف کے انتہاپسند، یہ مثالیں ایسی ہی رہیں گی۔ اکیسویں صدی میں مواصلات کے ڈیجیٹل ذرائع سے رابطے شروع ہونے کے بعد یہ شدت بڑھتی جا رہی ہے اور نمایاں ہو رہی ہے۔ شاید ہم انتہاپسندی کے عہد کے آغاز پر کھڑے ہیں۔اس دائرے کے کناروں پر وہ جگہ ہے جہاں یہ انتہاپسند ملتے ہیں، رہتے ہیں اور اپنا پیغام آگے بڑھاتے ہیں۔ مخالف جذبات کو اپنی خوراک بنا کر مزید بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ 

اگر آپ ایک معتدل مزاج سمجھدار شخص ہیں تو خبروں کا کوئی بھی ذریعہ کھول لیں۔ مقبول ہونے والی خبروں پر، اداریوں پر، تجزیوں پر، خواہ کسی بھی خیال کے حق میں ہو یا مخالف، ان کو پڑھیں اور غور کریں۔ یہ پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ ان میں بڑھتی انتہاپسندی والے مواد میں کوئی خواہ دائیں طرف سے آیا ہے، خواہ بائیں طرف سے۔ بہت سے لوگ جو کناروں پر کھڑے لگتے ہیں، دراصل ایک ہی جگہ پر ہیں۔تو پھر اس میں آپ خود کہاں پر ہیں؟ اس کا ایک جائزہ آپ اپنی معلومات کے ذرائع کا تجزیہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب اپنی دنیا کے بارے میں اپنی رائے اور موقف رکھتے ہیں (اور رکھنا چاہیئے) لیکن موقف رکھنے اور انتہاپسند ہونے میں بڑا فرق ہے۔ کیا آپ انفارمیشن کے سیلاب میں تو نہیں گھر چکے جہاں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا؟ کہیں آپ کی انفارمیشن کے ذرائع مختصر ہیڈلائنز اور تصویریں تو نہیں؟ کیا آپ بلاسوچے سمجھے چیزیں آگے بتا دینے اور بڑھا دینے والوں میں سے تو نہیں؟ کہیں بے ہنگم اور بے معنی سطحی شور میں آپ اپنا حصہ تو نہیں ڈال رہے؟  کیا انفارمیشن کو تجزیاتی، تنقیدی اور گہری سوچ سے دیکھنے کی صلاحیت تو نہیں کھو بیٹھے؟ 

اگر ایسا ہے تو آپ دنیا کی اکثریت کی طرح ہیں۔ کہیں دائرے کے کناروں پر آپ اورہم اکٹھے تو نہیں کھڑے؟

پانچواں دور اور سکڑتا وقت!

انسان کی اس دنیا میں موجودگی کا ثبوت دو سے تین لاکھ سال پہلے سے ملتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان اپنے بقا کی جنگ لاکھوں سالوں سے لڑتا آیا ہے۔ اور یہ کوئی آسان سفر نہیں تھا۔ جلد ہی ہمیں احساس ہوگیا تھا کہ نہ تو ہم اس دنیا کی سب سے طاقتور مخلوق ہیں اور نہ ہی  ہمارے پاس پرندوں کی طرح اڑنے، مینڈک کی طرح پانی میں سانس لینے ، جیتے کی طرح تیز بھاگنےیا پھر گرگٹ کی طرح اپنے آپ کو ماحول میں چھپانے جیسی غیر معمولی خصوصیات ہیں۔۔۔ لیکن شاید یہ احساس ہونا ہی انسان کی سب سے غیر معمولی خصوصیت تھی۔اسی احساس کے ساتھ  اپنے اردگرد موجود "زندگی" اور اس سے ہمارے تعلق کو سیکھنے کے ہمارے پہلے دور کا آغاز ہوا۔ یہ ہم کون کون سی چیز کھا سکتے ہیں، اور کون سی چیزیں ہمارے لیے نقصان دہ ہیں؟ کیا ہم کھانے کی چیزوں کو کسی طرح محفوظ بنا سکتے ہیں؟  کون کون سے جانور خطرناک ہیں، اور کیا ان سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟ اگر ہم کوشش کریں تو کیا بندر کی طرح درخت پر چڑھ سکتے یا مچھلی کی طرح پانی میں تیر سکتے ہیں؟   خطرے کی صورت میں ہم ایک دوسرے کو کس طرح خبردار کر سکتے ہیں؟  نہ صرف  اس احساس نے ہمیں یہ سب چیزیں سیکھنے پر مجبور کیا، بلکہ یہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب بھی لے آیا۔  

تقریباً ایک لاکھ سال پہلے ہم نے افریقہ سے نکل کر دوسرے براعظموں کا سفر شروع کیا،  اور پچاس ہزار سال پہلے ابتدائی انسانی زبانیں وجود میں آئیں۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران بنیادی طور پر ہماری زندگی  ویسی کی ویسی ہی رہی۔ ہم ابھی بھی غاروں میں رہ رہے تھے،  اور خوراک کے حصول کے لیے یا تو شکار کرتے تھے، یا پھر درختوں اور جنگلی پودوں پر انحصار کیا جاتا تھا۔  اور ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں دوسرے جانوروں سے براہ راست مقابلہ کرنا پڑتا ۔ لیکن پھر   دس سے پندرہ ہزار سال پہلے کچھ ایسا ہوا جس نے یہ سب کچھ بدل دیا۔ 

اور وہ تھا "پہلا زرعی انقلاب "۔۔۔  انسان نے فصلیں اگانا اور جانور پالنا سیکھ لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہاں  انسان نے ایک طرف  گندم ، باجرہ، دالیں اور سبزیاں اگانا شروع کیں، تو دوسری طرف گائے، بھیڑ، بکریاں ، بلیاں اور مرغیاں  پالنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔   اور یہ شاید ہماری اب تک کی سب سے بڑی فتح تھی۔  اس نے نہ صرف تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمیں خوراک کے معاملے میں خود کفیل کردیا تھا، بلکہ   ہم پہلی بار بستیاں اور شہر بسا کر اکٹھے رہنے  کے قابل بھی ہوگئے تھے ۔ اور یہ واقعی ایک بڑا انقلاب تھا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔  ایک اور اہم  چیز جو اس انقلاب کے نتیجے میں  بدل گئی تھی، وہ تھا انسان  کا دوسرے جانداروں سے تعلق۔۔۔ اس  سے پہلے انسان قدرت کے "مرو یا مار ڈالو" اصول پر عمل پیرا تھا۔ وہ کچھ جانوروں کا شکار کرتا تھا تو کچھ کا شکار بن جاتا تھا۔ پھل دار درخت اور پودے اسے فائدہ پہنچاتے تھے، لیکن  جنگل میں زہریلے پودوں کی بھی کمی نہیں تھی۔  بقا کی جنگ نے ہمیشہ سے ہی  انسان کو اپنے علاوہ دوسرے جانداروں کے بارے میں جاننے پر مجبور کیا تھا، لیکن اب جبکہ انسان  اپنی مرضی سے ان جانوروں اور پودوں کی افزائش کروانے کے قابل ہوچکا تھا، ان کے بارے میں سیکھنا بھی شاید اتنا مشکل نہیں رہا تھا۔ یہ ہمارے زندگی کو سمجھنے کے دوسرے دور کا آغاز تھا۔  

حیرت انگیز طور پر سب سے پہلے انسان کی  جس جانور سے دوستی ہوئی، وہ بھورے رنگ کے چھوٹے بھیڑیوں کی ایک نسل تھی۔  اور اس  زرعی انقلاب سے پہلے ہی انسان انہیں پالنا، سدھانا اور شکار کے لیے استعمال کرنا سیکھ چکا تھا۔ اب نہ صرف یہ شکار میں مدد کرتے ، بلکہ فصلوں اور مویشیوں  سمیت  انسانی بستیوں کی بھی حفاظت کرتے۔ اس نسل کو انسان نے "کتے" کا نام دیا۔

اگلے چند ہزار سال  انسانی تاریخ کا بہت اہم حصہ تھے۔ ہم نے علم کے زور پر  ہر میدان جھنڈے گاڑے،   جیسے جیسے انسان اپنے علم حاصل کرنے، اسے محفوظ کرنے، اور اسے آگے پہنچانے کے طریقوں کو بہتر کرتا چلا گیا، ویسے ویسے ترقی کے رستے آسان ہوتے چلے گئے۔ خوراک کے ساتھ ساتھ ہم نے پودوں اور جانوروں سے  لباس، چھت اور سواری حاصل کرنے کے طریقوں کو بہتر بنایا اور سیکھا کہ کس طرح مخصوص جانوروں اور پودوں کے ملاپ سے اپنی پیدوار بہتر کی جاسکتی ہے۔  ہمیں لگا کہ شاید ہم نے جانوروں اور پودوں کے بارے میں سب کچھ سیکھ لیا ہے، لیکن تقریباً  چار صدیاں پہلے  اچانک   ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو تب تک شاید  کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔یہ تب ہوا جب1665ء میں ہم نے پہلی دفعہ خلیہ(Cell) دریافت کیا۔  یہ ہمارے لیے ایک بڑا دھماکا تھا۔ ہمیں پتا چلا کہ ہم سب الگ الگ نہیں تھے، بلکہ ایک ہی جیسی  اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ چھوٹی چھوٹی خوردبین سے نظر آنے والی اینٹیں، جن میں سے ہر ایک میں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی۔ انسان، جانور، پرندے، پودے۔۔۔ سب جانداروں کی بنیاد ایک ہی تھی۔  اور یہ تھا ہمارے جاننے کے تیسرے دور کا آغاز!

اب کی بار ہمارے سیکھنے کی رفتار تیز تھی۔ اگلے تین سو سال میں ہی ہم  بہت سے اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ہم نے خلیے کے مختلف حصے دریافت کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف اقسام کے جانداروں میں موجود خلیوں کا مشاہدہ کیا اور ان کے آپس میں تعلق کا مشاہدہ کیا۔  اس  کے اثرات خاص طور پر طب کے میدان میں نظر آئے ، جہاں ہم ہمیشہ سے چلے آتے  بہت سے تواہم سے نجات حاصل کرنے اور بیماریوں کی اصل وجوہات تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے طاعون اور چیچک  جیسی مہلک بیماریوں کے خلاف فتح حاصل کی جو اس سے پہلے بلامبالغہ کروڑوں لوگوں کی موت کا سبب بن چکی تھیں۔

 لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ جتنے ہم نے جواب حاصل کیے تھے، اس سے کہیں زیادہ سوالات کھڑے ہوگئے تھے۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جو ان خلیوں  کو جاندار بناتی تھی ؟ اور کون سی چیز تھی جو انہیں الگ الگ کرتی تھی؟ ایک ہی قسم کے خلیوں سے آخر اتنے مختلف جاندار کیسے بن جاتے تھے؟ آخر ان خلیوں کو کیسے پتا چلتا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے؟  اور بیمار خلیوں میں ایسی کون سی تبدیلی آتی تھی کہ وہ بیمار ہو جاتے تھے؟  سوالوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، یہاں تک کہ بیسویں صدی آگئی۔

انیسویں صدی کی آخری دہائیوں   میں ہی ہمارا تعارف ڈین این اے (DNA) نامی  مادے سے ہوچکا تھا، لیکن بیسویں صدی کے شروعات میں ہم نے یہ راز پالیا کہ دوہرے دھاگے جیسی شکل رکھنے والا یہ مادہ ہی دراصل زندگی کی بنیاد ہے۔ ڈی این اے دراصل ایک کوڈ ہے، بالکل ایسے جیسے کمپیوٹر کا ایک سافٹ ویئر ہوتا ہے۔ یہ سافٹ وئیر کمپوٹر کے مختلف حصوں کو بتاتا ہے کہ انہوں نے کیا کام کرنا ہے، اور کس طرح کرنا ہے۔ اس دریافت کے ساتھ ہی ہماری توجہ خلیاتی حیاتیات (Cell Biology) سے سالماتی حیاتیات (Molecular Biology) کی طرف منتقل ہو گئی، اور یہ ہمارے چوتھے دور کا آغاز تھا۔

بیسویں صدی کو کمپیوٹر کی صدی کہا جاتا ہے۔ اور کمپیوٹر کے اس زمانے میں سیکھنے کی رفتار بھی اسی حساب سے بڑھ چکی تھی۔ پہلے جتنی معلومات ہم  سالوں میں اکٹھی کر پاتے تھے، اس سے زیادہ اب دنوں میں ہورہی تھیں۔  ہم  نے پہلی بار جینیاتی اثرات کے اصل وجوہات کو جانا، اور ماحول سے ان کے تعلقات کو پرکھا۔ اس سے جہاں ہم ایک طرف پیدائشی بیماریوں کے بارے میں اپنی فہم کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے، تو دوسری طرف ہم نے اس علم کو استعمال کرتے ہوئے جانوروں اور پودوں سے  حاصل ہونے والی خوراک کو کچھ ہی عرصے میں کئی گنا تک بڑھا لیا۔  

سازشی تھیوریاں  تو شاید سینکڑوں سننے کو ملیں، لیکن اگر آپ کبھی 6 ماہ میں آدھا کلو گوشت دینے والی مرغی سے 4 ہفتے میں 2 کلو گوشت حاصل کر رہی ہیں، تو وہ اسی سائنس کی بدولت ہے۔ ان پرندوں کو نسل در نسل اسی کام کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس میں مصنوعی طور پر کچھ بھی شامل نہیں کیا گیا۔ یہی حال دودھ اور انڈوں کا بھی ہے۔ ایک پرندے سے سال میں 300 انڈے اور ایک گائے سے روزانہ 60 لیٹر سے بھی زیادہ دودھ حاصل کیا جارہا ہے۔  اگر پالتو جانوروں کی بات کریں تو صرف کتوں کی ہی 300 سے زائد اور بلیوں کی 150 سے زائد پالتو نسلیں وجود میں آ چکیں ہیں، جن میں زیادہ تر پچھلی ایک صدی میں ہی سامنے آئی ہیں۔ یہ سب ڈی این اے اور جینیاتی عمل کو سمجھ کر ہی ممکن ہوا ہے،  لیکن یہ عمل اب بھی کافی سست ہے۔  شاید اس لیے کہ صرف اسے سمجھنا کافی نہیں ہے۔

نسل در نسل تبدیلی لانے کے لیے بہت سی نسلوں کا وقت چاہئے، جو سالوں سے لے کر دہائیوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ اور خاص  طور پر ایسی تبدیلی انسانوں میں لانا تقریباً ناممکن ہے۔ تو اس کا حل کیا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم سیدھا ڈی این اے کو کھول کر اس میں  اپنی مرضی کی تبدیلی کر سکیں؟ بالکل ایسے جیسے کمپیوٹر کے سافٹ وئیر کو اپنی مرضی کی ہدایت  یا "کمانڈز(Commands)" دی جاسکتی ہیں؟  اور وہ تبدیلیاں نسلوں کا انتظار کیے بغیر  اسی وقت ظاہر بھی ہو جائیں؟ اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف ہم پیدائشی بیماریوں کا علاج بھی کر پائیں گے، بلکہ حادثات میں کھو جانے والے اعضاء کو مصنوعی طور پر اگایا جا سکے گا۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟

 اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے یہ حیاتیات کے بڑے سوالوں میں سے ایک تھا۔ مختلف  سائنسدانوں کی جانب سے ڈی این اے کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاچکی تھیں جنہیں جزوی کامیابی ملی تھی۔  لیکن بڑے پیمانے پر اسے استعمال کرنا اب بھی ناممکن ہی تھا۔ اب جبکہ ہم اس صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہو رہے ہیں، نہ صرف "کرسپر (CRISPR)"   نامی ایسی  تکنیک سامنے آچکی ہے، بلکہ  اس کو کئی جگہ پر کامیابی سے استعمال بھی کیا جاچکا ہے۔  چند دہائیاں پہلے تک فکشن ناولوں اور فلموں  میں استعمال ہونے والی "جینیاتی انجنیئر نگ (Genetic Engineering)" اب ایک حقیقت بن چکی ہے، جسے ہر اچھی یونیورسٹی میں پڑھایا جارہا ہے۔  اور یہیں سے  زندگی کو سمجھنے کے حوالے سے ایک نئے دور  کا آغاز ہوتا ہے۔

اگر ہم غور کریں تو سیکھنے کے ہر دور کو ہم نے پہلے والے سے کم وقت میں سمیٹا ہے۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا شاید غلط نہ ہو کہ اس بار ہم اس تکنیک پر قابو پانے میں اس سے بھی کم وقت لیں گے، اور ممکنہ طور پر اسی دہائی کے اندر  اس کے اثرات دیکھیں گے۔ وہ اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ سائنسی لحاظ سے کون کون سی تبدیلیاں آئیں گی؟ اور   اخلاقی مسائل کون کون سے پیش آسکتے ہیں؟ ان سوالات  پر گفتگو کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ "جینیاتی ترمیم (Gene Editing)" کی دہائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم  تیار ہیں اس "پانچویں دور" کے لیے؟

 

مضمون نگار ۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگر کے نامہ نگار ہیں،

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

12اگست2020(فکروخبر)

«
»

یومِ آزادی: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟

مرحوم مظفر کولا : خادم نونہال ، تاجر خوش خصال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے