ڈابھیل :خوف ودہشت کے سائے میں جیتی عورتیں، مرد اور بچے!

یہ گجرات کے ضلع نوساری کے مشہور ومعروف گاؤں ڈابھیل کے اُن مظلومین کی صرف ایک تصویر ہے جو 7؍اکتوبر سے پولس اورانتظامیہ کی زیادتیوں کے شکارہیں۔ڈابھیل ‘وہ گاؤں ہے جو کبھی حضرت مولاناانورشاہ کشمیریؒ ،حضرت مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ،حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ ،حضرت مولانا ابراہیم بلیاویؒ ، حضرت مولانا یوسف بنوریؒ اورایسے ہی بے شماردوسرے ائمہ کرام کامرکز اور مسکن رہا ہے، اور آج بھی مولانا احمد بزرگ اور مفتی احمد خانپوری جیسے جلیل القدر علماء وفضلاء بستے ہیں، جس کی فضا قال اللہ اورقال الرسولؐ کی صداؤں سے گونجتی رہی ہیں اورجہاں مشہورومعروف ’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین‘کی برکت سے رحمت کی گھٹائیں چھائی رہی ہیں، لیکن اب سارے ڈابھیل پر خوف وہرا س کی ایسی فضا چھائی ہوئی ہے جسے اس گاؤں کے ہرمحلے میں قدم رکھتے ہوئے محسوس کیا جاسکتاہے۔
مَیں ڈابھیل‘ 10؍نومبر کے روزپہنچا تھا۔یہ پیر کادن تھا ۔اس سے ایک روز قبل یعنی 9؍نومبر اتوار کی شام پولس ڈابھیل کے اونچا محلہ میں گھسی تھی اور فاطمہ شفیع موہتا نامی ایک 40سالہ خاتون کو گھسیٹ کر جیپ میں ڈال کر یہ بتائے بغیر لے گئی تھی کہ اس کاقصور کیاہے!فاطمہ تین بچوں کی ماں ہے،اس کی سگی ماں 72؍سالہ رشیدہ روتے روتے بتاتی ہیں کہ ’’پولس والے آئے اور ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے میری بیٹی کو جیپ میں بٹھایا اور لے کر چلے گئے۔‘‘یہ دریافت کرنے پر کہ کیا ’لیڈیزپولس‘ تھی ‘پتہ چلا کہ تمام پولس والے ’مرد‘تھے ا ن کے ساتھ کوئی خاتون نہیں تھی حالانکہ قانوناً شام کے 6بجے کے بعدبغیر کسی خاتون پولس والی کے کسی بھی عورت کو حراست میں نہیں لیاجاسکتا۔
ڈابھیل کے اونچامحلہ میں اس وقت صرف عورتیں نظر آتی ہیں‘جو بے حد ڈری اور سہمی ہوئی ہیں۔کچھ ضعیف العمر مردبھی نظرآتے ہیں لیکن نوجوان گرفتاری کے خوف سے اِدھر اُدھر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔حفصہ نامی ایک عمر درازخاتون بتاتی ہیں کہ ’’پولس والے آکرپریشان کرتے ہیں،ہم عورتوں سے کہتے ہیں کہ پولس سے مار پیٹ میں تم سب شامل تھیں،ہم سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری زمین کہاں ہے،تمہاری کھیتیاں کہاں ہیں،پھر یہ دھمکی دیتے ہیں کہ ہم تمہارے کھیت جلادیں گے اور سب برباد کردیں گے۔‘‘ایک خاتون مزید بتاتی ہیں کہ ’’پولس والے دھمکاتے ہیں کہ تمام عورتوں کواٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘
پولس کی دھمکی صرف دھمکی نہیں ہے۔
اب تک 60؍افراد حراست میں لے گئے ہیں جن میں تقریباً پندرہ عورتیں ہیں۔عورتوں کے خوف ودہشت کی وجہ بھی سامنے ہے۔اونچا محلہ کے 45؍سالہ اسماعیل کو 13؍اکتوبر کے روزپولس نے گرفتار کیا تھا۔اس روزجب پولس اسماعیل کے مکان میں گھسی توگھر کی عورتوں کے بقول’’فریج کھول کر اس میں سے انہوں نے گوشت نکالا اورآگ میں ڈال کر جلادیا اورجوکھانا ہم نے پکایا تھا اس پر مٹی کا تیل انڈیل دیا۔‘‘بغل کے گھوڑا محلہ جب پولس پہنچی توبندوقوں کے کندوں سے دروازوں اورکھڑکیوں پرایسے وار کیے کہ وہ ٹوٹ گئے ۔پھر پولس نے نوی نگری محلہ کارخ کیااو ر وہاں بھی دہشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا۔7؍اکتوبر سے ڈابھیل کے لوگوں کو خوفزدہ اور ہراساں کرنے کاجوسلسلہ شروع کیاگیا تھا وہ تادم تحریر جاری ہے۔9؍نومبر اتوار کے روزپولس نے ڈابھیل سے لگے ہوئے آشناگاؤں پرچھاپہ مار کر ایک 67سالہ بزرگ ریاض کپاڈیہ کو بھی گرفتار کیا تھا۔پولس کسی کونہیں چھوڑ رہی ہے۔مسلم لیڈر کو بھی نہیں۔شاہدہ عثمانی کانگریسی لیڈر اور تعلقہ ممبر ہیں،وہ بھی جیل میں ہیں ،جب ان کے شوہر زاہد عثمانی یہ پوچھنے کے لیے کہ بھلا ان کی اہلیہ کو کیوں گرفتار کیاگیا ہے، حکام کے پاس پہنچے تو انہیں بھی پکڑکر جیل میں ڈال دیاگیا۔پولس کا دعویٰ ہے کہ جنہیں گرفتار کیا گیا ہے وہ سب کے سب’مجرم ‘ہیں،انہوں نے پولس پرحملہ کیاہے،گائے کا ذبیحہ کیاہے اور مجرموں کو ’پناہ‘ دی ہے۔ جو گرفتار ہیں وہ توہیں ہی،پولس نے تقریباً 125؍ افراد کی ایک فہرست اور تیار کر رکھی ہے،جس میں ان کے نام شامل ہیں جنہیں مذکورہ الزامات کے تحت گرفتار کیاجاناہے۔پولس کے مطابق یہ سب کے سب یاتوروپوش ہیں یا مفرور ہیں۔ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس فہرست میں بہت سے ایسے نام بھی ہیں جویاتوفوت ہو چکے ہیں یا برسوں سے بیرون ملک میں مقیم ہیں!
یہ سب کیسے شروع ہوا؟یہ سوال اہم بھی ہے اورقابلِ غور بھی۔اہم اس لیے کہ اس سوال کے جواب سے جہاں پولس کی عصبیت اورجانبداری واضح ہو تی ہے وہیں اس سوال کے جواب سے یہ سچائی بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ڈابھیل کے مسلمان بھی ساری دنیا کے مسلمانوں ہی کی طرح انتشار،آپسی عداوت ورنجش اور ایک دوسرے کی مخبری کے انتہائی مہلک مرض کے شکار ہیں۔مذکورہ سوال پر غورکرنے سے یہ سچ بھی سامنے آتا ہے کہ قوم کے لیے کام کرنے سے کہیں زیادہ قوم کے لیڈراپنی شہرت اور اپنے نام ونمود کے خواہاں ہیں اوراگر کوئی ایک قوم کا کام کرتانظربھی آتا ہے تواس کے پیرگھسیٹ لیتے ہیں۔
ہنگامے کی شروعات 7اکتوبر یعنی بقرعید کے دوسرے روز سے ہوئی تھی۔ ویسے ایک غیر مرئی کشیدگی پہلے سے موجود تھی۔ بقرعید کے مدنظر پولس نے ’گؤکشی‘ روکنے کے لیے تلاشی مہم شروع کررکھی تھی۔ واضح رہے کہ ڈابھیل اور اس سے ملحق گاؤں سملک کی آبادی خالص مسلم آبادی ہے۔ اطراف میں پندرہ پندرہ کلو میٹر تک کے گاوؤں میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ نوساری شہر میں بھی خاصی تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔ ’واپی سے لے کر تاپی تک‘ کا یہ علاقہ ابتداء سے پرامن رہا ہے۔ ڈابھیل تو امن کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ دوہزار مکانات پر مشتمل ہے۔ گاؤں والے کاشتکار ہیں۔ ان کے ہرے بھرے کھیت ہیں، بہت سے لوگ بیرون ممالک میں مقیم ہیں بالخصوص جنوبی افریقہ ، خلیج، یوروپ اور امریکہ وغیرہ میں۔ لوگ خوشحال ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے عصری تعلیم سے لوگ کم مستفیض ہوتے ہیں مگر دینی تعلیم سے ہر گھر کے بچے فیض اٹھاتے ہیں۔ چونکہ یہ مسلمانوں کی اور وہ بھی خوشحال کھاتے پیتے مسلمانوں کی بستی ہے اور یہاں ایک سو دس سالہ قدیم مدرسہ بھی موجود ہے جسے ’دارالعلوم دیوبند ، ثانی‘ سمجھا جاتا ہے اور چونکہ یہاں کبھی کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوا ہے، 2002ء میں بھی نہیں اس لیے یہ گاؤں بہت سے متعصب ذہن افراد کی نظروں میں کھٹکتا رہا ہے لہٰذا اگر یہ کہاجائے کہ 7اکتوبر کو جو ہوا وہ ’منصوبہ بند ‘اور سوچی سمجھی سازش تھی تو غلط نہیں ہوگا۔ مگر ساتھ ہی اگر یہ بھی کہا جائے کہ یہ سازش گاؤں والوں کی عصری تعلیم کے حصول سے کوتاہی اور حالات حاضرہ سے ناواقفیت اور آپسی عداوت اور رنجشوں اور نااتفاقیوں کے سبب کا میاب ہوئی تو غلط نہیں ہوگا۔ ڈابھیل والے خوب واقف تھے کہ ’گؤ ررکشھا‘ کے علمبردار اور ٹھیکیدار سرگرم ہیں۔ ایک نام ساجن بھرواڑ کا بار بار گاؤں والوں کے سامنے آتا بھی رہا ہے مگر گاؤں والوں نے انتظامیہ اور پولس کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرکے نہ کوئی شکایت کی اور نہ ہی اس خدشے کا اظہار کرکے کہ بقرعید کے موقع پر انہیں ’گؤ رکشھا‘ والے ستا سکتے ہیں اپنے بچاؤ کی کوئی پیش بندی کی۔ ’گائے ذبیحہ‘ کا شورمچا، پولس نے صبح ہی صبح گاؤں پر چھاپہ مارا اور محمد فقیر حمزہ اورحمید بھائی کلنگ نامی دو افراد کو پکڑ کر جیپ میں بٹھالیا۔ اس کے بعدجو ہوا وہ قابل غور ہے۔ پولس جیپ میں ایک سادہ لباس شخص بیٹھا تھا جس نے وہاں جمع بھیڑ سے جس میں عورتیں بھی تھیں کہا کہ ’’اب ان دونوں کی لاش ہی گھر واپس آئے گی‘‘۔ بس کیا تھا ایک اشتعال پیدا ہوا، ہنگامہ شروع ہوا، شور شرابہ سن کر نیند سے جاگتے نوجوان بھی دوڑے اور دوسرے افراد بھی، چار پولس والو ں کو دبوچنے کی کوشش کی گئی، پولس نے فائر نگ کی اور دو نوجوان زخمی ہوکر گرپڑے۔ اس کے بعد ڈابھیل پولس والوں کے لیے اسی طرح ’مشق‘ کا ایک ’تختہ‘ بن گیا جیسے کہ پستول چلانے والوں کے لیے ’نشانے کا بورڈ‘۔ 
یہ بات بے حد واضح ہے کہ پولس اشتعال پھیلاناچاہتی تھی۔ گائے کے ذبیحے کی افواہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی۔ پولس نے عید اورباسی عید کی درمیانی شب چھاپہ مار کر گاؤں میں دہشت پھیلائی اور صبح جب دو لوگوں کو پکڑ کر لے جانے لگی تو ایک ایسے شخص سے جو پولس والا نہیں تھا یہ کہلا کر کہ یہ ’زندہ واپس نہیں آئیں گے‘ گاؤں والوں کو اکسایا اورایسے حالات پیدا کیے کہ گاؤں والے پولس والوں پر حملہ کردیں، ایسا ہی ہوا اورپولس نے گولیاں چلادیں، دو نوجوانوں کو زخمی کیا اور اب گرفتاریوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ 
جن دو نوجوانوں کو پولس کی گولیاں لگی ہیں ان میں سے ایک کا نام محمد سلیم ہے۔ 22سالہ اس نوجوان کے دوبھائی ، دو بہنیں ہیں، والدین ہیں جو گولی لگنے کے سانحہ کے وقت برطانیہ میں تھے، مگر اب ڈابھیل پہنچ چکے ہیں۔ محمد سلیم ڈابھیل میں ہی کھیتی باڑی کا کام سنبھالتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’صبح کا وقت تھا، شور کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی او رمیں بس گھر کے دروازے سے باہر نکلا ہی تھا کہ پولس کی گولی آئی اور میری بائیں ٹانگ میں جانگھ کے اوپر ہڈی توڑتے ہوئے جاگھسی، میں تو بس آنکھیں مل مل کر یہ جاننے کی کوشش کررہاتھا کہ یہ شور کیوں ہورہا ہے‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ اسے گولی پی ایس آئی سونی نے ماری تھی۔ گولی سے زخمی ہونے والے دوسرے نوجوان کا نام عیسیٰ یوسف چنارا ہے، اس کی عمر محض 18سال ہے۔ یہ سوات کے کوسمبا کے ایک تعلیمی ادارے میں الیکٹرانک انجینئرنگ کے پہلے سال کا طالب علم ہے۔ والدین کے علاوہ اس کے دوبھائی اور دو بہنیں ہیں۔ نوساری کے یشفین اسپتال میں ۔۔۔جو مسلمانوں کا ایک شاندار اسپتال ہے۔ ۔۔۔ اپنے کھاٹ پر پڑے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ ’’میں اونچا محلہ میں رہتا ہوں، اس روز صبح کے وقت میں اپنے خالوکے یہاں دودھ دینے نئی نگر ی کے محلے میں جارہاتھا، میں نے وہاں دیکھا کہ پولس کی ایک جیپ کھڑی ہوئی ہے، جیپ کو دیکھ کر میں کھڑا ہی ہوا تھا کہ بائیں پیر میں پولس کی گولی آلگی اور میں گرپڑا‘‘۔ عیسیٰ کو بھی پی ایس آئی سونی نے ہی گولی ماری تھی۔ عیسیٰ کے 22سالہ بھائی زکریا کوپولس گرفتار کرکے لے جاچکی ہے۔ عیسیٰ اور زکریا کی والدہ امینہ بتاتی ہیں کہ ’’زکریا پہلے سے کھیت میں تھا، اسے کھیت ہی کے کپڑوں میں ہی پولس یہ کہہ کر لے گئی کہ پوچھ تاچھ کرکے ہم چھوڑ دیں گے مگر آج تک نہیں چھوڑا ہے، اور میرا عیسیٰ تو عید کی چھٹیوں میں گھر آیا تھا، اس کا امتحان تھا، اب تو اس کا کالج بھی شروع ہوچکا ہے‘‘۔ امینہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’ پولس والے آئے دن کومبنگ کے لیے آدھمکتے ہیں، بہت ڈرلگتا ہے‘‘۔ 
پولس کی گرفتاری کا انداز یا طریقہ ’بیجا‘ ہی کہلائے گا۔ عبدالقیوم کی گرفتاری کی مثال سے بات واضح ہوجائے گی۔ عبدالقیوم بجنور کے رہنے والے ہیں، ڈابھیل روزی روٹی کے لیے آئے ہیں، ڈرائیور ہیں، ان کی بیوی شہناز بتاتی ہیں کہ ’’ہم لوگ سورت اپنے رشتہ داروں کے یہاں گئے ہوئے تھے، ہماری غیر موجودگی میں پولس نے گھر کا تالا توڑا، گھر کی تلاشی لی، جب ہم سورت سے آئے تو تالا ٹوٹا پڑا تھا۔ 16اکتوبر کو میرے شوہر گھر کو آئے تو پولس انہیں پکڑ کر لے گئی جبکہ ہنگامے والے دن وہ ڈابھیل میں نہیں کام پر تھے‘‘۔ 
گرفتاریاں ہنوز کیوں ہورہی ہیں، اس سوال کے جواب میں آشنا گاؤں کے سابق سرپنچ یوسف علی ڈو گرات، جنکا تعلق کانگریس سے ہے، بتاتے ہیں کہ ’’یہ سب عداوت اور اختلافات کے سبب ہورہا ہے‘ پولس کو نئے نئے نام دئیے جارہے ہیں، بس دشمنی اور عداوت کے سبب ۔۔۔جب ریاض کو کل پولس لے گئی تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ ریاض کو کیوں لے جایا جارہا ہے، بس یہ کہا کہ ’تمہارے ہی لوگوں نے ان کا نام لکھایا ہے، یہ سب سیاست کا کھیل ہے، سچ کہیں دب گیا ہے، ڈابھیل کا سچ صرف یہ ہے کہ کیا بی جے پی والے اور کیا کانگریس والے سب ہی اپنا اپنا مطلب نکال رہے ہیں‘‘۔ 
کانگریسی لیڈروں کا ایک گروپ ڈابھیل آیا تھا، جو لوگوں کو دلاسہ دے کر اور یہ کہہ کر واپس چلاگیا کہ وکلاء کی ٹیم بنائیں گے مگر بات آگے نہیں بڑھی۔ 
نوی نگر محلہ کے مولوی نذیر صاحب اس پر زور دیتے ہیں کہ ’’متحدہوکر کام کرنا ضروری ہے‘‘ اور یہ سچ بھی ہے کیوں کہ پولس نے ایک ایک شخص پر پندرہ سے بیس دفعات کے تحت معاملات درج کیے ہیں تاکہ ضمانت آسانی سے نہ مل سکے۔ اچھے وکیل کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی بھی آگے آئے ہیں اور جمعےۃ علماء ہند کے قائد مولانا سید محمود مدنی بھی۔ جمعےۃ کے دونوں دھڑوں نے نہ صرف یہ کہ انتظامیہ اور حکومت پر دباؤ بنایا ہے بلکہ قانونی اقدامات بھی کیے ہیں۔ ڈابھیل کی قدیم جامعہ کے استاد مولانا عثمان غنی ہاشم علی (59سال)کی ضمانت مولانا محمود مدنی کی کوششوں سے ہی ممکن ہوسکی ہے۔ 
مولانا عثمان 35سال سے ڈابھیل کی جامعہ میں مدرس ہیں، عربی زبان کے استاد ہیں۔ جس روز ڈابھیل میں ہنگامہ ہوا تھا وہ کوئی چودہ کلو میٹر دور اپنے گاؤں ٹیلا ڈا میں تھے، ان سے ان کا ایک شاگر محمودالحسن بشیر شیخ 7اکتوبر کو ملاقات کے لیے آیا تھا، پولس نے یہ الزام عائد کرکے کہ مولاناعثمان نے اپنے شاگر د کو جو کہ ڈابھیل ہنگامے کا ملزم ہے ’پناہ‘ دی ہے، انہیں گرفتار کرلیاتھا۔ یہ بات الگ ہے کہ جس روز مولانا عثمان سے ان کا شاگرد ملاقات کے لیے آیا تھا اس روز اس کا نام ’ملزمین‘ کی فہرست میں نہیں تھا لہذا یہ الزام کہ مولانا عثمان نے اسے پناہ دی ہے، بے بنیاد ہوجاتا ہے۔ 
پولس تردید کررہی ہے کہ وہ ڈابھیل کے مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے۔ نوساری کے ایس پی نیلیش جاجڑیا سے جب میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑے ہی صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ہم صرف انہیں ہی گرفتار کررہے ہیں جنہوں نے پولس پر حملہ کیاتھا اور تفتیش کے بعد ان کی مزید گرفتاریاں ہوں گی جو ملوث ہیں، کسی بھی قصور وار کو میں چھوڑوں گا نہیں، پیچھے پڑا رہوں گا چاہے سال دو سال لگ جائے ‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں کسی کو حاضر بھی نہیں کرارہا ہوں بلکہ میری پولس خود جاکر لوگوں کو گرفتار کررہی ہے‘‘۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ’’ہم نے گرفتاری کے بعدجو بے قصور پائے گئے انہیں چھوڑا بھی ہے، اورجہاں تک عورتوں کی گرفتاری کی بات ہے تو یہ وہ عورتیں ہیں جو پولس سے مارپیٹ والے ہجوم میں شامل تھیں، ہم نے کسی کو ہراسا ں نہیں کیا، ہراساں اگر کریں گے تو کوئی گاؤں میں کیا رہ سکے گا‘‘؟ 
ایس پی کے اس سوال کا جواب کوئی کیا دے! 
پولس کو راتوں کو گاؤں میں گھستی ہے، لیڈیز پولس کی غیر موجودگی میں عورتوں کو گرفتار کرتی ہے، کھانے میں مٹی کا تیل انڈیلتی ہے، کسی کو دیکھ کر ’پکڑوپکڑو‘ چلاتی ہے اور جب وہ بھاگتا ہے تو دوڑ کر پکڑ لیتی ہے، پولس کا اعلیٰ افسر کہتا ہے کہ اگر میں ہوتا تو سینے پر گولیاں چلاتا، دھمکی دی جاتی ہے کہ کھیتیاں جلادیں گے، کاروبار تباہ کردیں گے، سب عورتوں کو جیل کے حوالے کردیں گے، پھر بھی دعویٰ کہ ہراساں نہیں کرتے! یہ ہراساں کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ بہرحال ڈابھیل ایک نشانہ ہے، مسلمانوں کو خوف ودہشت میں مبتلا کرکے بے بس کرنے کا ایک منصوبہ ہے جس پر عمل ہورہا ہے۔ اگر مسلم جماعتیں ، تنظیمیں نہ جاگیں اور ڈابھیل کے لوگ متحد نہ ہوئے تو یہ منصوبہ مکمل طور پر نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ سارے ملک میں ہر جگہ اسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ 

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے