اور بعض تو گنواں بیٹھتے ہیں مگر اس کا انہیں احساس و ادراک تک نہیں ہوتا، کیسے اور کیوں؟؟ بس یہی نکتہ آج ہمارے لئے دعوت و فکر دے رہا ہے، ایک مسلمان کو تو ان چیزوں سے حد درجہ نفرت ہونی چاہئے،کیوں کے جو چیزیں بنا بنا کر پیش کی جا رہی ہیں اس کی نسبت کیا ہے ؟اس کا علم مسلمانوں کو ایک حد تک توہے ، مگر اکثریت فکری ارتداد کا شکار اسمیں ملوث نظر آتے ہیں، در اصل یہ کرسمس جومنائی جاتی ہے وہ اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے نام پر ہے مگر انتہائی گلو کے ساتھ یعنی اللہ رب العالمین پر بہتان عظیم باندھ کر عیسیٰ ابن مریم کی جگہ نعوذبا للہ عیسیٰ ابن اللہ، اللہ کا بیٹا بنا کر بیش کرتے ہیں، جو گھناونا جرم ، سراسر جھوٹ ،ظلم اور شرک عظیم ہے ، اور اسلام یعنی توحید کی ضد ہے،پھر کیسے مسلمان اس میں موافقت اختیار کر سکتا ہے؟اگر کوئی اس میں بھی مصالحت کی بات کرتا ہے تو پھر کہاں رہا ایمانِ ؟کیا کفر و شرک اور عقیدۂ توحید پر کوئی مصالحت ہے؟ کیا سورۃ کافرون بھول گئے؟ اسی لئے تو خالق کائنات نے انبیا و رُسُل بھیج کر انسانوں تک یہ پیغام پہنچاتا رہا،مگر پیغمبروں کو اس آواز کے بلند کرنے پر ستایا ومارا پیٹا گیا ،یہاں تک کہ کسی کو آرے سے بھی چیرا گیا ۔ہمارے نبی اور آخری پیغمبر اسلام محمدﷺ کو بھی صرف اسی وجہ سے انتہائی درجہ تک ستایا گیا اور جو ممکن ہوسکا جسمانی و روحانی اذیتیں دی گئیں، اور قتل کی سازشیں کی گئیں۔پیارے رسول ﷺخود فرماتے ہیں کہ جس کا مفہوم ہے::جتنا مجھے ستایا اور دھمکایا گیا اس(توحید) دین کے لیے کسی اور نبی کو نہیں ستایا گیا::صرف انتا نہیں جو بھی ایک اللہ معبودِ برحق یعنی لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ان تمام کو نامساعد حالات سے گزرنا پڑا اور طرح طرح کی تکالیف کو برداشت کرنا پڑا ہے اور ان میں مرد و زن دونوں برابر شامل رہے،کیا مسلمان حضرت آسیہ( فرعون کی بیوی) او ر حضرت سمیہ رضی اللہ اور دیگروں کی بے مثال قربانیوں کوبھول گئےِ؟ ایک کو تو کھولتے ہوؤ تیل میں ڈالا گیا ،دوسری کو تو ابوجہل ملعون نے شرم گاہ پر برچہ مار کر شھید کر دیا تھا،اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سینکڑوں واقعات ایسے ملیں گے، جن کو اس توحید کا نعرہ یا آواز بلند کرنے پر نا قابل برداشت حد تک پیٹ کر اس کلمۂ توحید سے ہٹانے کی کوشش کی گئی،اور کسی کو انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ آگ انکے جسم کی چربی پگھلنے سے بجھ جاتی تھی ،تپتی اور گرم ریت پر لٹا کر سینہ پر چٹان رکھ کر گھسیٹا جاتا ، اور کوڑے مار کر کہا جاتا کہ یا تو کلمۂ طیبہ کو چھوڑ دو یا اس حال میں مرجاؤ ،تکلیف دینے والا تھک جاتا مگر احد احد کی صدا بلند کرنے والا یعنی اللہ ایک کہنے والا نہ تھکتا ،نہ ہی اس کلمۂ طیبہ کے اقرار سے بعض آتا۔۔۔۔صرف عماؓر صہیبؓ، خببیبؓ ،زیدؓ اور خبابؓ و بلالؓ حضراتِ صحابہؓ کو پڑھ لیجئے،اسی طرح بعد والوں نے بھی اس توحید پر قائم رہنے اور اس توحید کے نعرہ کو بلند کرنے کے لئے بہت کچھ سعوبتوں کو جھیلا ہے، اور بے شمار قربانیوں کو پیش کیا ہے،اور یہ ان کا ہم پر احسان ہے اسلئے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،جس کے نتیجے میں یہ دین ہم تک پہنچا ہے مگر افسوس آج ہم چند کوڑیوں کے خاطر اپنا ایمان کا سودہ کر بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم میں سے اکثر اس (کرسمس پر) مدعی توحید کی طرف سے ملنے والے تحفوں و آشیاء خوردنوش ودیگر پیشکش کی طرف للچاتی نظروں سے نہیں دیکھتے ؟ سوچئے عقید�ۂ توحید اور ایمان کے آگے اس کی کیا حقیقت؟ ہمارے اسلاف نے تو بڑی بڑی پیشکش یہاں تک کہ حکومتوں کے تحائفوں و جاگیروں اور حکومت میں حصّہ داری دینے کے وعدوں کو بھی ٹھکرا کر ہم تک یہ توحید(اسلام) کے پیغام کوپہچایا ہے، اور یہی تو ہماری اصل میراث ہے، اگر یہ باقی نہیں رہی تو سب بیکار ہے ، اسلئے ہمارے لئے
ہر حال میں اسکی نگہداشت یا حفاظت انتہائی درجہ تک کرنا لازمی ہے ،ورنہ دنیا وآخرت کی ذلّت و رسوائی سے نکلنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا، اور پھر سے اور بڑے دکھ و افسوس سے یہی کہنا پڑیگا ۔۔۔گنواں دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی،
جواب دیں