کورونا سے زیادہ خطرناک ہے نفرت کا وائرس

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

دنیا بھر میں کورونا سے 6474 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، اور قریب پونے دو لاکھ سے زیادہ اس سے متاثر ہیں۔ کورونا سے ایک ہی دن میں 417 لوگوں کی جان گئی۔ چین کے بعد اٹلی اور ایران میں سب سے زیادہ موتیں ہوئی ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، روزانہ نئے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ کورونا کے بڑھتے قہر کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے اسے مہا ماری تو دنیا کے بیشتر ممالک نے قومی آفت قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کو پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف بند کرنا پڑا۔ زائرین کی آمد پر پوری طرح پابندی لگادی گئی۔ خود بھارت میں کورونا کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مہاراشٹر میں 33 اور کیرالہ میں کورونا کے 23 متاثرین پائے گئے ہیں۔ اسی کے ساتھ پورے ملک میں متاثرین کی تعداد 114 ہو گئی ہے۔ کیرالہ نے وائرس سے بچنے کے لئے قابل ذکر تدابیر اختیار کی ہیں۔ حکومت ہند نے بیماری کے پیش نظر سفارتی و ناگزیر ضرورت کے علاوہ 33 ممالک سے آمد و رفت پر پابندی لگا دی ہے۔ اسکول کالج بند کر دیئے گئے ہیں۔ عدالتوں کو انتہائی ضروری معاملوں کے علاوہ عام مقدمات کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ دہلی حکومت نے جم نائٹ کلب اور ان تمام میٹنگوں پر پابندی لگادی ہے جن میں پچاس لوگ شریک ہوں۔ شادی کی پارٹی کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے البتہ صلاح دی گئی ہے کہ اگر ممکن ہو تو شادی کو ملتوی کردیا جائے۔
 
کورونا کے مریض میں نمونیا جیسی علامات پائی جاتی ہیں۔ زکام، کھانسی، تیز بخار، سر میں درد، سانس لینے میں تکلیف اور دیکھنے میں پریشانی۔ یہ وائرس ایسے وقت پھیلا ہے جب موسم بدل رہا ہے۔ عام طور پر اس وقت نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار ہو جاتا ہے۔ قدرتی طور پر ہمارا جسم اپنے آپ کو آنے والے موسم کے لئے تیار کرتا ہے۔ بدلتے موسم کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ کیوں کہ جو لوگ پہلے سے کسی متعدی بیماری سے متاثر ہیں ان کو یہ اپنی چپیٹ میں لے سکتا ہے۔ بزرگوں کو اس سے زیادہ خطرہ ہے۔ ان میں قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بیماری کی زد میں آ سکتے ہیں۔ یہ وائرس رابطہ کی وجہ سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ بھارت میں کووڈ-19 دوسرے مرحلے میں ہے۔ اس لئے احتیاط برتنے سے بچاؤ ممکن ہے۔ بھارت میں آبادی کی کثافت Density  بہت زیادہ ہے اگر بیماری تیسرے مرحلے میں داخل ہو گئی تو کتنا نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے حکومت نے ایڈوائزری جاری کر کہا ہے کہ کھانستے یا چھینکتے وقت ٹشو پیپر یا رومال سے منھ کو ڈھکیں۔ ٹشو پیپر کو کوڑے کے بند ڈبہ میں پھینکیں۔ اور ایک میٹر کا فاصلہ بنا کر رکھیں۔ 

کووڈ – 19 سے لوگ اس لئے بھی خوفزدہ ہیں کہ نہ تو اس کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس سے بچاؤ کے لئے کوئی ٹیکہ بنا ہے۔ خوف کا عالم یہ کہ راتوں رات بازار سے سینی ٹائزر اور ماسک غائب ہو گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماسک وائرس کو نہیں روک سکتا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس طرح کی بیماریوں کا ڈر دوا کمپنیوں کے لئے کتنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بیماریوں کی دہشت پھیلانے میں دوا کمپنیاں بھی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں کو کہنا پڑا کہ صابن سے ہاتھ دھونے اور فاصلہ بنا کر رکھنے سے بھی کووڈ-19 سے بچا جا سکتا ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ احتیاط اور موجود علاج کی وجہ سے کورونا کے کئی مریض ٹھیک ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کو بائیلوجیکل ہتھیار بتایا جا رہا ہے۔ جسے معاشی طور پر کمزور کرنے کے لئے چین کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ سچائی جو بھی ہو لیکن یہ وائرس دنیا کے لئے بڑی آفت بنا ہوا ہے۔ جس سے نبٹنے کی تمام ممالک اپنے اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت بھی اس معاملہ میں بہت سنجیدہ ہے اس نے سارک ممالک کو کورونا وائرس سے بچانے کے لئے مل کر کام کرنے کا اعلان اور بڑا فنڈ مختص کیا ہے۔ 

بہر حال کورونا وائرس کا اثر تو کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جائے گا۔ سائنسداں اس کا علاج بھی ڈھونڈ ہی لیں گے۔ لیکن بھارت کی فضاؤں میں نفرت کا جو وائرس پھیلایا گیا ہے، اس کا اثر کب ختم ہوگا؟ یہ وائرس ملک کے لئے کتنا مہلک ہو گیا ہے اس کا اندازہ دہلی کے فساد سے ہوتا ہے۔ اسے موجودہ حکومت کے اکثریت وادی نظریہ کی وجہ سے تقویت ملی ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ یہ سوچ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت کا کوئی بھی فیصلہ اکثریت کا فیصلہ ہے اور اس کی مخالفت گویا اکثریت کی مخالفت ہے۔ بہت سے کم سمجھ لوگ اس خام خیالی کا شکار ہوئے۔ اور شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھ نے لگے۔ جبکہ شہریت قانون کی مخالفت ہندوؤں کی مخالفت نہیں بلکہ اس قانون کی مخالفت ہے جس کی زد غریب، دلت، کمزور اور اقلیتی طبقے پر پڑنے والی ہے۔ عام آدمی ہی نہیں پولس، انتظامیہ یہاں تک کہ فوج اور عدلیہ بھی اس زہر سے محفوظ نہیں ہے۔ اس کے لئے حکومت کا رویہ بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ سماج میں نفرت کا وائرس پھیلانے والوں حکومت و انتظامیہ کے ذریعہ نظر انداز کئے جانے جانے کی وجہ غیر سماجی عناصر کے حوصلے بلند ہوئے۔ وہ کچھ بھی کریں ان سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی یہ سوچ پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجہ میں بھیڑ تشدد کا حصہ بننے لگی۔ گزشتہ سالوں میں ملک بھیڑ کے ذریعہ تشدّد کے کئی واقعات کا گواہ بن چکا ہے۔ دہلی کا فساد نفرت کے وائرس اور اکثریت وادی سوچ کے پھیلاؤ کی تاز? مثال ہے۔ 

دہلی انتخابات کے دوران مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما، یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ، بی جے پی کے امید وار کپل مشرا اور خود وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح کی نفرت آمیز زبان استعمال کی اس پر بی جے پی حکومت یا پارٹی نے کوئی بازپرس نہیں کی۔ فساد سے ایک دن قبل کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیان پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ دہلی ہائی کورٹ میں مشرا کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ جب جسٹس مرلی دھر نے دہلی پولس سے کپل مشرا پر ایف آئی آر درج نہ کرنے پر جواب طلب کیا تو ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ سماجی کارکن ہرش مندر نے اس معاملے کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھا تو عدالت کو گمراہ کر ایک ماہ کا وقت لے لیا گیا۔ کپل مشرا کو انعام کے طور پر سیکورٹی فراہم کر دی گئی۔ اتنا ہی نہیں جس پولس کے فسادیوں کے ساتھ شامل ہونے کے ویڈیو وائرل ہوئے اور پوری دنیا نے اس پر اعتراض کیا، پارلیمنٹ میں اسی پولس کی پیٹھ تھپتھپائیں گئی۔ حزب اختلاف کی یک زبان فسادات پر بحث کی مانگ کو بھی ہولی کے بعد تک کے لئے ٹال دیا گیا۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جن سے حکومت کی نیتی اور نیت کا پتہ چلتا ہے۔ 
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سماج سے نفرت کے وائرس کا اثر ختم کرنے کے لئے رواداری، یکجہتی، باہمی روابط اور بھائی چارے کے سینی ٹائزر کو عام ہونا چاہئے؟ کیا حکومت کو کورونا کی طرح نفرت کے وائرس سے لڑنے کے لئے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے؟ بیماری سے صرف ایک انسان کی زندگی کا نقصان ہوتا ہے لیکن نفرت پورے سماج کو تباہ کر دیتی ہے۔ بھارت تکثیری ملک ہے جو اپنی متنوع ثقافت، رنگا رنگی اور رواداری کے لئے مشہور ہے۔ شمال مشرقی دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران بھی ہندو مسلم اتحاد، انسانیت اور بھائی چارے کی کتنی ہی کہانیاں سامنے آئیں۔ اس سے ہی امید بندھی ہے کہ بھارت میں اکثریت وادی ریاست کے قیام اور نفرت کے وائرس کو اب بھی روکا جا سکتا ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
18/ مارچ 2020

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے