بقلم: محمد تعظیم قاضی ندوی
کرونا وائرس کے پنجے ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک اس کی سفاکیت کا شکار ہے۔ اس موذی وبا نے جہاں ہر عام و خاص کو پریشان کر رکھا ہے، وہیں اس نے مسلمانوں کو بھی ماہِ مقدس میں عبادتوں سے محروم کردیا ہے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بھی یہ رمضان گزشتہ رمضان کی طرح نہیں رہا۔
اس ماہ مبارک کی رونقیں مدھم ہوگئیں۔عبادت کا جوش وخروش اور روشن چہرے کہیں روپوش ہوگئے۔ بابرکت محفلیں، مساجد و مدارس میں گونجتی تلاوت کی صدائیں کہیں مفقود ہوگئیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے اب آسودگی اور تفکرات کی لکیریں لیے نظر آرہے ہیں۔
امید لیے بیٹھے تھے کہ جلد سب ٹھیک ہوجاۓ گا مگر افسوس! دیکھتے ہی دیکھتے ”رحمت“ کا یہ عشرہ بھی دبے پاؤں رخصت ہوگیا۔
رمضان کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی جب صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے اور اس مہلک مرض کی وجہ سے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کورونا وائرس کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی مدت توسیع کردی گئی ہے۔
ملک و قوم کی بہتر حالات اور حفاظت کے پیش نظر علماء امت نے شریعت کی گنجائش کو دیکھتے ہوئے ایک طرف نماز جمعہ کے موقع پر فرزندان توحید سے گھروں میں نماز ظہر ادا کرنے کی اپیل کی تو دوسری طرف ماہ رمضان کی مخصوص عبادتیں،تروایح،قیام الیل وغیرہ کو بھی گھروں میں کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
یہ پہلا موقع ہے بابرکت رمضان کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئ کہ حقیقی معنوں میں نہ اس مبارک مہینے کا آغاز ہوا، نہ حقیقی رونقیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، نہ وہ مبارک ماحول بنا، نہ مساجد کی رونقیں نظر آرہی ہیں، نہ وہ سحری اور افطاری کا روایتی رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سے زیادہ محرومی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس مبارک مہینہ میں جب دنیا بھر کے مسلمان اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے، اپنے گناہوں پہ ندامت کے آنسوں بہانے کے لئے مساجد کا رخ کرتے ہیں آج وہ پابندی اور طرح طرح کے قیودات کے آگے عاجز ہیں۔ یہ وہ واحد مہینہ ہوتا ہے جب مساجد بھرجاتی ہیں،لیکن اس رمضان میں پانچ افراد کی شرط۔۔۔۔؟؟
کیا یہ ہماری بد قسمتی نہیں ہے؟
کیا یہ سب گناہوں کی نحوست نہیں؟
کیا یہ سب اجتماعی بے حسی پر عذاب نہیں؟
کیا یہ سب بے راہ روی کی وجہ نہیں؟
کیا یہ معصیت کا صلہ نہیں؟
کیا یہ دین سے دوری کا نتیجہ نہیں؟
اگر یہی سب ہے! تو پھر کیا کریں؟ کیا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں؟ کیا مقدر کے ستارہ کا غروب ہونا برداشت کریں؟ یا ہمت کریں؟ رب کو راضی کریں؟
آئیں مل کر رب کو منائیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اس مہلک مرض سے نجات مانگیں۔
معیشت تباہی کے دھانے پہ کھڑی ہے۔اس کے بچاؤ کی صورتیں اللہ سے طلب کریں۔
غریب طبقہ بھوک و افلاس سے بری طرح متاثر ہے، اس بابرکت مہینے میں انکی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ صدقہ تو بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔ کل عالم سے اس مہلک مرض کی دوری کی دعا کریں۔ اے اللہ! ہمیں اس مہلک مرض سے نجات عطا فرمائے۔ آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضـروری نہیں ۔
مضمون نگار ادارہ اہل منکی کے ایڈیٹر ہیں۔
05 مئی 2020
جواب دیں